تحریر: ایاز امیر۔۔
پنجاب میں الیکشن ہو گئے‘ اتنا تو ہم جان چکے۔ پی ٹی آئی کے جن خوش نصیبوں کو ٹکٹ عطا ہوئے‘ تھوڑا آرام فرما لیں۔ جس مقدس دستاویز کو آئین کہا جاتا ہے اس نے ایک اور غوطہ لے لیا ہے۔ جسے حقیقت کہتے ہیں‘ آئین سے تھوڑا بھاری ثابت ہوئی ہے۔ پچھلی پیشی پر یوں لگا کہ ہمارے پسندیدہ چیف جسٹس کو بھی حقیقت کا ادراک ہو رہا ہے۔
روس کے عظیم اور خونخوار لیڈر سٹالن سے یہ سوال منسوب ہے کہ جب ذکر پاپائے روم کا ہوا تو سٹالن نے پوچھا کہ پاپائے روم کے پاس کتنے فوجی ڈویژن ہیں؟ آج کل کے حالات میں ہماری سپریم کورٹ سے بھی اس سوال کی نسبت بنتی ہے کہ سپریم کورٹ کے زیرکمان کتنے ڈویژن ہیں؟ ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں کاٹ تب ہی آئی جب ڈویژن اس کے پیچھے کھڑے تھے۔ نظریۂ ضرورت کے تحت فیصلے تو سپریم کورٹ میں رقم ہوئے لیکن وہ فیصلے تبھی دیے جا سکے جب اصل طاقت کے سرچشمے اور سپریم کورٹ ایک پیج پر تھے۔ آج کی صورتحال ذرا مختلف ہے۔ سپریم کورٹ نے آئین کی کاپی لہرائی جبکہ طاقت کے سرچشموں کی ترجیحات مختلف تھیں۔ اسی لیے بدلے بدلے میرے سرکار نظر آئے۔ حقیقت کا ادراک ہمیں تو ہو گیا ہے‘ پتا نہیں خان صاحب کو ہوا ہے یا نہیں۔
قوم کو نوید اکتوبر کی دی جا رہی ہے جو کہ بہت بہتر ہے۔ دیہات میں ہم اکثر سنتے ہیں کہ کل کس نے دیکھا ہے۔ گزرے اکتوبر تو ہم دیکھ چکے جو آنے والا اکتوبر ہے وہ نہیں دیکھا۔ آئے گا تو کیا جلوے دکھاتا ہے‘ دیکھ لیں گے۔ فی الحال ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ کچھ آرام فرمائیں۔ تقریریں بہت ہو چکیں‘ نعرے لگا لگا کر گلے تھک ہار گئے۔ ووٹ کی طاقت ہماری تھی‘ یہ سب پر آشکار تھا لیکن کوئی ہمیں ووٹ کرنے تو دے۔ جو طاقت استعمال ہی نہ ہو سکے اس کا کیا فائدہ؟ یہ درست ہے کہ حالات اتنے برے بھی نہ تھے۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا پر ہمارا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ قومی اسمبلی میں بھی ہماری تعداد خاطرخواہ تھی۔ صبرکا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے‘ آرام سے اکتوبر کا انتظار کرتے اور جو رنگ باز حکومتِ وقت ہے‘ اس پر پھبتیاں کستے رہتے۔ لیکن کیا کہا استاد منیر نیازی نے ”کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سَن‘ کجھ سانوں مرن دا شوق وی سی‘‘۔ مرنے کے شوق نے ہمیں مار ڈالا۔ مسئلہ ہے کہ اب وقت کیسے گزاریں۔ دل بہلانے کے لیے آئین پڑھ سکتے ہیں لیکن بڑا ثقیل ڈاکیومنٹ ہے‘ کتنا پڑھ سکتے ہیں اسے؟
فی الحال تو یوں سمجھیے ہماری چھٹی ہو گئی‘ کم از کم اکتوبر تک ہماری چھٹی ہے اور جیسا عرض کیا‘ تب کیا ہوتا ہے دیکھا جائے گا۔ لیکن کسی اور کی چھٹی بھی ہو رہی ہے۔ شہبازشریف سیانے نکلے ہیں کیونکہ یوں حالات رہے تو بھائی جان کی چھٹی ہوتی نظر آتی ہے۔ چہرہ نہیں دیکھا‘ ذرا لٹکا لٹکا لگتا ہے۔ رہبرِجماعت ہیں‘ اس میں کوئی شک نہیں لیکن دُور لندن کی ہواؤں کا مزہ لے رہے ہیں۔ یہاں آئیں تو کچھ بات بنے اور پھر دخترِ انقلاب مریم صفدر کی بطور پارٹی سربراہ تاج پوشی ہو سکے لیکن آنے کا صحیح وسیلہ بن نہیں رہا اور شہباز شریف کا بس چلا تو آسانی سے بنے گا بھی نہیں۔ بھائی ہونا اپنی جگہ لیکن اقتدار میں حصہ داری مشکل ہوتی ہے۔ کچھ یہ بھی ہے کہ سعودی عرب سے ہم لوٹ آئے لیکن مریم اورنگزیب کے لاکھ کہنے کے باوجود کوئی تصویر نظر نہیں آئی جس میں مابدولت شہزادہ محمد بن سلمان سے مل رہے ہوں۔ مریم اورنگزیب کا کہنا بجا لیکن کوئی تصویر ہوتی تو معاملات سمجھنے میں کچھ آسانی پیدا ہو جاتی۔
اور ایک بھول جو ہم سے ہو گئی‘ پنجاب میں جو ہم ٹکٹ بانٹ بیٹھے تو یوں سمجھئے کہ ہر حلقے میں ایک سے زیادہ دھڑے پیدا ہو گئے۔ جب پھر کسی مہم کی کال دیں گے تو ٹکٹ ہولڈر ہی سامنے آئیں گے‘ ٹکٹوں سے محروم تو بیٹھ کر حالات کا مشاہدہ کریں گے۔ یہ غلطی ہم سے کروائی گئی کیونکہ ہم سمجھے کہ سپریم کورٹ کے حکم کو کون ٹال سکتا ہے۔ حکم ہے اور موجود بھی ہے لیکن اس پر کچھ ہو نہیں رہا۔ 14مئی تو بالکل نزدیک ہے لیکن کہیں ایک انتخابی پوسٹر بھی دیکھا ہے؟ یوں بھی عوام کے لبوں پر سوال یہ تھا کہ الیکشن ہونے بھی ہیں یا نہیں اور اب تو تقریباً پتا چل چکا ہے کہ ہنوز دلی دور است۔ دیکھ لیں مرنے کے شوق نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ وہ دن بھی تھے جب لگتا تھا کہ ہمارے اشارے پر ہرچیز ہل کے رہ جائے گی اور یہ وقت بھی ہے کہ رنگ باز ٹولے کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کے باوجود کہ جتنے افلاطون پہلے تھے اب بھی اتنے ہی ہیں۔ کچھ ہو نہیں رہا ان سے لیکن جو ہاتھ ہم نے اپنے ساتھ کیا اس سے یہ سب بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ دشمن اتنا ہاتھ ہم سے کر نہ سکتے تھے۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کچھ اور ہے لیکن اصل مسائل سے ہمیں کیا سروکار؟ گندم کی کٹائی ہو چکی ہے یا ہو رہی ہے۔ ذرا جاکر پوچھئے تو سہی کہ کٹی ہوئی فصل کا ہو کیا رہا ہے۔ کسان سرکار کو اناج نہیں بیچ رہا۔ محکموں کے اہلکار پھیرے لگائے جا رہے ہیں‘ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آ رہا۔ گندم کی سرکاری قیمت 3900روپے ہے جبکہ منڈیوں میں قیمت زیادہ ہے اور اب تو سادہ سے سادہ کسان سمجھ چکا ہے کہ تین چار ہفتوں میں قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ ایسے میں کسانوں نے ہاتھ روک رکھا ہے اور یا تو گندم اپنے پاس رکھ رہے ہیں یا آڑھتیوں سے پیسہ لے کر ان کیلئے گندم جمع کررہے ہیں۔ نتیجتاً بازار میں گندم نہیں آ رہی‘ نہ آٹا مل مالکان کو گندم مہیا ہو رہی ہے۔ اصل اعداد و شمار ہمارے پاس نہیں لیکن یہ تو عام معلومات کی بات ہے کہ اس سال گندم کی فصل قومی ضروریات سے خاصی کم ہوگی۔ یہ تو ہمارا دیرینہ اعزاز ہے کہ نام نہاد زرعی ملک ہوکر گندم کی درآمد پر انحصار کرتے ہیں۔ اس سال بھی باہر سے گندم خریدنی پڑے گی لیکن جو صورتحال بن رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ آٹے کا بحران سر اٹھانے والا ہے۔ یہاں ہم آئین کا مطالعہ کررہے ہیں اور اکتوبر کے زائچے نکالنے میں مصروف ہیں جبکہ آٹے کا مسئلہ بن رہا ہے۔ مفت آٹے کی لائنوں کا حال ہم دیکھ چکے‘ غریب طبقات کی تذلیل کا اتنا بہتر انتظام کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔ حالات یوں ہی رہے تو تذلیل کے دوسرے راؤنڈ کا اہتمام نہ کرنا پڑے۔
بہرحال خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ مانگے تانگے کا کام چل رہا ہے۔ کچھ یہاں سے خیرات مل رہی ہے کچھ وہاں سے ملنے کی امید ہے‘ جیسے تیسے حالات چل رہے ہیں۔ سری لنکا کا ہم سنتے آئے‘ سوڈان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے‘ دہشت گردی کے واقعات یہاں بھی ہو رہے ہیں لیکن اللہ مالک ہے۔ دوڑنا تو ہم کب کا بھول چکے‘ رینگتے چلے جانا ہماری قومی چال بن چکی ہے لیکن سب چل رہا ہے۔ آٹے کی تذلیل ہم نے بھگتی‘ مہنگائی کاٹ رہے ہیں‘ اقوامِ عالم میں ویسے ہی مذاق بن چکے ہیں لیکن داد دینی چاہیے ہماری قومی صلاحیت کو کہ سب کچھ سہہ لیتے ہیں۔ خان صاحب صبر نہ سیکھ سکے لیکن قومی مزاج میں صبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ کس کس کی حاکمیت ہم نے قبول نہ کی لیکن سب کچھ صبر سے برداشت کیا۔ تو یہ بھی گزر جائے گا۔ آٹے کا بحران آتا ہے تو آئے‘ آئینی بحران ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ نوے دن میں پنجاب کے انتخابات نہ ہوئے کون سے پہاڑ گر جائیں گے؟ دل کے کسی کونے میں البتہ یہ ارمان رہے گا کہ بڑا موقع تھا‘ اس سے کچھ حاصل ہو ہی جاتا تو اچھا تھا۔ لیکن اپنی مشکلات کے محرک ہم خود ہی نکلے‘ اس کا کیا علاج تھا؟(بشکریہ دنیانیوز)