تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
مجھ سے پوچھیں تو یہ معمول کی مون سون کی بارشیں تھیں جنہوں نے بقول ٹی وی چینلز کے اسلام آباد کو ڈبو دیا۔ خبریں اتنی خوفناک تھیں کہ مجھے دوپہر کے وقت ملتانی دوست سجاد جہانیہ کا پریشانی میں فون آیا کہ تم لوگ ٹھیک تو ہو؟ ٹی وی پر جو فوٹیج چل رہی ہے اس سے تو یہی لگتا ہے شہر ڈوب رہا ہے۔ سجاد جہانیہ کا شکریہ ادا کیا کہ اسے احساس ہوا کہ وہ فون کر کے میری اور میرے بچوں کی خیریت دریافت کرے۔ دل کو ایک سکون سا ملا کہ چلیں بائیس کروڑ کے اس ملک میں کم از کم ایک بندہ یا دوست تو ایسا نکلا جو اسلام آباد کی دل دہلا دینے والی خبریں سن کر میری خیریت کیلئے فون کررہا تھا۔
تو کیا واقعی اسلام آباد ڈوب گیا تھا؟ بہت سے لوگوں نے تحریک انصاف کی حکومت پر جگتیں ماریں کہ دیکھیں پہاڑیوں پر قائم شہر کو بھی ڈبو دیا۔ کب کسی نے سنا ہوگا کہ پہاڑ پر واقع آبادی ڈوب گئی ہو۔ کسی نے اسے وزیراعظم عمران خان کے اس مذاق کا جواب قرار دیا جو وہ بلاول بھٹو کو ہر تقریر میں چڑاتے تھے کہ ‘زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے‘۔ وزیروں نے بھی باقاعدہ بلاول کی آواز نکالنے اور چڑانے کی پریکٹس کر کے ٹی وی شوز میں مذاق اڑانا شروع کیا ہوا تھا۔ اب وہ سب وزیر اور خان صاحب غائب تھے کہ اسلام آباد کے سیکٹر ای الیون کے ڈوبنے کا کیا جواز پیش کریں؟ شاید کرما اسی کا نام ہے کہ آپ دوسرے کے بارے میں برا سوچتے یا برا کرتے ہیں تو وہ آپ کی طرف لوٹ کر آتا ہے۔ کبھی کبھار تو مجھے لگتا ہے کرما بھی نیوٹن کا تھرڈ قانون ہے جو گیند کی طرح اس بندے کی طرف سیدھا لوٹ آتا ہے جو اسے زور سے دیوار پر مارتا ہے۔
میں اگر اسلام آباد کا نوحہ لکھوں تو لوگ یا ہنستے ہیں یا طعنے دیتے‘ طنز کرتے ہیں۔ اکثر دوستوں کو شوق ہے کہ وہ اسلام آباد کی تصویریں سوشل میڈیا پر لگا کر دوسرے علاقے کے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دیکھو ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ اتنا خوبصورت شہر ہمارے قدموں میں ہے اور ایک تم ہو کہ جن شہروں میں رہتے ہو وہاں کی گندگی اور بدانتظامی ہی تمہاری سب سے بڑی دشمن ہے۔ انسانی مزاج ہے کہ وہ اپنی برتری چاہتا ہے اور اس احساس کو زندہ رکھنے کیلئے وہ مختلف طریقے استعمال کرتا رہتا ہے۔
اسلام آباد کو کیا ہوا ہے؟ اسے کراچی کے لوگوں کی نظر لگ گئی ہے کیونکہ وہ سب کچھ اب اسلام آباد میں ہونے لگا ہے جو کبھی کراچی کا خاصہ تھا۔ کراچی کی طرح اسلام آباد کی آبادی یکدم بڑھ گئی ہے‘ جرائم کنٹرول سے باہر ہورہے ہیں۔ چند کلومیٹر کا شہر اب کئی کلومیٹر پر محیط ہوگیا ہے اور روز نئی نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کا افتتاح ہورہا ہے۔ خود سی ڈی اے نے قومی اسمبلی میں انکشاف کیا تھا کہ اس چھوٹے سے شہر میں ایک سو بیس کے قریب تو غیرقانونی ہائوسنگ سوسائٹیز تھیں‘ یہ قانونی سوسائٹیز کے علاوہ تھیں۔ حیران ہوتا ہوں کہ پورا ملک اسلام آباد میں پلاٹ خرید رہا ہے۔ اور کوئی کام نہیں رہ گیا؟ اگر مجھ سے پوچھیں کہ اسلام آباد میں ایک کام کون سا ہورہا ہے تو میں کہوں گا پراپرٹی بزنس۔ اسلام آباد کے کھالے‘ نالے‘ قبرستان‘ پارک سب کچھ عوام کو بیچ دیا گیا ہے۔ کھال اتار لی گئی ہے۔ اب مجھے سمجھائیں ای سیکٹرز مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع ہیں۔ اب جب پہاڑ پر بارش ہوگی تو پانی نیچے ڈھلوان کی طرف ہی جائے گا۔ شہر آباد ہونے سے پہلے بارش کا پانی اپنے قدرتی راستوں سے نکل جاتا تھا۔ جب شہر چھوٹا تھا تو بھی جس نے شہر کا نقشہ بنایا تھا اس نے قدیم راستوں کو نہیں چھیڑا۔ آج بھی آپ کو اسلام آباد کے ابتدائی سیکٹرز کے درمیان سے بڑے بڑے نالے گزرتے ملتے ہیں جس کی وجہ سے شہر میں پانی نہیں رکتا۔ یہ نالے پنڈی جا کر بڑے نالوں میں ملتے ہیں جو آگے نکل جاتے ہیں۔ اب یہ ہونا شروع ہوا کہ ہم سب نے شہر سے گزرتے ان نالوں میں گند پھینکنا شروع کر دیا اور سب نالے گندگی سے بھر گئے۔ یوں سیوریج کا مسئلہ پیدا ہوا اور اب تو ایف سیکٹرز میں بھی بارش کی وجہ سے پانی گھروں میں داخل ہونا شروع ہوگیا ہے۔ ای الیون سیکٹر جو اَب پانی میں ڈوبا ہوا تھا اس کی کہانی مزید اذیت ناک ہے۔ وہاں پہاڑوں سے آنے والے بارش کے پانی کے قدرتی راستے اور نالے مٹی ڈال کر برابر کر دیے گئے اور انہیں پلاٹ بنا کر بیچ دیا گیا۔مجھے یاد ہے 2011 ء میں‘ میں نے ایک سکینڈل انگریزی اخبار میں بریک کیا تھا کہ اُس وقت کے نواز لیگ کے ایم این اے انجم عقیل خان نے نیشنل پولیس فائونڈیشن (ای الیون سیکٹر) کے ساتھ چھ ارب روپے کا فراڈ کیا تھا۔ زمینوں کی خرید وفروخت میں بڑے پیمانے پر ہیر پھیر کیا گیا تھا۔ اس سکینڈل کانوٹس اس وقت کے چیف جسٹس افتخارچوہدری نے لیا تھا اور مجھے بھی سپریم کورٹ نے سمن کیا تھا اور میں نے سب دستاویزی ثبوت عدالت کے سامنے رکھے تھے جس پر دو تین سال کی سماعت کے بعد نیب کو حکم دیا گیا کہ وہ انجم عقیل خان کے خلاف کارروائی کرے۔ اس فیصلے کو آٹھ برس گزر گئے‘ انجم عقیل خان کو کوئی ہاتھ لگانے کی جرأت نہ کرسکا۔ ایک پراپرٹی ڈیلر نے فراڈ کر کے اربوں کمائے‘ لوگوں کو نالے اور قبرستان بیچے اور ساتھ میں انہی کا نمائندہ بن کر اسمبلی بھی پہنچ گیا۔ بتائیں پھر کون ان لوگوں پر ہاتھ ڈالے اور انہیں اسلام آباد کو برباد کرنے سے روکے؟ نیب کو یاد بھی نہیں ہوگا کہ کوئی انجم عقیل نام کا ملزم بھی تھا جس کے بارے میں عدالت نے کارروائی کاحکم دیا تھا۔ میرے اس سکینڈل بریک کرنے کا یہ فائدہ ہوا کہ انجم عقیل سے چھ ارب روپے کی ریکوری کرائی گئی ۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے کے سابق افسر ظفر قریشی نے بہت اہم کردار ادا کیا‘ لیکن فراڈ اور لوٹ مار کے جرائم پر سپریم کورٹ نے کارروائی کا جوحکم دیا تھا اس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوا۔ انجم عقیل نے اپنے جرائم کو باقاعدہ ایک بیان حلفی میں لکھ کر تسلیم کیا تھا کہ اس نے کیسے کیسے فراڈ کیے ۔ نواز شریف نے 2013ء میں پھر اسی کو ٹکٹ دیا کیونکہ وہ بھی ایک تگڑی ATM تھا۔
یہ بات مان لیں کہ یہ ملک اب بلڈرز اور پراپرٹی ڈیلرز کی گرفت میں ہے۔ ایک طرف اسلام آباد جیسے شہر میں قدرتی نالے بیچے جارہے ہیں تو دوسری طرف ملک بھر میں زرعی زمینیں کھائی جارہی ہیں۔ ہم پہلے دالیں منگواتے تھے تو اب تین سال سے گندم‘ چینی اور کاٹن بھی اربوں ڈالرز خرچ کرکے منگوا رہے ہیں۔ ابھی کل‘ پرسوں ہی اٹھارہ ارب روپے کی چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چالیس لاکھ ٹن گندم پچھلے سال منگوائی گئی تھی تو بمپر کراپ کے نعروں کے باوجود دس لاکھ ٹن اب منگوائی جارہی ہے۔ پچھلے سال دو ارب ڈالرز کی تو صرف کاٹن منگوائی گئی۔ یوں دس ارب ڈالرز کے قریب گندم‘ چینی اور کاٹن منگوائی گئی ہیں کیونکہ زمینیں کے سینے میں اب بیج کے بجائے سریا اور سیمنٹ ٹھوکا جارہا ہے۔ اسی طرح اسلام آباد جیسے شہروں میں اب برساتی نالوں کو برابر کرکے پلاٹ پیدا کیے جارہے ہیں۔ آپ پانی کا بہائو روکیں گے تو اس نے کہیں نہ کہیں کا رخ تو کرنا ہے۔ ای الیون کی جن سڑکوں پر آپ نے سیلاب کے خوفناک مناظر دیکھے یہ سب قریبی پہاڑیوں سے بارش کے پانی کے گزرنے والے قدیم راستے تھے۔ انسان خود تو بھول گیا کہ یہاں کبھی برساتی نالے تھے لیکن پانی اپنا راستہ نہیں بھولتا‘مگر نہ ہم نے پہلے سبق سیکھے ہیں اور نہ اب سیکھیں گے۔ چند دن مون سون کی بارشوں کا شور مچے گا‘ اگلے ماہ سب کچھ نارمل ہوگا۔کس کو یاد رہے گا کہ ان بارشوں میں ای الیون کی بیسمنٹ میں پھنسی ایک ماں اور اس کے بیٹے کو بچانے کیلئے اسلام آباد ریسکیو کو فون کال کی گئی تو جواب ملا کہ یہ ان کی ڈیوٹی میں شامل نہیں ۔ بدنصیب ماں بیٹا ڈوب گئے جبکہ سرکاری بابوز فیصلہ کرتے رہے کہ پانی میں ڈوبے لوگوں کو نکالنا کسی کی ذمہ داری ہے۔
یہ ہے وہ تیزی سے زوال پذیر‘بڑھتی آبادی اور جرائم کا شکار اسلام آباد جہاں سب ہر قیمت پر رہنا چاہتے ہیں۔(بشکریہ دنیا)