sunnat ibrahimi najanay kaha khogyi

اس طرح تو ہوتا ہے۔۔

تحریر: میاں غفار۔

سال پرانی بات ہے جنوبی پنجاب کے ایک صحافی کو پولیس تشدد نے ایک آنکھ سے کافی حد تک محروم کر دیا تھا۔ بہاولپور ڈویژن سے تعلق رکھنے والی ایک تحصیل میں سعید نامی ایک پولیس آفیسر نئی بھرتی کے طور پر تعینات ہوئے۔ اُنکی ایک اخبار کے نامہ نگار سے اتنی گہری دوستی ہوئی کہ سعید خان نامی پولیس آفیسر گاڑی چلاتے اور اخبار کے نامہ نگار سرکاری جیپ کی فرنٹ سیٹ پر وائرلیس ہاتھ میں پکڑے جو بھی احکامات جاری کرتے انہیں اے ایس پی کا ہی حکم تصور کیا جاتا تھا۔ وہ چوبیس گھٹنے اکٹھے رہتے پھر ایک ایسا وقوعہ ہو گیا کہ مذکورہ نامہ نگار چاہتے ہوئے بھی خبر نہ روک سکے کہ اُن کا اندر کا اخبار نویس جاگ چکا تھا۔ اے ایس پی کے منع کرنے کے باوجود نامہ نگار نے اخبار کیلئے خبر بھیج دی۔ اے ایس پی ناراض ہو گئے اور چند ہی دن بعد رات کے اندھیرے میں تھانہ کے سامنے سے گزرتے ہوئے نامہ نگار پر حملہ اور شدید تشدد ہوا جس سے اُنکی ایک آنکھ کی بینائی تقریباً ختم ہو گئی۔

حال ہی میں ایک شہر کے نامہ نگار اور پولیس آفیسر کی دوستی اتنی گہری ہوئی کہ مذکورہ نامہ نگار کا ہر حکم ہر طریقے سے عملدرآمد کے تمام مراحل طے کرتا۔ پولیس آفیسر کی ٹرانسفر ہوئی تو مذکورہ نامہ نگار پر اتنا تشدد ہوا کہ بمشکل جان بچی۔ سابق وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں مرحوم پریس کانفرنس میں اپنی ایک سالہ کارکردگی بتا رہے تھے۔ جب انہوں نے اپنی تمام تر کارکردگی بتا دی تو ایک سینئر ترین چیف رپورٹر احتجاج کے طور پر اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے۔ آپ نے بہت زیادتی کی ہے۔ غلام حیدر وائیں حیران رہ گئے کہ اُن سے کیا غلطی ہوئی؟ مذکورہ چیف رپورٹر گویا ہوئے کہ آپ کا ایک بہترین کام پنجاب بھر میں نہروں کی بھل صفائی تھا آپ اپنی کارکردگی میں اس کا ذکر ہی کرنا بھول گئے۔ یاد رہے کہ غلام حیدر وائیں مرحوم نے صوبے بھر میں سرکاری سکولوں کے طلبہ سے بھل صفائی کرائی تھی جو کہ یقینی طور پر ایک اچھی کاوش تھی مگر لاہور میں ایچی سن کالج سے ملحقہ نہر کی بھل صفائی گورنمنٹ ہائی سکول مغل پورہ کے طلباء سے کرائی تو ایک صحافی نے توجہ دلائی کہ یہ کام ایچی سن کالج کے طلباء سے بھی لیا جاتا تو حقیقی انصاف ہوتا۔ قبل اِس کے کہ وائیں مرحوم جواب دیتے بہت سے اخبار نویس سوال کرنیوالے صحافی ہی کی بھل صفائی کرنے لگ گئے۔ یہ میں اُن دنوں کے واقعات لکھ رہا ہوں جب 90 فیصد رپورٹر حضرات اپنی موٹرسائیکلوں میں دو لٹر سے زیادہ پٹرول بھی بمشکل ڈلواتے تھے اور شائد دو چار فیصد رپورٹرز کے پاس عام سی گاڑیاں بھی نہ تھیں اور آج دو دہائیوں ہی میں بات بڑھتے بڑھتے بلٹ پروف گاڑیوں اور فارم ہاوسز کے علاوہ کئی کنال کے گھروں تک پہنچ چکی۔ چند سال پہلے جنوبی پنجاب کے ایک ضلع میں ایک ڈی پی او کی پہلی مرتبہ تعیناتی ہوئی۔ وہ مذکورہ ضلع سے واقف بھی نہ تھے۔

 چند دن بعد ایک صاحب اُن سے ملنے گئے تو وہ پریشانی کے عالم میں کہنے لگے!  میں نے یہ ضلع اور اپنا دفتر پہلی مرتبہ دیکھا مگر یہاں کے صحافیوں نے مجھے پھولوں کے اتنے ہار پہنائے اور اتنے گلدستے پیش کر دئیے ہیں کہ شائد ایک ہفتے میں اتنے پھول ملتان میں حضرت شاہ رکن الدین عالم کے مزار پر بھی نہیں چڑھائے گئے ہوں گے۔ میں حیران ہو کہ میں اُنہیں جانتا بھی نہیں اور پھر میں نے ابھی تک کوئی ایسا کام ہی نہیں کیا جو قابل تعریف ہو۔ کہنے لگے یہ پھولوں کے انبار مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ ڈی پی او بے چارے تو شرمندگی محسوس کر رہے تھے مگر اُن پر پھول ’’چڑھانے” والے خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔

کیا ہم صحافی حضرات نبی پاک کا فرمان بھول گئے ہیں کہ برائی دیکھو تو زورِ بازو سے روکو، ہاتھ سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو اور اگر زبان سے نہیں روک سکتے تو دل میں بُرا سمجھو مگر ساتھ ہی فرمایا کہ یہ کمزور ایمان کی نشانی ہے؟ آج ہم صحافی حضرات کی اکثریت تو ان تینوں درجوں کو درجنوں درجے پیچھے چھوڑ چکی ہے اور اس قلم کی حرمت ہی بھول چکی ہے کہ جس کی قرآن مجید میں اللّٰہ پاک نے قسم کھائی۔

 آج صورتحال یہ ہے کہ بعض حکمرانوں نے اپنی لامتناہی ’’برکتوں‘‘ میں سے تھوڑی سی ’’برکت‘‘ صحافی حضرات پر عنایت کر دی تو دن کے 12 بجے کی چمکتی دھوپ کو سیاہ رات اور سیاہ ترین رات کو روشن دن قرار دینے میں ہماری غالب اکثریت مگن ہو چکی ہے۔ بہت سوں کو عزیزواقارب کے نام پر ماہانہ اضافی امداد ملی تو کسی کو ایڈوائزری دے کر اکاموڈیٹ کیا گیا۔ وظیفے ملے، عمرے اور حج کے مواقع ملے، سرکاری ڈرائیور اور بیلدار مستقل بنیادوں پر فراہم ہوئے۔ بعض کو تو ایڈوائزری کے نام پر لاکھوں روپے ماہوار کی ملازمتیں ملیں اور وہ مہینے میں ایک دو گھنٹے کسی اجلاس میں اونگھ کر آ جاتے کہ ہمارے ملک میں ایڈوائزری کا کچھ ایسا ہی مطلب ہے۔

پرانی بات ہے ایک صاحب قلم بزرگ نے دوستوں کو بڑے فخر سے بتایا کہ ادارے کی طرف سے اُن کی تنخواہ براہ راست بنک میں جمع ہوتی ہے اور انہوں نے چیک بک جو ایشو کرائی تھی وہ بھی کہیں گم ہو گئی کیونکہ مجھے کبھی تنخواہ نکلوانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ یاد رہے کہ یہ دعویٰ انہوں نے اُن دنوں میں کیا تھا کہ جب اے ٹی ایم مشینیں متعارف ہی نہیں ہوئی تھی۔ آج وٹس ایپ گروپ بنے ہوئے ہیں اور افسران بالخصوص پولیس افسران کی خاص طور پر مدح سرائی کا کھلے عام دنگل دن رات جاری رہتا ہے۔

 نبی پاک نے اِس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ مجھ سے پہلے کسی امت کی آزمائش دولت نہ تھی۔ شائد میری اُمت کی آزمائش دولت ہو اور آج لگتا ہے کہ نبی پاک کا فرمان درست تھا۔ جملہ معترضہ لکھ کر تنقید کی اُمید کے ساتھ بات ختم کرتا ہوں جو “جن” کیلئے جائز و ناجائز کام کرتے ہیں ایک وقت اُن پر ایسا آ ہی جاتا ہے کہ وہ مستعار لی گئی “طاقت” کو اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے وہی سیڑھی کاٹنے لگ جاتے ہیں جو انہیں اوپر لے کر گئی تھی اور پھر سچ تو یہ ہے کہ ہم نیوٹرل کے طعنے دینے والے خود کسی بھی طور پر نیوٹرل نہیں رہے۔ ہماری زبان اور قلم تنقید کے نشتر برساتے ہیں یا پھر مدح سرائی کی آخری حدوں تک جا پہنچتے ہیں۔ اب گرفت ہو رہی ہے تو چیں بہ جیں کیوں؟ ‘’اِس طرح تو ہوتا ہے ٗ اِس طرح کے کاموں میں!‘‘۔(میاں غفار)۔۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں