ye riyasat sirf tumhari nahi sabki hai

اسلام آباد میں کہیں قانون نہیں۔۔

تحریر: ناصر جمال۔۔

یہ 28جون2022ء کا واقعہ ہے۔ اسلام آباد کے ”شقی القلب اور نفسیاتی“ اے۔ سی نے جی۔ ایٹ مرکز میں ہوٹلوں پر دھاوا بول دیا۔ ویسے تو پورا اسلام آباد ہی تجاوزات سے بھرا ہوا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے واضح ترین احکامات کے باوجود، طاقتور لوگوں کے گیسٹ ہائوس، دفاتر، ویسے ہی گھروں میں چل رہے ہیں۔ ہر طرف تجاوزات کاطوفان ہے۔ اسلام آباد ایڈمنسٹریشن، سی۔ ڈی۔ اے پولیس کے بھتے چل رہے ہیں۔ وفاقی دارلحکومت میں ان اداروں کے آپس میں بھتے پر جھگڑے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہاں تو سی۔ ڈی۔ اے کے ڈیپارٹمنٹ انکورچمنٹ کا سیجیکٹ، دوسرے کو دینے پر لڑ پڑتے ہیں۔

جی۔ایٹ میں ہونے والا آپریشن بظاہر، تجاوزات کے خلاف تھا۔ مگر یہ ’’ٹارگیٹیڈ‘‘ آپریشن تھا۔ پمز، نوری ہسپتال کےساتھ ہونے، لڑکوں کے کئی ہاسٹلز کی وجہ سے یہاں ہوٹل خوب چلتے ہیں۔ جبکہ گاڑیوں کے شوررومز ہر قدم پر جابجا بکھرے پڑے ہیں۔ اسی طرح سے یہاں میڈیکل اسٹورز بدرجہ اُتم پائے جاتے ہیں۔ یہاں تجاوزات کے نام پر ہمیشہ ہوٹلز اور میڈیکل اسٹورز نشانہ بنتے ہیں۔ یہ تماشا سال میں کم از کم چھ سے اٹھ مرتبہ ہوتا ہے۔ میں اس مرکز میں 2011 سے 2018 تک رہا ہوں۔ جبکہ 1990سے یہاں مسلسل آنا جانا بھی ہے۔ میرے سامنے اسی مرکز میں ایک چھوٹا پارک، ایمان کی حرارت والوں نے قبضہ کرکے اُسے راتوس رات مسجد میں تبدیل کردیا۔ آج یہاں اللہ اور مُلاں کا پکا گھر بمعہ بجلی اور گیس کنکشنزموجود ہے۔ زمین قبضہ کی ہے۔ آج تک سی۔ ڈی ۔ اے اور اسلام آباد انتظامیہ کو توفیق نہیں ہوئی۔وہ اس پر کاروائی کرے۔ یہاں پہلے نماز پڑھنے کے لئے چھوٹی سی جگہ بنائی گئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے، ہزار گز کے پارک پر قبضہ ہوگیا۔ یہاں پر سب سے بڑا مافیا، شورومز کا ہے۔ اس نے عوامی پارکنگ پر قبضہ کرکے، ہزاروں گاڑیاں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ پھر حالات خراب ہوئے تو، کے۔ پی سے پٹھان بھائی آگئے۔ جو شوروم چند لاکھ کا تھا۔ وہ کروڑوں کا ہوگیا۔ ان لوگوں نے پارکنگ ، گرین بیلٹ، فٹ پاتھ حتیٰ کہ چلتی سڑک بھی آدھی قبضہ کرکے گاڑیاں کھڑی کردیں۔

میں بھی 28جون کو ہی پیپلز میڈیا فائونڈیشن بلڈنگ میں ڈاکٹر جے کرشن چائلڈ اسپیشلسٹ کو چھوٹے بیٹے کو دکھانے گیا تھا۔ جہاں” میڈیا“ کے نام پر بننے والی بلڈنگ پی پی پی کے شیروں کے طفیل ڈاکٹروں کے قبضے میں ہے۔ پیپلزمیڈیا والے نوٹ چھاپ رہے ہیں۔ واپسی پر کچھ لینے کے لئے، ایک ہوٹل پررکا تو ہوٹل کا مالک آگیا۔ وہ مجھے جانتا ہے۔ میں نے انھیں کہا کہ خیر ہے۔ دس بجے ہی آپ نے تمام لائٹس بجھا دی ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں عجیب کرب تھا۔ بھرائی آواز میں مجھے کہنے لگا، وہ کائونٹر دیکھ رہے ہیں آپ، اس کے اشارے پر دیکھا تو وہاں جابجا، تباہ شدہ کائونٹرز تھے۔ جنہیں باقاعدہ کچل کر تباہ کیا گیا تھا۔ تاکہ یہ کسی استعمال کے قابل ہی نہ رہیں۔ اس نے مجھے کہا کہ ہمارا تو جو کیا سو کیا۔ بلال کیفے اور تندوری والوں کو تو اس نے برباد کردیا۔ کم از کم ایک کروڑ روپے کا نقصان کرکے گیا ہے۔ اے۔ سی نے کسی کی نہیں سنی۔ ایسا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ کمشنر، ڈی۔ سی، اے۔ سی پہلے بھی آتے ہیں۔ جرمانہ کرتے۔ چلے جاتے ہیں۔ مجھے آپ بتائیں۔ ان سخت ترین حالات میں، ایک کروڑ کا نقصان کرکے اسے کیا ملا ہے۔ آپ کو پتا ہے۔ کاروبار کرنا کتنا مشکل ہوگیا ہے۔ مہنگائی کہاں چلی گئی ہے۔ مہنگی بجلی، گیس، پٹرول، اشیائے خوردونوش، تیل، کنٹرول سے باہر ہوگئے ہیں۔ اس پر، ضلعی انتظامیہ ، سی۔ ڈی۔ اے، پولیس، فوڈ کنٹرول، آئیسکو،ایف۔ بی۔ آر انجمن تاجران، صحافی مقامی کن ٹوٹے، کس، کس کو بھگتیں، آپ کیا سمجیں گے۔ یہ جو نقصان ہوا۔ اُسے کتنی مشکل سے پورا کیا جائے گا۔ ہم حکومت سے کہتے ہیں۔ وہ ہم سے فکس ٹیکس لے۔ ہمارے ہوٹلوں کے باہر، فٹ پاتھ چھوڑ کر ہمیں جگہ لیز کر دے۔ تاکہ حکومت کو پیسے جاہیں۔ ہمیں ایف۔ بی۔ آر، سی۔ ڈی۔ اے ضلعی انتظامیہ، پولیس تنگ نہ کرے۔

آپ ہی بتائیں۔ ہمارے اوپر تو انھوں نے قیامت برپا کر دی۔ ہر ہوٹل کے ساتھ شورومز ہیں۔ ہزاروں گاڑیاں کھڑی ہیں۔ کیا یہ ناجائز تجاوزات نہیں ہیں۔ انھیں صرف یہ پانچ دس ہوٹل ہی کیوں نظر آتے ہیں۔ کیا شورومز والے ان کی پھوپھی کے بیٹے ہیں۔ ہم نے کئی لوگوں کو روزگار دیا ہوا ہے۔ اپنے بچوں کے لئے حلال رزق کما رہے ہیں۔ بیس گھٹنے تک کام کرتے ہیں۔ ٹیکس دیتے ہیں۔ پر امن، قانون پسند اور ہم مجبور شہری ہیں۔ بلکہ غلام شہری ہیں۔ شورومز پر بڑے، بڑے لوگوں کی لینڈ کروزرز کھڑی ہیں۔ جاپانی گاڑیاں ہیں۔ اس طرف کوئی نہیں جاتا۔ جیسے ہمارے کائونٹر کچل دیئے ہیں۔ یہ گاڑیاں کیوں نہیں کچلتے۔ حکومت پر حکومت بدلتی ہے۔ مگر ہمارے اوپر بابوئوں کا عذاب ویسے ہی ہے۔ ہمیں ہمارا قصور تو بتایا جائے۔

قارئین!!!

ہوٹل کے مالک کے لہجے کا کرب، آنکھوں میں جلتے شعلے، مجھ سے دیکھے نہیں جارہے تھے۔ ایک بڑے اخبار کے کرائم رپورٹر کو کہا، اس نے انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ ڈی سی نے آگے سے کہا کہ ہم نے اے۔ سی کو ہوٹل مالکان اور تاجروں سے معافی مانگنے کا کہا ہے۔ جب جی۔ ایٹ کے متاثرین سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ یہاں تو کوئی نہیں آیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوٹ پرنٹ کرنے والی مشین (اسلام آباد انتظامیہ) مظلوم لوگوں کے نقصان کا ازالہ کیسے کرے گی۔ وہ تو نوٹ اپنے لئے پرنٹ کرتی ہے۔

قارئین!!!

مجھے تو سب سے زیادہ افسوس، پاکستان پبلک سروس کمیشن پر ہے۔ وہ اس ملک کو کیسے آفیسر دے رہی ہے۔ وہ ان لوگوں کا نفسیاتی تجزیہ کیوں نہیں کرواتی۔ عوام کے ساتھ تذلیل کا ٹیسٹ میچ کھیلنے والے ایسے افسروں کو وہ نشان عبرت کیوں نہیں بناتی۔ اور یہ سول سروس اکینڈمی کیا کررہی ہے۔ ظاہر ہے۔ عمر رسول جیسے لوگ، جب یہاں پر سربراہ ہونگے، تو ایسا ہی ’’اسٹف‘‘ نکلے گا۔ کچھ عرصہ قبل، لوگ اس ضمن میں سوشل میڈیا پر پھرتیاں دیکھ ہی چکے ہیں۔

 میں نے اس واقعہ پر کئی سیکرٹریز سے رابطہ کیا۔ سب کا جواب ایک ہی تھا۔ اس اے۔ سی کی پہلے بھی بہت شکایات ہیں۔ آپ نے جو لکھنا ہے۔ لکھ لیں۔ ہونا کج وی نہیں۔

وہ ٹھیک ہی کہہ رہے تھے۔ ظاہر ہے۔ فرزند مہدی عامر احمد علی یہاں بیک وقت کمشنر اور چیئرمین سی۔ ڈی۔ اے ہے۔ اس شخص نے بطور  اے سی، اے۔ ڈی۔ سی۔ جی۔ ڈپٹی کمشنر تمام نوکری تقریباً یہیں کی ہے۔ اس نے اس شہر اور اس کے انتظامی ڈھانچے کو برباد کردیا۔ میں خود ایک واقع کا شاہد ہوں۔ تحصیل دار کو پچاس ہزار نہ دینے پر، وہ شخص تمام تر سفارشوں کے باوجود، کس، کس عذاب سے گزرا۔ شریف شہری نے تحصیل دار کو یہ کہا تھا تمہیں پچاس ہزار نہیں دوں گا۔ وکیل کو پانچ لاکھ دے دوں گا۔ میرے ایک صحافی دوست نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کو درخواست دو میں نے ہنس کر میری تقی میر کا شعر پڑھا۔

میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب

اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

قارئین!!!

آپ یقین کریں۔ یہ ملک برباد ہورہا ہے۔ اگر اسلام آباد میں کہیں قانون نہیں۔ جزا و سزا نہیں۔ تو اس ملک کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ آپ ایک غیر مہذب معاشرے میں اپنے بچوں کہ مہذب تعلیم دے کر، ان کا بھی بیڑہ غرق کررہے ہیں۔ انہیں ابھی سے  گالم گلوچ ،بدتہذبیی،دھوکا،جھوٹ، منافقت، ڈاکا مارنا سکھائیں۔ورنہ وہ برباد اور تنہا رہ جائیں گے۔

 شیروانی، کوٹ، بوٹ، اس کو تباہی کی آخری جگہ پر پہنچا چکے ہیں۔

یہاں پیسہ، رشتہ داری، طاقت ہی سب کچھ ہے۔ ریاست کا کتابی تصور یہاں ناپید ہوچکا ہے۔

کپتان سے لیکر شہباز سپیڈ، سب دھوکا ہے۔

قارئین!!!

میں نے کبھی رانا ثناء اللہ کے اوپر 25کلو ہیروئن ڈالنے پر سخت ترین کالم لکھے تھے۔ صحافی مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ کبھی باربی کیو ٹونائٹ اسلام آباد میں انھوں نے میرا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔

آج  وہ وزیر داخلہ ہیں۔ ان کے ہرکارے پاگل کتوں کی طرح شہریوں کو کاٹتے پھر رہے ہیں۔ اس کی اطلاع محترم علی نواز ملک کو دے چکا ہوں۔ جو کہ ان کے سٹاف کے اہم افسر ہیں۔

کیا وزیراعظم شہباز اسپیڈ اور راجپوت وزیر داخلہ کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ اس ظلم کا نوٹس لیکر عام آدمی کو ریلیف دیں۔ اور اسلام آباد کو عامر احمد علی جیسے سائے سے آزاد کریں۔ جو کہ عمران خان کا ایک تحفہ ہے۔ جسے اس نے آپ ہی سے گودلیا تھا۔ ہے کوئی جو بیورو کریسی کے غنڈہ راج کو ختم کرے۔(ناصر جمال)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں