تحریر: علامہ ابتسام الہیٰ ظہیر۔۔۔
ابلاغیات کے حوالے سے مجھے ماضی میں پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کے سامنے اپنی گزارشات کو رکھنے کا موقع ملتا رہا ہے۔10جون کو 2بجے میں نے ایک مرتبہ پھر ابلاغیات کے اساتذہ اور طلبہ کے سامنے اپنی چند گزارشات کو رکھا جن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
صحافت عربی لفظ ہے جو صحف یاصحیفے سے نکلا ہے جس کا مطلب رسالہ یا کتاب ہوتا ہے ۔ صحافت اصطلاحی طور پر ایک ایسے عمل کا نام ہے جس میں مطبوعہ مواد تسلسل کے ساتھ مقررہ مدت میں شائع کیا جائے جبکہ اخلاقیات اصولوں کے اس مجموعے کے نام ہے جو انسان کے طرزِ عمل پر حکمرانی کرتا ہے۔ صاحبِ اخلاق شخص ہمیشہ معاشرے کی نگاہوں میں پسندیدہ ہوتا ہے اور بد اخلاق شخص سے معاشرہ کراہت محسوس کرتا اور اس کی شرارت اور فتنے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
جہاں پر انفرادی زندگی میں انسان کے اعلیٰ اخلاقی اصول اہمیت رکھتے ہیں وہاں پر اجتماعی حوالوں سے بھی اخلاقی اقدار کی پیروی انتہائی ضروری ہے۔ برصغیر میں بہت سے مسلمان صحافی ایسے گزرے ہیں جنہو ں نے بامقصد صحافت کو اختیار کیا اور صحافتی اخلاقیات اور ضابطوں کی بھرپور انداز میں پیروی کی۔ مولانا ظفر علی خان ، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد سیاسی اور مذہبی سطح پر بڑے رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے نامور صحافی بھی تھے اور یہ رہنما زمیندار، ہمدرد، کامریڈ، الہلال اور البلاغ جیسے جرائد کے ذریعے عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے۔ ہمیں جہاں پر ان صحافیوں کے طرزِ عمل سے استفادہ کرنا چاہیے‘ وہیں پر کتاب وسنت سے صحافتی اخلاقیات کے حوالے سے ملنے والے اصولوں سے بھی بھرپور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اسی طریقے سے ہم صحافت کو صحیح معنوں میں معاشرے کی تربیت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ صحافتی اور ابلاغیاتی اخلاقیات کے حوالے سے کتاب وسنت سے ہمیں جو رہنمائی حاصل ہوتی ہے وہ مختلف نکات پر مشتمل ہے جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔۔
1۔ خبر کی تحقیق: کسی بھی صحافی پر خبر کی سچائی کے حوالے سے گہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جس خبر کی بھی نشرواشاعت کرے اس کی تصدیق اور جانچ پڑتال ضرور کر ے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں سچائی کی اہمیت کو بہت احسن انداز میں اجاگر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیات 70 تا 71میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اہل ایمان کو سچوں کا ساتھ دینے کی تلقین کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت 119میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو اور ہو جاؤ سچ بولنے والوں کے ساتھ‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ قرآنِ مجید میں اس بات کو بھی واضح فرمایاہے کہ اگر کوئی فاسق اہلِ ایمان کے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اہلِ ایمان کو اس خبر کی تصدیق کر لینی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجرات کی آیت 6میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اے (وہ لوگو) جو ایمان لائے ہو! اگر آئے تمہارے پاس کوئی فاسق کسی خبر کے ساتھ‘ تو تم تحقیق کر لیا کرو اچھی طرح (ایسا نہ ہو) کہ تم تکلیف پہنچاؤ کسی قوم کو نادانی سے‘ پھر تم ہو جاؤ اس پر جو تم نے کیا پشیمان۔‘‘ اس آیت میں افواہ سازی کرنے والوں کے لیے بہت بڑی تنبیہ ہے۔
2۔ جانبداری سے احتراز: کسی بھی صحافی کو کسی شخص‘ جماعت یا ادارے کے بارے میں خبر لگاتے ہوئے جانبداری سے احتراز کرنا چاہیے۔ اگر صحافی کسی کو ناپسند کرتا ہے اور اس کے حوالے سے کوئی مثبت خبر سامنے آتی ہے تو اسے اس خبرکو دبانا نہیں چاہیے۔ اس حوالے سے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8 کو مدنظر رکھنا چاہیے : ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ہو جاؤ قائم رہنے والے اللہ کے لیے گواہی دینے والے انصاف کی اور نہ ہرگز آمادہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو ۔ عدل کیا کرو (کہ) وہ زیادہ قریب ہے تقویٰ کے‘‘۔
اسی طرح صحافی پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اسے اگر اپنی من پسند جماعت، لیڈر یا شخصیت کے حوالے سے اگر کوئی منفی خبر ملے تو اس کو چھپانانہیں چاہیے ۔ اس حوالے سے صحافی کو سورہ نسا کی آیت 135کو اپنے مدنظر رکھنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس آیت میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! ہو جاؤ انصاف پر قائم رہتے ہوئے گواہی دینے والے اللہ کی خاطر اور اگرچہ اپنے آپ کے خلاف ہی ہو یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے (خلاف ہی کیوں نہ ہو) اگر ہو وہ امیر یا فقیر تواللہ تعالیٰ (تم سے) زیادہ خیر خواہ ہے اُن دونوں کا تو نہ پیروی کرو خواہشِ نفس کی کہ تم عدل (نہ) کرو اور اگر توڑ مروڑ کر بات کرو گے (گواہی دیتے ہوئے) یا منہ موڑو گے (گواہی دینے سے) تو بے شک اللہ (اُس) پر جو تم عمل کرتے ہو خوب خبردار ہے‘‘۔
3۔ الزام تراشی سے گریز: صحافی پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں کسی کی کردار کشی کرنے سے احتراز کرے اور کسی پر غلط الزام تراشی سے بچنے کی بھی جستجو کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں پاکدامن عورتوں کی کردار کشی کرنے والے اور ان پر بدکرداری کا الزام لگانے والوں کے لیے قذف کی سزا (یعنی 80 کوڑوں کی سزا)کو مقرر کیا ہے۔ قانونِ قذف پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کسی بھی شخص کے لیے یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ کسی کی کردار کشی اور الزام تراشی والا راستہ اختیار کرے۔ ہتکِ عزت اور توہین عدالت کے قوانین کا مقصد درحقیقت الزام تراشی ہی کو روکنا ہے۔
4۔اظہارِ حق: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے مختلف مقام پر حق چھپانے والے پر سخت وعید سنائی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیات 159 تا 160میں ارشاد فرماتے ہیں: ”بے شک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں اسے‘ جو ہم نے نازل کیا واضح دلائل اور ہدایت کو اس کے بعد کہ ہم نے کھول کر بیان کر دیا اسے لوگوں کے لیے (اس) کتاب میں ۔ وہی لوگ ہیں (کہ) لعنت کرتا ہے ان پر اللہ اور لعنت کرتے ہیں ان پر لعنت کرنے والے۔ مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی اور اصلاح کر لی اور بیان کر دیا (جسے چھپاتے رہے) تو وہی لوگ ہیں کہ میں توبہ قبول کرتا ہوں ان کی اور میں ہی توبہ قبول کرنے والا نہایت مہربان ہوں‘‘۔ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحافی کو حق بات کا اظہار کرتے رہنا چاہیے ؛ تاہم اہم قومی راز اور دفاعی معاملات کے حوالے سے اگر کوئی راز صحافی کے سامنے آ جائے تو اس کو اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔
5۔ حق وباطل کی آمیزش سے گریز: قلم کار حق اور باطل کی آمیزش سے کسی وقوعے سے متعلقہ معلومات میں بہت بڑی خیانت کر سکتا ہے؛ چنانچہ جہاں پر اسے حق بات کو چھپانے سے گریز کرنا چاہیے‘ وہیں پر اس کو حق وباطل کی آمیزش سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 42میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور خلط ملط نہ کرو حق کو باطل کے ساتھ اور حق کو (نہ) چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو۔‘‘
6۔ فحاشی کی نشرواشاعت سے احتراز: اہلِ صحافت پر جہاں پر دیگر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہیں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ معاشرے میں فحاشی کی نشرواشاعت سے گریز کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرمایا: ”بے شک وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں کہ پھیلے بے حیائی ان لوگوں میں جو ایمان لائے ہیں‘ ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘۔
اگر مذکورہ بالا نکات پر عمل کر لیا جائے تو یقینا ہمارے ملک کی صحافت میں بہت زیادہ بہتری آ سکتی ہے۔ (بشکریہ دنیا)