تحریر: منصور آفاق۔۔
کہنے والے کہتے ہیں جب سے میڈیا آزاد ہوا ہے عوامی نمائندوں کی تذلیل کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی عوامی نمائندے کے خلاف بے بنیاد الزامات کا شور اٹھتا ہے۔ پھر اس عوامی رہنما کو بدنام کرنے کے بعد ایک چھوٹی سی تردیدی خبر شائع ہو جاتی ہے کہ یہ الزامات غلط تھے۔ بےشک اس سنگین مسئلے کا تدارک بڑا ضروری ہے مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عوامی نمائندوں کے روپ میں کئی لٹیرے بھی اسمبلیوں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے رہے مگر وہاں بڑے بڑے اچھے لوگ بھی آتے رہےجن کی لوگوں میں بےپناہ تکریم ہے۔ میڈیا کو بھی ان کا احترام کرنا چاہئے مگر میڈیا احترام کے معاملے کوکسی اور نظر سے دیکھتا ہے۔ ماضی میں میڈیا کا ایک مخصوص حصہ مارشل لائوں کے زیرِ تسلط، غیرآئینی حکمرانی کا دورانیہ بڑھانے کےلئے عوامی نمائندوں کے خلاف مصروفِ عمل رہا جو افسوس ناک ہے مگر بدقسمتی سے کچھ سیاسی لیڈر ایسے بھی سامنے آئے جنہوں نے بےتحاشا کرپشن کی، پاکستان میں بڑے پیمانے پر کرپشن کا آغاز جنرل ضیاالحق کے دور سے ہوا۔ یعنی سیاست دانوں کو کرپٹ کرنے میں مارشل لاکےکردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح پاکستان میں بیوروکریسی بھی کسی منہ زور گھوڑے سے کم نہیں۔ بے شک بیوروکریسی میں بڑے اچھے افسربھی موجودہیں مگر کالی بھیڑوں کی تعدادبھی کم نہیں۔میں اس سلسلے میں ایک پورا کالم ’’بیورو کریسی کا دام ِ ہم رنگ ِ زمین ‘‘ لکھ چکا ہوں مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ممبران ِ اسمبلی اپنے حقوق کی جنگ میں اتنے آگے چلے جائیں کہ آئین پاکستان سے متصادم قوانین بنانے لگ جائیں ،جس طرح گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں ہوا کہ اسمبلی کے ممبران جن میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کے ارکان شامل تھے انہوں نے مل کر ممبرز کے تحفظ کے لئے استحقاق بل اور اس کا ترمیمی بل منظور کیا۔یہ ایسا دلچسپ قانون ہے جس کے تحت اس کالم کے لکھنے پر مجھے بھی سزا ہوسکتی ہے۔ اس عجیب و غریب قانون کی موجود گی میں پنجاب اسمبلی کسی وقت بھی خود کو عدالت میں تبدیل کر سکتی ہے ،اس نے جزا و سزا کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اس قانون کے تحت پنجاب اسمبلی میں موجود ارکان یا ان کی کمیٹی کے بارے میں کوئی قابلِ اعتراض رپورٹ یا تلخ کلامی پرکسی بھی بیوروکریٹ یا صحافی کو قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے جو خود اسمبلی طے کرے گی۔کہتے ہیں یہ بل خفیہ طور پر تیار کیا گیا، کانوں کان کسی کو خبر نہ ہونے دی گئی۔ اس بل کی افادیت کے سامنے بہت سے سوالیہ نشان کھڑے ہیں۔ گزشتہ ماہ یعنی جولائی کے دوران پنجاب اسمبلی نے یہ بل منظور کیا۔رازداری اتنی رکھی گئی کہ متعلقہ محکمے کو بھی خبر نہ ہو سکی۔اپنی لاعلمی پرمحکمہ قانون پنجاب بھی حیران بلکہ پریشان ہے۔ یہ پراسرار تیاری ،یہ بغیر بحث کے متفقہ خفیہ منظوری ،یہ سب باتیں پارلیمانی روایات کے خلاف ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ قانون کو بھی خصوصی کمیٹی نمبر9کے اجلاس سے کیوں لاعلم رکھا گیا۔ بل پیش کرنے والے پیپلزپارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی مخدوم عثمان محمود نے بل کو آئینی اور وقت کی ضرورت قرار دیا مگر دیکھنا ہے کہ قانون کی تشریح کرنے والے ادارے اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ بل میں شامل دفعہ A-11کےتحت ممبرز کے استحقاق کی خلاف ورزی قابل سزا جرم قرار دی گئی ہے، بل کے تحت جوڈیشل کمیٹی بنائی جا سکتی ہے۔ جس کے پاس کسی بیورو کریٹ یا کسی صحافی کو دوماہ قید کی سزا اور دس ہزار روپے جرمانہ کرنے کے اختیارات ہوں گے۔یہ سزا اور جزا کا فیصلہ شاید دنیا کی کسی اسمبلی کے پاس نہیں۔پہلی بارایسا قانون سامنے آیا ہے جس کے تحت کسی ممبر کااستحقاق مجروح ہونے پرا سپیکر پنجاب اسمبلی گرفتاری کا حکم دے سکتے ہیں۔اس قانون کے تحت اگر کوئی ایم پی اے ایوان کے اندر کی گئی تقریر میں ردو بدل کی رپورٹنگ کے حوالے سے اسپیکر کو شکایت کرے گا تو وہ بھی قابل گرفت سمجھا جائے گا۔اس بل کے تحت اسپیکر کے کنڈکٹ پر بھی کوئی بات نہیں کی جا سکے گی۔سرکاری محکموں کے افسران اگر اسمبلی بلانے پر نہ آئے تو وہ بھی قابل گرفت ہوں گے۔اگر کسی محکمے کی طرف سے غلط جواب اسمبلی کو بھیجا گیا تو اس کے خلاف کارروائی ہو گی۔اسمبلی کے ملازمین کی ڈیوٹی کے دوران مداخلت کرنے پر بھی متعلقہ شخص کے خلاف کارروائی ہو گی۔اسپیکر ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کسی بھی شخص کی سزا کم یا بڑھا سکتا ہے۔بل کے تحت اسمبلی کی جوڈیشل کمیٹی کو سزادینے کے اختیارا ت ہوں گےاور اگر کسی اسمبلی کے رکن کا استحقاق مجروح ہوتا ہے تو اسپیکر کے پاس اختیارات ہوں گے کہ وہ متعلقہ ڈسٹرکٹ آفیسر کو کہہ کر اس کی گرفتاری کروا سکتا ہے۔جوڈیشل کمیٹی کی تشکیل اور اس میں شامل کئے جانے والے ارکان کی تعداد کے تعین کا اختیار اسپیکر پنجاب اسمبلی کو حاصل ہوگا۔
اگرچہ گورنر پنجاب نے ارکان پنجاب اسمبلی استحقاق بل 2021کو آئین سے متصادم قرار دے کر مسترد کر دیاہے اور منظورکردہ بل کو اعتراضات کے ساتھ اسمبلی سیکرٹریٹ کو واپس بھجوا دیا ہے ان اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ استحقاق بل میں تجویز کی گئی سزائیں آئین ِ پاکستان کے خلاف ہیں۔بل کے تحت اسپیکر اور استحقاق کمیٹی کو دیے گئے اختیارات آئین کے آرٹیکل 3-66اور A-10سے متصادم ہیں لہٰذا آئین کے آرٹیکل 10.10اور A-8اور آرٹیکل 25کے تحت بل کا ازسرنو جائزہ لینا ضروری ہےلیکن گورنر اس سلسلے میں اعتراض لگانے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ یقینا ً یہ معاملہ عدالت میں جائے گا کیونکہ قانون کی تشریح کا حق صرف عدالت کے پاس ہے۔
پارلیمنٹ کی بالادستی بلاشبہ جمہوریت کی بنیادی روح ہے مگر جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ ریاست کے تمام ستون اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کریں۔ ایک دوسرے کے کام میں مداخلت نہ کریں۔(بشکریہ جنگ)