تحریر: ریحان عابدی۔۔
ایران منتقم المزاج قوم ہے امریکا کو اس کا ہرجانہ تو بھرنہ پڑے گا۔ اور بغداد میں پیش آنے والے واقعے کا تعلق فرف ایران سے نہیں ہے کیونکہ اس حملے عراقی ملیشیا الحشد الشعبی کے کمانڈر ابو مہدی المھندس بھی شہید ہوئے ہیں۔ اسی لیے مسئلہ صرف ایران کا نہیں بلکہ اسلامی مقاومت کا ہے اسی لیے امریکا کو جواب بھی اسلامی مقاومت دے گی۔
یہاں دو باتیں ہیں۔
1 ۔ کیا ایران برائے راست امریکا کو جواب دے گا؟
2 ۔ کیا ایران مشرق وسطی (حزب اللہ لبنان, حماس فلسطیئ، الحشد الشعبی عراق, انصار اللہ یمن،زینبیون, فاطمیون، حیدریون،ابوالفضل بریگیڈ،حیدر کرار بریگیڈ شام، شامی فورسز) میں موجود اپنی بیک فورسز کے ذریعے امریکا کو جواب دے گا۔
ایران انقلاب اسلامی کے بعد سے سخت ترین امریکی و یورپی پابندیاں برداشت کرتا آرہا ہے۔
ایران نے 8 سالہ ایران۔ عراق جنگ، ملک کے اندر بغاوت، پارلیمنٹ پر حملہ غرض ہر طرح کی مشکل کا سامنا کرچکا ہے اسی لیےایک منجا ہوا کھلاڑی ہے۔ جس نے کے میزائل مشرق وسطی میں موجود امریکی اڈوں اور ناجائز اولاد اسرائیل کی طاق میں ہیں جو چند منٹوں ان اڈوں اور اسرائیل کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ ایران وہ ملک ہے جس سے متعلق امریکی صدر جمی کارٹر نے ایران پر حملے میں ناکامی ( عملیات طبس، آپریشن ایگل کلو) کے بعد کہا تھا۔ “لگتا ہے خدا بھی خمینی کے ساتھ ہے”۔یہ طویل بعد بتانے کا مقصد ایران اور اسلامی مقاومت کی طاقت بتانا تھا۔
اب اپنے موضوع کی جانب آتے ہیں۔جنرل سلیمانی ایران کی دوسری طاقتور ترین شخصیت تھے،جنہوں نے 1998 میں القدس بریگیڈ کی کمانڈ سنبھالی جس کا کام ملک سے باہر ملکی مفادات کو مضبوط سے مضبوط تر کرنا اور اسلامی مزاحمتی تنظیموں کو مزید طاقتور کرنا ہے، جنرل سلیمانی کی بابصیرت قیادت نے ہی شام و عراق میں داعش جیسی خونخوار دہشتگرد تنظیم کو شکست دی، شامی فورسز ، روس اور رضاکارانہ فورسز کو ایک پیج پر لانے بھی جنرل سلیمانی کا اہم کردار تھا۔
جنرل سلیمانی کو آیت اللہ خامنہ ای نے شہید زندہ کے لقب سے نواز تھاکیونکہ شہید ہر وقت آرزو شہادت دل میں لیے کوہساروں اور بیابانوں میں برسوں سے گھوم رہے تھے اور دشمنان اسلام کو پے در پے شکست سے دو چار کررہے تھے۔ ایسے اہم کمانڈر کی شہادت پر ایران کسی صورت خاموش نہیں بیٹھے گا اور نہ ہی دیگر اسلامی مزاحمتی تنظیمیں خانوش بیٹھیں گی۔ جواب تو ضرور آئے گا اور بہت سخت ہوگا جس کا عندیہ خود امریکی سنیٹر اور صدارتی امیدوار برنی سینڈر سمیت کئی ارکان سینٹ اور تجزیہ کاروں بھی دے چکےہیں۔
دوسری جانب ایرانی حکومت، نئے سربراہ قدس قورس جنرل اسماعیل اور آیت اللہ خامنہ ای نے بھی انتقامی کارروائی کا واضح پیغام دیا ہےلیکن کیا ایران فوری جوابی کارروائی کرے گا، ہرگز نہیں۔ ایران اور اسلامی مزاحمتیں کبھی بھی دشمن کے میدان جاکر نہیں کھیلتی یعنی کبھی دشمن کی چالوں کا شکار نہیں ہوتیں۔امریکا اس حملے سے پہلے رد عمل کی تیاری کرچکا ہوگا اسی لیے ایران وہاں لاکر مارے گا جہاں امریکا کو پانی بھی نہ ملے لیکن اس سے پہلے جنرل سلیمانی کی مخبری کرنے والوں کا کام تمام کرے گا کیونکہ شہید سلیمانی کب آتے ہیں، کہاں سے آتے ہیں اور کب چلے جاتے کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا جس کی دو مثالیں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔
1۔ داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے داعشیوں سے خطاب میں کہا تھا کہ میں قاسم سلیمانی کو پکڑ کر زندہ جلاوں گا،جواب میں جنرل سلیمانی نے کہا کہ “جب تم مجھے پکڑ کر زندہ جلانے کی بات کررہے تھے میں اس وقت مسجد کی تیسری صف میں بیٹھا تھا”۔
2 ۔ شہادت کے وقت بھی جنرل سلیمانی سادی سی گاڑی میں جارہے تھے جیسے کوئی معمولی دروغہ جارہا ہو۔ جس کا کسی کو علم بھی نہیںتھا۔ اس کا مطلب واضح ہے جنرل سلیمانی مخبری کی گئی تھی۔دوسرا یہ کہ اطلاعات کے مطابق جنرل سلیمانی دعوت پر عراق گئے تھے۔
ایران کے لیے مخبروں کو تلاش کرنا بہت آسان ہے جس کی ایک مثا ل دیتا ہوں،سنہ 2009 میں دشمن نے بڑی ہوشیاری سے صدارتی انتخابات کی آڑ میں ایران میں مخملی انقلاب برپا کرنے کی کوشش کی جس کا خطرہ ایرانی ایجنسیوں نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا اور اس شورش میں ملوث ایک ایک کردار کو بے نقاب کردیا تھا جس میں سابق صدر رفسنجانی کی اولاد بھی شامل تھی۔
اس حملے کے جواب میں مذکورہ واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔
1۔ ایران برائے راست امریکا پر حملہ کرکے مشرق وسطی میں موجود اس کے اڈوں کو امریکی فوجیوں سمیت ملیامیٹ کردے گا جس کی زد میں سعودیہ، امارات، بحرین،کویت، اومان، افغانستان، کرغزستان، ازبکستان سمیت دیگر ممالک بھی آسکتے ہیں (اور اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑے گے) جس کے نتیجے تیسری عالمی جنگ شروع ہوسکتی ہے اور اوپر ذکر کردہ ممالک، دیگر امریکی اتحادی بشمول پاکستان (جس کے ظاہر اور پوشیدہ حکمرانوں امریکا اور عرب ممالک پال رہے ہیں) امریکی صف میں کھڑے ہوں گے۔ جبکہ ایران کی صف میں روس، چین،شمالی کوریا، ترکی، قطر،ملیشیا اور ممکنہ طور پر پاکستان (جس کے امکان نہ ہونے برابر ہیں کیونکہ پاکستان کا وزیر اعظم اپنی مرضی کولالمپور اجلاس میں نہیں جاسکتا تو امریکا مخالف صف میں کیسے جائے گا) و اسلامی مزاحمتی تنظیمیں جنہیں ابتداء سے ایران کی حمایت اور نصرت حاصل ہے (جن کا ذکر اوپر آچکا ہے) ایرانی صف میں کھڑی ہوں گی۔
2 ۔ ایران جنرل سلیمانی پر حملے کے جواب میں اسرائیل کو نشانہ بنائے گا اور ممکنہ طور پر اسرائیلی وزیراعظم، خفیہ ایجنسی موساد کا سربراہ کو بھی برائے راست نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
3 ۔ ایران برائے راست ایسا کوئی حملہ نہیں کرے گا جس تیسری عالمی جنگ شروع ہوجائے بلکہ مشرق وسطی میں موجود اپنے مسلح گروہوں جن کا ذکر اوپر آچکا ہے کے ذریعے امریکی اڈوں پر حملے گا جیسا کہ حماس اور حزب اللہ کی جانب سے سخت رد عمل کا عندیہ دیا جاچکا ہے۔ جبکہ عراقی ملیشیا الحشد الشعبی کی جانب سے امریکی چھاونی عین الاسد پر میزائلوں سے حملہ کیا جاچکا ہے۔لیکن امریکا یقینا اس حملے کے لیے بھی تیار بیٹھا ہوگا جیسا کہ جنرل سلیمانی پر حملے کے کچھ دیر بعد ہی اسرائیل میں ہائی الرٹ جاری کردیا گیا تھا اور بصرہ عراق سے امریکی آئل کمپنی نے تمام فوجیوں اور شہریوں نکال لیا ہے اور شہریوں کو عراق نہ جانے کی ہدایت کرتے ہوئے عراق میں موجود امریکیوں کو بھی واپس آنے کا کہہ دیا ہے۔۔(ریحان عابدی)۔۔۔
(بلاگر کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔۔)