تحریر: سید عارف مصطفیٰ
گزشتہ 3 برسوں میں تند ہوا کے سامنے جلائے گئے چراغ کی روشنی سلامت رہ پائی ہے یہ بھی استقامت کی عجب مثال ہے لیکن بہرطور بہت سی کٹھنائیوں کے باوجود پاکستانی میڈیا کی واحد نمائندہ آواز عمران جونیئر ویب سائٹ نے اب اپنے چوتھے برس میں قدم رکھ دیا ہے اور شاید شدید انحطاط کے ہوتے ہوئے بھی ایسی ہی چند مثالوں سے ہمارے اس معاشرے میں کسی نہ کسی حد تک مثبت توانائی کی موجودگی کا سراغ ملتا ہے ۔۔۔ یہ یوں بھی ممکن ہوسکا ہے کہ برادرم علی عمران دیوانگی کی وہ پوری کتاب چاٹ بیٹھے ہیں کہ جسکے سرنامے پہ ہی یہ لکھا ہوا ہے ‘ خطرے ہی زندگی کے اصل محافظ ہوتے ہیں ‘ یہ الگ بات کہ رہ دیوانگی میں زندگی اپنے الگ معنوں اور امکانات کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے
میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ علی عمران کی اس میڈیا ویب سائٹ کی بدولت کیمرے کے پیچھے موجود میڈیا کے بے چہرہ وابستگان کو بھی اب جیسےا پنا گم کردہ چہرہ مل گیا ہے وہ چہرہ کہ جس میں صرف کان اور آنکھیں ہی نہیں ہیں بلکہ منہ بھی ہے بولنے اور دلیل دینے والا منہ ۔۔۔ اور اسی لیئے اب یہ چہرہ بے صدا نہیں ہے ۔۔ اور بلاشبہ یہ صدا میڈیا مالکان کو صحافت کے آداب بھی سکھا رہی ہے اور انہیں معاشرے میں اپنے فرائض کے حوالے سے زیادہ ذمہ دار فرد بنانے کی جدوجہد بھی کررہی ہے ۔۔۔ واضح رہے کہ چونکہ لمحہء موجود میں یہ میڈیائی ویب سائٹ اک ایسا دیا ہے کہ جسکی اساس کسی میڈیائی سیٹھ کی خوشامد کے تیل پر نہیں ہے چنانچہ یہی سبب ہے کہ اسکی خیرہ کن لو کی چمک بھی بہتیری حیران آنکھوں کو بہت زیادہ چندھیا رہی ہے ۔۔۔ خود ذاتی طور پہ علی عمران نہایت باکمال شخص ہیں اور اسکا ایک بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت دوکشتیوں کے سوار ہیں یعنی صحافت اور ظرافت اور دونوں میں توازن بنائے رکھنا کوئی آسان کام ہرگز نہیں ۔۔۔ لیکن وہ نہایت متوازن انداز میں دونوں ناؤ کے چپو چلائے جارہے ہیں۔۔
ایک اہم بات یہ بھی سمجھنے کی ہے کہ میڈیا انڈسٹری کے مالکان کے سامنے انکے کارکنوں کے حقوق کی صدا بلند کرنا فی زمانہ جابر سلطان کے مقابل کلمہ حق کہنے کی جرآت والے جہاد کی مانند ہے اور میرا دوست علی عمران جونیئر یہ کام ڈنکے کی چوٹ پہ کررہا ہے ۔۔ اس میں کیا شک ہے کہ انہیں اس رستے سے ہٹنے اور ہٹانے کے لیئے کیا کیا ترغیبات نہ دی گئی ہونگی اور کیسی کیسی پیش کشیں نہیں کی گئی ہوں گی مگر علی عمران ہیں کہ ہرایسے میڈیائی فرعون کی خدائی کو للکارے جارہے ہیں کہ جس نے اپنے ورکرز کے حقوق پامال کیئے ہیں یا انہیں اجرت دینے کے عمل کو خیرات اور بخشش کا رنگ دے رکھا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش کی ہے – اور یہی بے لاگ پن ہے کہ علی عمران ہر کسی کے لیئے قابل اعتبار ٹھہرا ہے اور بہتیرے میڈیا ٹائیکونز کی نیندیں حرام کرنے کا سبب بنا ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کل تک محض ایک فرد تھا مگر آج وہ ایک تحریک ہے ، ایسی تحریک جو میڈیا کے کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے لیئے سربکف ہے اور اپنی اس منفرد حیثیت میں اسکی مستند ویب سائٹ ملک بھر کے کسی پریس کلب اور صحافتی تنظیم سے زیادہ موثر اور توانا آواز بن کے ابھری ہے ۔۔۔ اسکو یہ بھروسہ اور یہ طاقت اس کے صاف ستھرے ماضی و حال سے میسر آئی ہے کیونکہ آج کے اکثر صحافی رہنماؤں کی طرح وہ پبلک ٹرانسپورٹ سے لٹک کے یا پھٹیچر سی بائیک سے اتر کے کے کسی کرولا ، پراڈو یا فراری کا سوار نہیں بنا ہے ۔۔۔ اور یقینناً یہی وجہ ہے کہ وہ آج صحافت کو مشن کے بجائے کاروبار سمجھ لینے والوں کے اعصاب پہ سوار ہے(سید عارف مصطفی)۔۔