تحریر: جاوید چودھری
لوسی تانیا ، ٹائی ٹینک کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا بحری جہازتھا ، یہ برطانوی کمپنی نے انیس سو سات میں مکمل کیا اور اس نے ستمبر میں اپنا سفر شروع کردیا، برطانیہ اور جرمنی کے درمیان 1914 میں پہلی عالمی جنگ چھڑ چکی تھی‘ امریکا غیر جانب دار تھا لیکن جرمنی اور برطانیہ دونوں اسے جنگ میں گھسیٹنا چاہتے تھے‘ لوسی تانیا برطانیہ اور امریکا کے درمیان چلتا تھا‘ یہ مسافروں کو سات دن میں امریکا سے برطانیہ اور برطانیہ سے امریکا پہنچا دیتا تھا۔
جہاز یکم مئی 1915 کو 1960 مسافروں کو لے کر نیویارک سے لیور پول کی طرف روانہ ہوا‘ کپتان ولیم تھامس ٹرنر تھا‘ ٹرنر اس وقت دنیا کا سب سے بڑا جہاز ران تھا‘ یہ 58 سال کا مضبوط اورذہین کپتان تھا‘ جہاز پانچ دن میں اٹلانٹک اوشن میں سفر کرتا ہوا 6 مئی کو آئر لینڈ کی آبی حدود میں داخل ہوگیا‘ پورا سفر خیریت سے گزر گیا لیکن پھر اچانک جہاز کے اردگرد آب دوزوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں‘ لوسی تانیا جرمن بحریہ کے نرغے میں آ چکا تھا‘ کپتان نے اسپیڈ بڑھانے کا حکم دیا اور خطرے کے سائرن بجا دیے‘ جہاز نے آب دوزوں سے بچنے کی کوشش کی لیکن پھر یہ آبی بم (تارپیڈو) کی زد میں آ گیا۔
جرمنوں نے لوسی تانیا کی پوری سائیڈ اڑا دی‘ جہاز میں پانی بھرنا شروع ہوا اور یہ 20 منٹ میں ڈوب گیا‘ 1201 مسافر مر گئے‘ جہاز میں 141 امریکی شہری سوار تھے‘ ان میں سے 128 ہلاک ہو گئے‘ صرف 13 بچے‘ یہ ایک خوف ناک حملہ تھا‘ امریکا کو غصہ آ گیا‘ یہ غصہ بڑھتے بڑھتے امریکا کو جنگ تک کھینچ لایا اور بالآخر یہ بھی جنگ عظیم اول کا حصہ بن گیا اور اس کے ایک لاکھ 17 ہزار فوجی ہلاک اور پانچ لاکھ زخمی ہو گئے۔آج اس واقعے کو 104 سال ہو چکے ہیں‘ برطانیہ اور امریکا نے ان 104 برسوں میں لوسی تانیا کی تباہی کا جائزہ لینے کے لیے بے شمار کمیشن بنائے‘ دونوں ملکوں کی 11 یونیورسٹیوں نے اس واقعے پر تحقیق کی اور دنیا کے درجنوں ماہرین اس کا جائزہ لیتے رہے لیکن جہاز پر حملے کی کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہ آ سکی‘ امریکا سو سال تک یہ سمجھتا رہا برطانیہ نے امریکا کو جنگ میں گھسیٹنے کے لیے لوسی تانیا پر حملہ کروایا تھا۔
امریکا غیر جانب دار رہنا چاہتا تھا جب کہ برطانیہ کو ایک مضبوط اتحادی کی ضرورت تھی اور امریکا کے علاوہ اس وقت پوری دنیا میں برطانیہ کا کوئی مضبوط اتحادی نہیں ہو سکتا تھا چناں چہ برطانیہ نے خبر اڑا دی لوسی تانیا مسافروں کی آڑ میں بھاری گولہ بارود لا رہا ہے‘ جرمنی نے اس اطلاع کو حقیقت سمجھ لیا اور جہاز اڑا دیا‘ امریکا سو سال برطانیہ اور جرمنی دونوں کو اس حملے کا ذمے دار سمجھتا رہا لیکن پھر ایک نئی ریسرچ سامنے آئی اور لوسی تانیاکا سو سال پرانا معمہ حل ہو گیا‘ آئر لینڈ کے پانیوں میں سو سال پہلے کیا ہوا تھا؟ یہ پتہ چل گیا‘ میں کہانی کو آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو اس حیران کن ریسرچ کے بارے میں بتاتا چلوں۔
اکیسویں صدی کا سب سے بڑا کمال ڈیٹا ہے‘ دنیا میں آج 99 فیصد ایجادات کے پس منظر میں ڈیٹا ہوتا ہے‘ ماہرین اعدادوشمار کا تجزیہ کرتے ہیں اور بڑے بڑے مسائل حل کر لیتے ہیں‘ مثلاً آپ ڈنگی کو لے لیجیے‘ یہ بیماری مشرقی ممالک میں تیزی سے پھیل رہی ہے‘ سائنس دانوں نے اعدادوشمار (ڈیٹا) سے اندازہ لگا لیا ڈنگی 2025 میں یورپ پہنچ جائے گا چناں چہ یہ آج ہی سے اس کے مقابلے کی تیاری کر رہے ہیں‘ یورپی ڈاکٹرز ڈنگی سے متاثرہ ہر ملک کا دورہ کرتے ہیں‘ یہ مریضوں کے خون کے نمونے بھی لیتے ہیں اور ڈنگی کے مچھروں کی خصوصیت پر تحقیق بھی کرتے ہیں۔
یورپی کمپنیوں نے 2019 میں ڈنگی کی ویکسین بھی تیار کرنا شروع کر دی ہے‘ یہ ویکسین 2025 تک تیار ہو جائے گی اور یہ مرض کے یورپ میں داخل ہوتے ہی مریضوں کو لگانا شروع کر دی جائے گی‘ یہ ہے ڈیٹا اور یہ ہے اس کا کمال! آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی ڈیٹاکا سب سے بڑا سورس سوشل میڈیا ہے‘ ٹویٹر کے 330 ملین یوزرز ہیں اور فیس بک اڑھائی ارب لوگ استعمال کرتے ہیں‘ دنیا میں صرف ٹویٹر پر ایک سیکنڈ میں چھ ہزار لوگ پوسٹ کرتے ہیں اور یہ چھ ہزار فی سیکنڈ لوگ ریسرچ کا بہت بڑا سورس ہیں۔
انسانی عادتوں کے ماہرین نے اس ڈیٹا کی بنیاد پر ریسرچ کی اور معلوم ہوا دنیا میں 99 فیصد غلط فیصلے دن دو بجے سے چار بجے کے درمیان ہوتے ہیں‘ یہ ڈیٹا جب مزید کھنگالا گیا تو پتہ چلا دنیا میں سب سے زیادہ غلط فیصلے دن دو بج کر 50 منٹ سے تین بجے کے درمیان کیے جاتے ہیں‘ یہ ایک حیران کن ریسرچ تھی‘ اس ریسرچ نے ’’ڈسین میکنگ‘‘ (قوت فیصلہ) کی تمام تھیوریز کو ہلا کر رکھ دیا‘ ماہرین جب وجوہات کی گہرائی میں اترے تو پتہ چلا ہم انسان سات گھنٹوں سے زیادہ ایکٹو نہیں رہ سکتے‘ ہمارے دماغ کو سات گھنٹے بعد فون کی بیٹری کی طرح ’’ری چارجنگ‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے اور ہم اگر اسے ری چارج نہیں کرتے تو یہ غلط فیصلوں کے ذریعے ہمیں تباہ کر دیتا ہے۔
ماہرین نے ڈیٹا کا مزید تجزیہ کیا تو معلوم ہوا ہم لوگ اگر صبح سات بجے جاگیں تو دن کے دو بجے سات گھنٹے ہو جاتے ہیں‘ ہمارا دماغ اس کے بعد آہستہ آہستہ سن ہونا شروع ہو جاتا ہے اور ہم غلط فیصلوں کی لائین لگا دیتے ہیں چناں چہ ہم اگر بہتر فیصلے کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں دو بجے کے بعد فیصلے بند کر دینے چاہئیں اور آدھا گھنٹہ قیلولہ کرنا چاہیے‘ نیند کے یہ30 منٹ ہمارے دماغ کی بیٹریاں چارج کر دیں گے اور ہم اچھے فیصلوں کے قابل ہو جائیں گے‘ یہ ریسرچ شروع میں امریکی صدر‘ کابینہ کے ارکان‘ سلامتی کے بڑے اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے سی ای اوز کے ساتھ شیئر کی گئی‘ یہ اپنے فیصلوں کی روٹین تبدیل کرتے رہے۔
ماہرین نتائج نوٹ کرتے رہے اور یہ تھیوری سچ ثابت ہوتی چلی گئی‘ ماہرین نے اس کے بعد ’’ورکنگ آوورز‘‘ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا‘آفس کے پہلے تین گھنٹے فیصلوں کے لیے بہترین قرار دے دیے گئے‘ دوسرے تین گھنٹے فیصلوں پر عمل کے لیے وقف کر دیے گئے اور آخری گھنٹے فائل ورک‘ کلوزنگ اوراکائونٹس وغیرہ کے لیے مختص کر دیے گئے‘ سی آئی اے نے بھی اس تھیوری کو اپنے سسٹم کا حصہ بنا لیا‘ مجھے آئی ایس آئی کے سابق چیف جنرل احمد شجاع پاشا (آئی ایس ایس آئی سابق چیف)نے ایک بار بتایا تھا‘ امریکی ہم سے جب بھی کوئی حساس میٹنگ کرتے تھے تو یہ رات کے دوسرے پہر کا تعین کرتے تھے‘ میں نے محسوس کیا یہ میٹنگ سے پہلے ہمارے تھکنے کا انتظار کرتے ہیں چناں چہ ہم ملاقات سے پہلے نیند پوری کر کے ان کے پاس جاتے تھے۔
میں نے برسوں پہلے ایک فقیر سے پوچھا تھا ’’تم لوگ مانگنے کے لیے صبح کیوں آتے ہو اور شام کے وقت کیوں غائب ہو جاتے ہو‘‘ فقیر نے جواب دیا تھا ’’ لوگ بارہ بجے تک سخی ہوتے ہیں اور شام کو کنجوس ہو جاتے ہیں‘ ہمیں صبح زیادہ بھیک ملتی ہے‘‘ مجھے اس وقت اس کی بات سمجھ نہیں آئی تھی لیکن میں نے جب دو بجے کی ریسرچ پڑھی تو مجھے فقیر کی بات سمجھ آ گئی‘ آپ نے بھی نوٹ کیا ہوگا آج سے پچاس سال پہلے لوگ زیادہ خوش ہوتے تھے‘ یہ شامیں خاندان کے ساتھ گزارتے تھے‘ اسپورٹس بھی کرتے تھے اور فلمیں بھی دیکھتے تھے‘کیوں؟
کیوں کہ پوری دنیا میں اس وقت قیلولہ کیا جاتا تھا‘ لوگ دوپہر کو سستاتے تھے مگر انسان نے جب موسم کو کنٹرول کر لیا‘ یہ سردی کو گرمی اور گرمی کو سردی میں تبدیل کرنے میں کام یاب ہو گیا تو اس نے قیلولہ بند کر دیا چناں چہ لوگوں میں خوشی کا مادہ بھی کم ہو گیا اور ان کی قوت فیصلہ کی ہیت بھی بدل گئی‘ ریسرچ نے ثابت کیا ہم اگر صبح سات بجے اٹھتے ہیں تو پھر ہمیں دو بجے کے بعد ہلکی نیند کی ضرورت پڑتی ہے اور ہم اگر دو سے تین بجے کے دوران تھوڑا سا سستا لیں‘ ہم اگر نیند لے لیں تو ہم فریش ہو جاتے ہیں اور ہم پہلے سے زیادہ کام کر سکتے ہیں‘ پوری دنیا میں فجر کے وقت کو تخلیقی لحاظ سے شان دارسمجھا جاتا ہے‘ کیوں؟
ہم نے کبھی غور کیا‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ ہم بھرپور نیند لے چکے ہوتے ہیں لہٰذا ہمارے دماغ کی تمام بیٹریاں چارج ہو چکی ہوتی ہیں اور دوسرا فجر کے وقت فضا میں آکسیجن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور آکسیجن ہمارے دماغ کے لیے اکسیر کاد رجہ رکھتی ہے‘ یہ ذہن کی مرغن غذا ہے چناں چہ ماہرین کا دعویٰ ہے آپ اگر بڑے فیصلے کرنا چاہتے ہیں تو آپ یہ کام صبح بارہ بجے سے پہلے نمٹا لیں اور آپ کوشش کریں آپ دو سے تین بجے کے درمیان کوئی اہم فیصلہ نہ کریں کیوں کہ یہ فیصلہ غلط ہو گا اور آپ کو اس کا نقصان ہو گا۔
ہم اب لوسی تانیا کی طرف واپس آتے ہیں‘ ماہرین نے جب نئی تھیوری کے تحت جہاز پر تحقیق کی تو پتہ چلا لوسی تانیا کی تباہی کا ذمے دارجرمنی یا برطانیہ نہیں تھا جہاز کا کپتان ولیم تھامس ٹرنر تھا‘ اس نے غلط وقت پر دو غلط فیصلے کیے تھے‘ اس نے پہلا فیصلہ دن ایک بجے لیا تھا‘ اس نے جہاز کی اسپیڈ بڑھا دی تھی لیکن اتنی نہیں بڑھائی تھی جتنی اسے بڑھانی چاہیے تھی۔(بشکریہ ایکسپریس)