تحریر: سید بدرسعید
پاکستان میں ایک عرصہ تک نظریاتی سیاست اور صحافت چلتی رہی ہے ۔ مفاداتی سیاست و صحافت تو اب چند پیرا شوٹرز کے آنے کے بعد شروع ہوئی ہے ۔ پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو تحریکیں بھی عروج پر رہی ہیں ۔ نظریاتی صحافت اور نظریاتی سیاست میں آپ کے سامنے ایک مقصد ہوتا ہے جبکہ مفاداتی صحافت کو آپ مہذب الفاظ میں کمرشل ازم بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اگر آپ نظریاتی سیاست و صحافت کو درست نہیں سمجھتے تو پھر آپ کو تسلیم کرنا ہو گا کہ آپ مولانا محمد علی جوہر ، مولانا حسرت ماہانی ، لیاقت علی خان ، مولانا ظفر علی خان اور قائد اعظم محمد علی جناح کو درست راستے کا مسافر نہیں سمجھتے ۔ نظریات کی جنگ میں بہت سے صحافی و دانشور سیاست دانوں کے استاد بھی سمجھے جاتے ہیں ، یہ مشورے بھی دیتے ہیں ، ساتھ مل کر کام بھی کرتے ہیں اور قلم کی جنگ بھی لڑتے ہیں۔ عرفان صدیقی ، عطا الحق قاسمی ، الطاف قریشی ، ہارون الرشید ، رؤف طاہر سمیت دیگر کئی کالم نگار اور صحافی ایک عرصہ سے نظریاتی صحافت کر رہے ہیں ۔ان کا شخصی کردار جو بھی رہا ہو لیکن بہرحال یہ ماننا پڑتا ہے کہ یہ اپنے نظریہ پر قائم رہے ہیں۔ ان میں سے کئی لوگوں کو عہدے ملے لیکن یہ تسلیم کرنا پڑ تا ہے کہ جب ان کے مخالف نظریہ کے حامل شخص کو اقتدار ملا تو انہوں نے عہدوں سے جڑے رہنے کی بجائے استعفا دے دیا ۔انہوں نے اپنی پارٹیز نہیں بدلی ، یہ مشکل دور میں زیر عتاب بھی رہے ۔ عرفان صدیقی کا شمار بھی ایسے دانشوروں میں ہوتا ہے ۔ ان کی ایک نظریاتی کمٹمنٹ ہے ۔ آپ اس سے اختلاف کریں یا انکار کریں لیکن یہ سچ ہے ۔ عرفان صدیقی نے جب وزیراعظم کے مشیر کا عہدہ سنبھالا تو جنگ میں کالم لکھنا بند کر دیا حالانکہ اس وقت تو ان کے کالم کی نواز شریف کو اور زیادہ ضروت تھی کہ زیر احسان ہوں گے لیکن صدیقی صاحب نے اس دوران کالم نہیں لکھا ۔ ان کی طرح عمران خان کے حق میں جانب دارانہ کالم ہارون الرشید ، ارشاد بھٹی، منصور آفاق سمیت کئی کالم نگار لکھتے ہیں ۔ اگر نواز شریف کے لیے تقاریر لکھنا یا ان کے حق میں کالم لکھنا جرم ہے تو پھر تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے دامن میں بھی ایسے کئی خطرناک مجرم پائے جاتے ہیں۔ عہدوں اور مراعات کی بات ہے تو ڈاکٹر شاہد مسعود بھی اہم عہدے پر رہ چکے ہیں اور حال ہی میں ایک بڑے دانشور کو ایئرپورٹ پر شاپروں کا ٹھیکہ دینے کے بعد عوامی احتجاج پر منسوخ کرنا پڑا تھا ۔
آپ جن لوگوں پر پھبتیاں کستے ہیں میرے نزدیک یہ نظریاتی دانشوروں کی آخری نسل ہے ۔ اس کے بعد تو ہمیں کرایہ کے دانشور اور مفاداتی صحافی و سیاست دان ہی نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کی قصر کریں اور ان کے اختلاف رائے سے سیکھنے کی کوشش کریں ، مکالمہ اور دلیل ہمارے زندہ ہونے کی نشانی ہوتی ہے۔ ہماری سیاست اور صحافت سے اب نظریہ اور کمٹمٹ ختم ہو گئی ہے ۔ آج بہت سے ”دانشوروں”‘ کو عرفان صدیقی صاحب پر پھبتیاں کستے دیکھا تو دکھ ہوا ۔ عرفان صدیقی استاد ہیں ، آپ کی تمام تر پھبتیوں کے باوجود سچ یہ ہے کہ آپ کے دامن میں ان جیسی خوبصورت اردو لکھنے والا ایک بھی صاحب مطالعہ کالم نگار نہیں ہے ۔ کالم نگاری ایک فن ہے جو ان پرانے لوگوں کے ساتھ ہی دفن ہوتا جا رہا ہے ۔ عرفان صدیقی کے بعد ایسی خوبصورت اردو پر مبنی کوئی کالم نہیں مل سکا ۔ بھاڑے پر تو ہم ایسے لکھنے والے بھی مل جایا کرتے ہیں جنہیں دو لفظ لکھنا آ جائیں تو خود کو دانشور تصور کرنے لگتے ہیں ۔۔
نوٹ : عرفان صدیقی کی گرفتاری والے معاملے کی تفصیلات سے میں آگاہ نہیں اس لئے اس پر تبصرہ نہیں کیا لیکن عدالتی یا قانونی معاملہ وہیں طے ہونے دیں ، آپ یا میں اپنی ذات میں جج نہ بنیں تو مناسب ہے۔۔(سید بدر سعید )