تحریر: خرم علی عمران
یہ بلاگ بنیادی طور پر تو دو ناولز کے بارے میں اپنی رائے بیان کرنے کے لئے لکھنا شروع کیا تھا ایک عمیرہ احمد کا ناول الف اور دوسرا جناب حسن جاوید قیصر صاحب کا شہر بے مہر ،لیکن بیچ میں ایک اور تازہ ترین واردات نے متوجہ کرلیا تو سوچا کہ دونوں پر بات کرلی جائے اور وہ واردات جناب ارشاد بھٹی نے ڈالی استادِ صحافت جناب رشید انجم کے ساتھ۔ بھٹی صاحب کج بحثی کے ماہر ہیں اور اپنی مضحکہ خیز شاعری کے ساتھ ساتھ اپنے ہیجانی اور جذباتی تجزیوں کے ذریعے چینلز پر رونق لگاتے نظر آتے ہیں۔ وہ بلکل اسی روش پر گامزن ہیں جن پر چل کر ہمارے عوامی اینکر نے کھڑکی توڑمقبولیت اور شہرت حاصل کی یعنی کسی کو بھی منہ اٹھا کر کچھ بھی کہہ دینا ،پگڑی اچھالنے کی منفی مہارت سے کام لے کر ایشو بنانا اور جھگڑا پیدا کرنا اور پھر یہ سب کرکے کرکے مشہور ہوجانا۔یعنی بقول شاعر بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔ بھٹی نے کئی لوگوں کا بھٹہ بھٹادینے کی بھرپور کوششیں کی ہیں اور ایسے کیرکٹرز جو کسی بھی طرح ریٹنگ کو بڑھا سکیں ویسے ہی چینلز والوں کی اولین پسند ہوا کرتے ہیں تو بھٹی صاحب یونہی رونق میلہ لگاتے رہیں گے اور چینلز انہیں ون اینڈ اونلی کہہ کہہ کر مزید بانس پر چڑھاتے رہے گے اور اپنی اپنی رونقیں اور ریٹنگ بڑھاتے رہیں گے۔ لیکن بھٹی صاحب کے سیاسی اور تنقیدی تجزیوں، جنہیں ہم بڑی مشکل سے کھینچ تان کر سیاسی تجزیوں کا نام اگر دے سکیں تو،کے درست یا صحیح ہونے سے قطع نظر میں صرف انہیں چند بنیادی باتوں کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ دنیا کہ ہر شعبے میں مہذب افراد اپنے سینیئرز کا احترام کیا کرتے ہیں۔ نمبر دو بھٹی صاحب شاید ایک وسیع المطالعہ شخص ہوں گے کہ کالم وغیرہ پر بھی طبع آزمائی کرتے نظر آتے ہیں تو ایک پرانا محاورہ ہے کہ باادب با نصیب اور بے ادب کم نصیب۔ تیسری بات یہ کہ شاعری سے شغف رکھتے ہیں تو سیف صاحب کا یہ شعر تو سنا ہی ہوگا کہ سیف انداز بیاں بات بدل دیتا ہے۔۔ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں ۔۔۔تو زبان شیریں ملک گیری کو اپنائیں یا میٹھے بول میں جادو کو آزمائیں لیکن انداز میں کچھ تہذیب تمیز اور تبدیلی لائیں کہ آپ تو ویسے ہی تبدیلی کے مداح ہیں۔ مظہر عباس صاحب جیسے سینیئر صحافی سے بریکنگ پوائنٹ ودھ مالک میں ٹھیک ٹھاک بد تمیزی صرف چند دن پہلے اور حفیظ اللہ نیازی صاحب سے پے در پے معرکہ آرائیوں اور منافقانہ معذرتوں کے بعد اس تازہ ترین واردات پر آپ کی معذرت کب اور کس طرح آئے گی ساری قوم شدت سے منتظر ہے اور ہاں ہمارے پیارے عوامی اینکر کی تقلید سے پرہیز کیجئے کہ وہ اس شعبے کے فردِ فرید ہیں کہیں آپ پر کوے اور ہنس والا محاورہ نہ صادق آجائے۔ زیادہ حد ادب۔ بس آخر میں ایک گھسا پٹا شعر آپ کے شاعرانہ ذوق کی نظر کہ مانو نہ مانو جان جہاں اختیار ہے؎ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔
اب آمدم برسر مطلب یعنی ناولز تو بھائی چالیس سال سے کتابیں،کہانیاں ،ناولز،ادب عالیہ اور پاپولر فکشن وغیرہ پڑھ پڑھ کر بہت موٹا چشمہ لگا بیٹھے ہیں اور تھوڑا بہت اہل علم و ادب کی جوتیاں سیدھی کرنے کا شرف بھی رہا ہے تو اگر عمیرہ احمد کی بات کریں تو وہ بنیادی طور پر ڈائجسٹ کی قلمکار ہیں اور قسط وار کہانیوں سے شہرت حاصل کی ہے۔جنہیں بعد میں ناول کی شکل دی گئی ہے۔ انگریزی فکشن سے بہت زیادہ متاثر عمیرہ احمد نے ناول نگاری کی عظیم ادبی صنف کو عوامی بنانے میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ انکا چند ماہ پرانا ناول الف دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اب تو کوئی بھی ناول نگار بن سکتا ہے کوئی مشکل بات ہی نہیں۔ اداس نسلیں،راجا گدھ، خدا کی بستی،آگ کا دریا اور ان جیسے کئی شاہکار ناولز کو پڑھنے والوں کو جب الف جیسا ناول پڑھنے کو ملتا ہے تو بس بقول شخصے وہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ متضاد کرداروں اور رویوں سے بھرپور یہ ناول اس قابل نہیں کہ پڑھ کر ایک طرف رکھ دیا جائے بلکہ۔۔۔مارک ٹوئن۔۔بلکہ کے بعد کیا ہے یہ مطالعے کے شائق سمجھ ہی گئے ہونگے۔ عمیرہ صاحبہ کا ایک کنٹری بیوشن تو ضرور ہے اور اسے کوئی چھین نہیں سکتا اور یہ قطعی کوئی طنز نہیں بلکہ تعریف ہے کہ انہوں نے بہر طور کتاب سے قاری کا رشتہ جوڑے رکھا ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ لیکن انگریزی فکشن کو اب مشرف بہ اردو اور مشرف بہ دیسی فکشن کرنے میں انہیں مزید ہوشیاری اور عقل مندی سے کام لینے کی اشد ضرورت ہے۔
اب آئیے جناب حسن جاوید قیصر صاحب کے ناول شہر بے مہر پر۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ یہ ان کا پہلا ناول ہے یا وہ پہلے بھی لکھتے رہے ہیں لیکن اس ناول پر کی گئی محنت اور کوشش نظر اتی ہے۔ یہ ناول قاری کو اپنے ساتھ انگیج کرلیتا ہے اور قاری کہانی کے بہاؤ میں بہتا چلا جاتا ہے جوکہ اچھی تحاریر کی پہچان ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ مصنف نے بڑی چابکدستی اور ہنر مندی سے اس شہر ناپرساں کراچی کا بھی حال احوال بیان کرنے اور اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کی منظر کشی کرنے کی خوبصورت کوشش کی ہے۔ کہانی کی بنت بہت اچھی ہے اور پھر اس ناول کا ایک اعزاز یہ بھی ہے اس کی تحریر کے کچھ حصے پر ایک ایسی ہستی نے نظر ثانی کی ہے جن کا نام ہی سند ہے اور جو درجہ ء اعتبار رکھتے ہیں یعنی جناب شکیل عادل زادہ صاحب۔ تو اچھی کہانیاں اور مطالعے کے شائقین کو میرا مشورہ ہے یہ ناول ضرور پڑھیں۔ میرا دعوی ہے کہ اس ناول کو پڑھنے کے بعد بہت سی کہی اور ان کہی سی کہانیاں آپ کو ضروریاد آئیں گی اک شہر بے مہر اور کچھ بے رحم لوگوں کے حوالے سے۔ بلکہ بڑی حد تک یہ کہنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ ذرا کی ترمیم کے ساتھ یہ ناول کسی سیریل یا ٹیلی فلم کے لئے ایک بہترین اسکرپٹ قرار پا سکتا ہے۔(خرم علی عمران)