inam mein ghar nikla 5 saal se nahi mila | ARY par case

اسحاق ڈار سے پھر تحریری معافی۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔

برطانیہ میں اے آر وائی کا مواد نشر کرنے والی کمپنی نیو ویژن ٹی وی نے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف اے آر وائی نیوز کے دو پروگراموں میں ’بے بنیاد‘ الزامات نشر کرنے پر معافی مانگ لی ہے۔بی بی سی اردو کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگراموں ’رپورٹرز‘ اور ’پاور پلے‘ میں ان کے خلاف لگائے گئے کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال اور ایک خاتون کو دھمکیاں دینے کے الزامات کے خلاف اسحاق ڈار نے لندن ہائی کورٹ سے ہتک عزت اور ذاتی زندگی میں غیرقانونی مداخلت کی بنیاد پر رجوع کیا تھا۔تاہم عدالتی کارروائی کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی، نیو ویژن ٹی وی نے اعتراف کیا کہ ان کے پروگراموں میں نشر ہونے والے الزامات ’بے بنیاد‘ تھے اور اس پر معافی مانگ لی ہے۔

اسحاق ڈار سے تحریری معذرت میں کہا گیا ہے کہ ’نیو ویژن ٹیلی ویژن پر آٹھ جولائی دو ہزار انیس کو دی رپورٹرز پروگرام نشر ہوا۔ جس میں چوہدری غلام حسین اور صابر شاکر نے دعویٰ کیا کہ اسحاق ڈار نے حکومت پاکستان کا پیسہ چرایا اور وہ پاکستان واپس آنے کی اجازت پر چرائی ہوئی رقم واپس کرنے پر آمادہ تھے۔اس پروگرام میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسحاق ڈار کے بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔ جن میں چرائے گئے لگ بھگ ایک ارب ڈالر موجود ہیں۔ پروگرام میں مزید تبصرے کیے گئے جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اسحاق ڈار نے کسی فرد کو موت کی دھمکیاں دلوائیں تاکہ وہ فرد پاکستان سے باہر چلا جائے۔معذرت میں کہا گیا ہے کہ ’اول یہ کہ انھوں نے (اسحاق ڈار نے) حکومت پاکستان کا کوئی پیسہ نہیں چرایا۔ دوئم یہ کہ اسحاق ڈار کے کسی بینک اکاؤنٹ کا سراغ نہیں ملا۔ نتیجتاً پیسے چرانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سوئم یہ کہ اسحاق ڈار کی جانب سے پاکستان واپسی کی اجازت ملنے کی شرط پر پیسہ واپس کرنے کا دعویٰ جھوٹا اور من گھڑت ہے۔ اور چہارم یہ کہ اسحاق ڈار نے کسی فرد کو موت کی دھمکیاں نہیں دیں۔‘

نیوویژن ٹیلی ویژن پر 8اگست 2019 کو پاور پلے پروگرام نشر ہوا۔ جس کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب و داخلہ نے دعویٰ کیا کہ اپنے دور میں اسحاق ڈار پاکستان کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کے ذمہ دار تھے۔ اور انھوں نے انتہائی غیر مناسب طریقے سے یونٹ کے کاموں میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔(خصوصی رپورٹ)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں