تحریر: انصار عباسی۔۔
عمران خان وزیر اعظم نہیں رہے۔ اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو گئی۔ اچھا ہوتا خان صاحب اس حد تک معاملات کو نہ آنے دیتے اور پہلے ہی استعفا دے دیتے۔تحریکِ انصاف کی حکومت جیسے تیسے آئی تھی، اُس سے بہت سوں کو بہت امیدیں تھیں لیکن عمران خان کا طرز حکمرانی اُس ویژن کے بالکل برعکس تھا جس کا وہ ہمیشہ پرچار کرتے رہے ۔ وہ کرکٹ کے بہترین کپتان رہے لیکن جب حکمرانی ملی تو اپنی ٹیم ایسی بنائی جس کے بارے میں کسی کو کبھی شک نہیں تھا کہ وہ ناکام ہو گی،ڈیلیور نہیں کر سکتی، لوگوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتی اور ایسا ہی ہوا۔معیشت کا حال پہلے سے زیادہ خراب ہو گیا اور اس کی بہت بڑی وجہ ملک میں وہ سیاسی عدم استحکام تھا،جس کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ عمران خان صاحب خود تھے۔
خان صاحب حکومت میں آنے کے پہلے دن سے آخری روز تک اپوزیشن سے لڑتے ہی رہے، اُنہیں چور چور ڈاکو ڈاکو ہی کہتے رہے، کبھی ایک بار بھی اُن کے ساتھ قومی مفاد کی اہمیت کے مسئلہ پر مل کر نہ بیٹھے، حتیٰ کہ ہاتھ تک نہ ملایا۔ بلاشبہ ہماری سیاست میں چور بھی ہیں، ڈاکو بھی ہیں لیکن خان صاحب کسی ایک ـچور یا ڈاکو کا احتساب نہ کر پائے، جیلوں میں اپنے مخالفین کو ضرور بھیجا ، نیب میں کئی جھوٹے کیس بھی بنائے۔
اس دوران نفرت اور بدتمیزی کی سیاست اتنی بڑھ گئی کہ اس کا زہر پورے معاشرے میں پھیل گیا اور اس کا واضح ثبوت ہم نے میڈیا میں بھی دیکھا جو معاشرہ اور ہر گھر کی طرح ایسا تقسیم تھا کہ یا تو عمران خان کے حق میں یا اُن کی حکومت کے خلاف۔حالیہ دنوں میں اگر ایک طرف عمران خان کی محبت میں میڈیا کے ایک حصے نے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنایا تو دوسری طرف بغضِ عمران میں میڈیا کے دوسرے حصے نے بھی تمام حدیں پار کر دیں اور اپوزیشن کا مائوتھ پیس بن گیا، جھوٹی خبریں چلائیں اور انتہائی غلط قسم کے القابات تک عمران خان کے لیے استعمال کیے۔
اپنی حکومت کے دوران عمران خان کی اگر بہت سی ناکامیاں تھیں تو اُنہوں نے دنیا بھر میں جس طرح اسلام کا دفاع کیا، اسلامو فوبیا کے خلاف آواز اُٹھائی، اسلام مخالف گستاخانہ عمل کی مذمت کی، اپنے دینی شعائر کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ اُنہیں اقوام عالم کے سامنے فخر سے پیش کیا۔عمران خان کی کوششوں کے نتیجہ میں ہی گزشتہ ماہ اقوام متحدہ نے ایک قرارداد پاس کی جس کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف دن منایا جا ئے۔ بیرونی اور اندرونی میڈیا سے بات کرتے ہوئے خان صاحب نے بارہا فحاشی و عریانی کے خلاف اور پردے کے حق میں بات کی جس پر میڈیا، سیکولر طبقے اور سیاسی مخالفین نے ان کا مذاق اُڑایا۔اس سب کے باوجود وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے کہ پاکستان کے معاشرے کی اسلامی اقدار کے مطابق تعمیرِ نو کی ضرورت ہے اور یہی ہماری تباہی سے بچت اور کامیابی کا واحد ذریعہ ہے۔
اس سلسلے میں عمران خان نے رحمت للعالمینﷺ اتھارٹی قائم کی جس کا مقصد اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر معاشرے اور افراد کی کردار سازی کرنا ہے۔ عمران خان حکومت نے اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے کچھ اور بھی عملی اقدامات کیے لیکن نہ صرف اپنی حکومت میں کوئی ان کاان معاملات میں ساتھ دینے والا تھا بلکہ اُن کے مخالفین اور میڈیا عمران خان کو اُن کا ماضی ہی یاددلاتا رہا اور اُس کا مذاق اُڑاتا رہا۔
اُن کی حکومت کی پالیسیوں اور کچھ ذاتی رویوں سے ہزار اختلاف کے باوجود، میں نے عمران خان کو اسلام کے معاملے میں ہمیشہ مخلص پایا۔ لبرل میڈیا اور مخالفین، عمران خان پر الزام لگاتے رہے کہ وہ اسلام کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں لیکن میں اس بات سے متفق نہیں۔ میں نے کسی دوسرے سیاستدان کو اس طرح اسلام کا مقدمہ پیش کرتے نہیں دیکھا جیسے عمران خان نے کیا۔میڈیا کے ڈر سے تو سیاستدان اسلام کا نام نہیں لیتے اور فحاشی کی بات تک نہیں کرتے لیکن عمران خان بار بار اپنی بات کرتے رہے۔عمران خان کی حکومت چلی گئی اور اب اپوزیشن کی کئی جماعتوں پر مشتمل ایک نئی حکومت قائم ہو گی جس کے وزیر اعظم تو شہباز شریف ہوں گے لیکن اُس کے روحِ رواں آصف علی زرداری ہوں گے۔سو عمران خان تو چلے گئے اب قوم کو زرداری مبارک ہوں۔ یہ حکومت کوئی پانچ چھ ماہ چلے گی، کیسے چلے گی اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کیوں کہ کوئی دو چار ایم این اے ادھر اُدھر ہو گئے تو حکومت ختم ہو سکتی ہے۔ پھر ایک ایک ممبر کو حکومت کے ساتھ رکھنا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔
اتحادی کئی ہیں، ہر ایک کی اپنی اپنی سوچ اور اپنی اپنی ترجیحات ہیں۔ یہ تمام اتحادی آئندہ انتخابات میں ایک دوسرے کے مخالف ہوں گے۔ خدشات بہت ہیں لیکن میری دعا ہے کہ پاکستان کو سیاسی و معاشی استحکام ملے اور ہم اس ملک کو ایک آزاد خودمختار اسلامی فلاحی ریاست بنا سکیں ۔(بشکریہ جنگ)