تحریر: خاور نیازی۔۔
کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ مٹی بھی اپنے ساتھ کیا کیا گوہرِ نایاب سمیٹ کر لے گئی۔ اگر انسان سوچنے بیٹھے تو سوائے کفِ افسوس ملنے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن بحیثیت مسلمان جب ہم قانون قدرت کو تصور میں لاتے ہیں کہ یہ دنیا تو انسان کا عارضی ٹھکانہ ہے اصل زندگی تو اس قیام کے بعد شروع ہوتی ہے تو پھر ہمیں صبر آ جاتا ہے۔ یہ 2003 کا ذکر ہے جب میں لاہور میں ڈیوس روڈ پر ایک نجی بنک کی برانچ میں تعینات تھا، روزنامہ جنگ کا دفتر ہماری برانچ کے تقریباً سامنے تھا۔ ابھی مجھے اس برانچ میں آئے کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا ہو گا جب ایک دن میرے فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف سے کوئی صاحب بول رہے تھے، کیا میں منیجر صاحب سے بات کر سکتا ہوں؟
میں نے کہا، جناب میں منیجر ہی بول رہا ہوں۔ دوسری طرف سے آواز آئی، میں روزنامہ جنگ کے دفتر سے ارشاد احمد حقانی بات کر رہا ہوں، آپ کا اسمِ گرامی؟ میں نے اپنا نام بتایا اور پوچھا، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟جی مجھے بنکنگ سے متعلق آپ کی رہنمائی اور کچھ بنکنگ قوانین سے متعلق آگاہی درکار ہے۔ آپ سے کب ملاقات ہو سکتی ہے؟میں نے کہا یوں تو آپ بنک کے اوقات کار کے درمیان کسی بھی وقت آ سکتے ہیں لیکن بہتر ہو گا آنے سے پہلے فون کر لیں۔ کہنے لگے میں نے دراصل بنکاری کے قوانین اور بنک کی پرائیویٹائزیشن سے متعلق آپ سے کچھ گفتگو کرنی ہے۔ پھر خود ہی کہنے لگے بنک میں آپ یکسوئی سے لگ بھگ نصف گھنٹہ میرے لئے نکال سکیں گے؟ میں نے کہا، آپ سے چوں کہ گفتگو مکمل یکسوئی کی متقاضی ہے‘ اس لئے میں خود آپ کے دفتر آجائوں گا۔ کہنے لگے، اگر کنواں پیاسے کے پاس چل کر آ جائے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے ۔
ارشاد احمد حقانی صاحب سے یہ میری پہلی ٹیلیفونک گفتگو تھی۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ حقانی صاحب کی شخصیت کا یہ پہلو میرے لئے حیران کن تھا کہ وہ چھوٹے سے چھوٹے بندے سے بھی سیکھنے میں عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ مجھے بسااوقات حیرت ہوتی جب وہ کسی نقطے پر مجھ سے رائے طلب کرتے ہوئے میری بات کو پورے انہماک سے سنتے اور پھر اپنی رائے بھی دیتے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حقانی صاحب علم وادب کا ذخیرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے باک، نڈر صحافی اور دانشور تھے جنہوں نے کبھی مصلحتوں کے سامنے جھکنا سیکھا ہی نہ تھا۔ طبعاً حساس اور بلا کے محبِ وطن تھے۔ ملکی سیاست اور قومی مسائل پر انہیں جو ملکہ حاصل تھا‘ وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آیا ہو گا اور شاید اس کی یہی وجہ ہے کہ جو بھی سربراہِ مملکت اقتدار میں آیا، اس نے حقانی صاحب کے دولت کدہ پرحاضری دینا اپنے لئے اعزاز، سمجھا۔ بے نظیر بھٹو ، شوکت ترین سمیت لاتعداد اکابرین ان کے درِ دولت پر حاضری دیتے رہے ہیں۔
ہماری گفتگو بنکاری کے چند بنیادی قوانین اور میرے بنک کی پرائیویٹائزیشن سے متعلق کچھ امور سے متعلق تھی جو حقانی صاحب کو غالباً کسی آرٹیکل یا تحقیقی مقالے کے سلسلے میں درکار تھیں۔ ابھی ہماری گفتگو کو شروع ہوئے بمشکل دس پندرہ منٹ ہی گزرے ہوں گے جب ان کے سیکرٹری نے انہیں کسی اہم کال سے متعلق آگاہ کیا اور بتایا کہ ایک صوبائی وزیر کے سیکرٹری کا اصرار ہے کہ وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پل بھر کو سوچا اور کہا کہ بات کرا دو۔ دوسری طرف منسٹر صاحب کے سیکرٹری کا اصرار تھا کہ منسٹر صاحب ابھی پریس کلب کی ایک تقریب سے فارغ ہوئے ہیں، اگلے ایک گھنٹے بعد ان کی ایک اور میٹنگ ہے‘ اس لئے فوری طور پر آپ سے ملنے کے خواہاں ہیں جب کہ حقانی صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ پہلے ہی ایک میٹنگ میں ہیں‘ اس لئے ایک گھنٹے سے پہلے نہیں مل سکتے جب کہ سیکرٹری کا اصرار تھا کہ منسٹر صاحب کی خواہش ہے کہ جاری میٹنگ کو التوا میں رکھ کے منسٹر صاحب سے ملاقات کر لی جائے۔ اس پر حقانی صاحب نے کہا کہ منسٹر صاحب تک میری معذرت پہنچا دیں کہ جاری میٹنگ کو التوا میں رکھنا میرے لئے ممکن نہیں۔
کچھ عرصہ بعد میری ٹرانسفر قصور شہر ہو گئی انہیں پتہ چلا تو ایک دن فون کر کے کہنے لگے، مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ کی ٹرانسفر قصور شہر ہو گئی ہے۔ آپ شاید ناخوش ہوں لیکن مجھے خوشی ہو رہی ہے کہ آپ میرے آبائی شہر جا رہے ہیں۔ چند دن بعد جب میں نے اس نئی برانچ کا چارج لے لیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ یکے بعد دیگرے بڑے بڑے کاروباری حضرات میرے پاس آکر حقانی صاحب کا حوالہ دیتے اور کہتے ہم آپ کے بنک کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتے ہیں جو یقیناً میرے کیرئیر کے لئے خوش آئند امر تھا۔ میں جتنا عرصہ قصور شہر میں رہا‘ حقانی صاحب ایک مخلص اور بے لوث بزرگ کی طرح میرے کرم فرما رہے۔
چوبیس جنوری 2010کو جب میرے ایک معروف کالم نگار دوست نے فون کر کے حقانی صاحب کی وفات کی اندوہناک خبر سنائی تو لگا جیسے ملک ایک بے باک، بااصول اور نڈر صحافت کے ستون سے محروم ہو گیا ہے اور میں ایک مخلص بزرگ کی سرپرستی سے۔ حقانی صاحب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الوداع کرنے کے بعد جب ان کے گھر کے سامنے پارک میں، میں اور معروف کالم نگار اور دانشور حسن نثار ایک دوسرے سے رخصت ہونے لگے تو اچانک ایک ٹی وی چینل کا نمائندہ حسن نثار صاحب کے خیالات جاننے کے لئے مائک لے کر ان کے سامنے آ گیا، حسن نثار کہہ رہے تھے، آج ہم علم وادب کے ایک گراں قدر خزانے اور بے باک صحافت کے ایک ستون سے محروم ہو گئے ہیں۔(بشکریہ جنگ)