(خصوصی رپورٹ)
سینیٹ قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات ،قومی تاریخ وادبی ورثہ کا اجلاس چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں وزارت اطلاعات کی طرف سے تیارکردہ قومی اشتہارات پالیسی، پیپلز پارٹی رہنماؤں کی الیکٹرانک میڈیا پر کردار کشی پروگرامز ، ایک پرائیوٹ ٹی وی چینل پر پختونوں کیخلاف تضحیک آمیز پروگرامز اور سرکاری اشتہارات میں پختونوں کیخلاف توہین آمیزمواد چلانے کے معاملات کا جائزہ لیا گیا، چیئرمین واراکین نے وزیراطلاعات کی اجلاس میں عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا، چیئرمین نے کہا اجلاس میں حکومتی اشتہارات کی پالیسی کے حوالے سے اہم ایجنڈے کو زیربحث لانا تھا جس میں وزیر اطلاعات کی شرکت ضروری تھی،اس پالیسی سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، پالیسی بناتے وقت قائمہ کمیٹی کو اعتماد میں لینا ضروری تھا، اراکین کمیٹی کو حکومتی ڈرافٹ کردہ پالیسی پر بیشمار تحفظات ہیں، کمیٹی نے سفارش کی حکومت نئی پالیسی کو کمیٹی اجلاس میں زیر بحث لائے بغیر منظور نہ کرے، رحمٰن ملک نے کہا سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا تھا جے آئی ٹی یا عدالت میں جاری کیس کا جب تک فیصلہ نہ ہو میڈیا پر اسکی بحث کی جائے اور نہ ہی معاملہ اچھالا جائے، صرف اپوزیشن کا نہیں ہر سیاسی پارٹی کے رہنماؤں کا تمسخر اڑانا میڈیا کا وطیرہ بن چکا ہے، ایسا قانون بنایا جائے جس میں سیاستدانوں اورعوام کی میڈیا پر تذلیل اور تمسخر کو روکا جائے، پیمرا کو کچھ پروگرامز بارے کہا گیا تھا اسکی رپورٹ فراہم کی جائے، ملزم سے مجرم بننے کا انتظار ہونا چاہئے ایسی بے شمار انکوائریاں ہیں جن میں لوگ بے گناہ ثابت ہوتے ہیں مگر میڈیا میں انہیں بدنام کر دیا جاتا ہے، چیئرمین نے کہا وزارت اطلاعات نے اس حوالے سے ڈرافٹ تیار کرنا تھا چار ماہ ہو چکے ہیں مگر کوئی ڈرافٹ تیار نہیں کیا گیا، بہتر یہی ہے فاضل سینیٹر پرائیویٹ ممبر بل کے طور پر ایک بل تیار کریں ، کامران مائیکل نے کہا آزادی صحافت اپنی جگہ مگر میڈیا کو بے لگام بھی نہیں کیا جا سکتا معاملات کو قانون کے مطابق چلانا چاہئے، سیکرٹری اطلاعات ونشریات نے بتایا انفورسمنٹ کی کمی ہے وزارت ٹریبونل قائم کریگی جس سے معاملات میں بہتری آئیگی، چیئرمین پیمرا نے کہا جب جے آئی ٹی کا فیصلہ آیا تھا اس وقت خلاف ورزی کرنیوالے 26چینلز کو نوٹس جاری کئے گئے، ایک پروگرام بند کیا گیا، چھ مختلف ایڈوائسز جاری ہوئیں، بہتری کیلئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، ٹی وی چینل والوں سے بہتری کیلئے معاملات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے، ٹی وی چینل اپنے سسٹم کو بھی بہتر کر رہے ہیں ، چھ اشتہارات کو بھی بند کیا گیا ہے، فیصل جاوید نے کہا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ضم کرنے سے معاملات میں بہتری نہیں آئیگی میکنزم واضح نہیں ، اشتہارات کے بغیر معاملات چل ہی نہیں سکتے اور میڈیا کیلئے بھی اشتہارات اہم ہیں ، ڈرافٹ پالیسی میں یہ تاثر ہے کہ گروتھ آف میڈیا میں رکاوٹ ، ریجنل کوٹہ ، تقرریاں اور اشتہاری کمپنیوں کو نکالاجارہا ہے، پروڈکشن ہاؤسز سے وزارت کس طرح ڈائریکٹ معاملات طے کر سکتی ہے، اشتہارات کے ریٹ بڑھانے اور کم کرنے کا طریقہ کار ، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کا الگ الگ میکنزم ہوتا ہے ، میڈیا ویلیو ایڈیشن پرائیوٹ سیکٹر کو آفر کرتا ہے اچھا بزنس کس طرح بنتاہے اس کا ذکر تک نہیں، اداروں کے بجٹ میں پراجیکشن کیلئے بجٹ مختص کرنے سے بھی بہتری آسکتی ہے ویب سائٹ پر بھی معلومات و اشتہارات بہتری لا سکتے ہیں ، غوث محمد خان نیازی نے کہا میڈیا مالکان اشتہارات بند ہونے کا بہانہ بنا کر بیشمار لوگوں کو فارغ کر چکے ہیں، کئی رپورٹرز کو تنخواہ تک نہیں ملتی، روبینہ خالد نے کہا سرکاری ٹی وی کا ادارہ منافع کیلئے نہیں قوم کی کردار سازی کیلئے قائم کیا گیا تھا ایسا طریقہ کار اختیار کریں کہ صوبوں میں ہم آہنگی اور تعاون فروغ پائے، صابر شاہ نے کہا سرکاری ٹی وی پشاور میں علاقائی پروگرامز کا وقت تبدیل کر دیا گیا ہے جس سے وہاں سے عوام کو فائدہ نہیں ہورہا پہلے والے ٹائم بحال کیے جائیں، چیئرمین نے کہا سرکاری خزانے کو ذاتی تشہیر کیلئے استعمال کیا گیا تھا اب ایسا نہیں چلے گا اب سرکاری ٹی وی اپوزیشن کا چینل معلوم ہوتا ہے کوئی سیاسی مداخلت نہیں ۔