camera ko dekh kar muskuraden

اقتدار کا چاند۔۔

تحریر: عادل علی
بچپن سے ملک میں سیاست کے ساتھ بھی سیاست کرنے کا دستور دیکھتے آرہے ہیں۔ یہ تو معلوم ہو ہی چکا تھا کہ اسٹیج پر کٹھ پتلیاں نچانے کا کھیل کھیلا جاتا ہے جبکہ ڈوریں پس پردہ نادیدہ ہاتھوں کے قبضے میں ہوتی ہیں۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا سے تھوڑا آگے نکلتے ہیں اور یوں کہہ لیتے ہیں کہ اقتدار کے سینے میں دل نہیں ہوتا یا اقتدار کے نشے کا سرور اس قدر اثر رکھتا ہے کہ ہمارے معزز سیاستدان بار بار ڈسے جانے کے لیے اپنا آپ اپنی پوری جانفشانی سے پیس کر دیتے ہیں اور یوں ووٹ کو عزت دو کا مفہوم دراصل بوٹ کو عزت دو بن جاتا ہے۔
آج عمران خان اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں ٹھیک اسی طرح جا گرے جیسے کبھی نواز شریف وزیراعظم گیلانی کی نااہلی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد گرے تھے۔ اس قدر گھاگ سیاستدان ہر بار اتنی آسانی سے کیسے بھول جاتے ہیں کہ اقتدار کے نشے میں جس طاقت و اختیار کا استعمال وہ سیاسی مخالفین کے خلاف کر رہے ہیں کل کو یہ مخالفین اقتدار میں آکر ان کے خلاف بھی استعمال کرینگے۔
آٹھویں دہائی میں ہوتے ہوئے بھی ہمارے سیاستدان سیاسی نابالغ ہی ثابت ہوتے ہیں اور ہر بار سستے میں نپٹائے جانے کے بعد سائیڈ پکڑ لیتے ہیں۔
بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی مزاحمت کی سیاست ترک کر چکی ہے اور ترکے میں ملے ورثہ سندھ پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔ نو مور (شہادت) کے فارمولے پر عمل پیرا پیپلزپارٹی سیف کھیلتے ہوئے محض اقتدار میں اپنا حصہ برقرار رکھے ہوئے مگر ہوس اقتدار کی دوڑ میں شامل نہیں ہے۔
موجودہ سیٹ اپ میں چھوٹے میاں شہباز شریف صاحب کی حیثیت آصف زرداری کے سامنے ایسے معلوم ہوتی ہے جیسے کبھی قائم علی شاہ کی ہوا کرتی تھی کہ جیسے سائین “بڑے” کا حکم۔۔!
اقتدار کی باریاں لیتے نون لیگ و پیپلزپارٹی 75 سال بعد اس نقطے پر متفق ہوئے کہ سیاست میں بیک ڈور راستوں کا استعمال وقتی فائدہ تو دیتا ہے مگر ہوتا بہرحال مضر ہی ہے۔
پیپلزپارٹی کو جب جب اقتدار ملا انہوں نے نادیدہ قوتوں کو کوئی نہ کوئی چوٹ پہنچائی اور بدلے میں لاشیں اٹھانے سمیت جیلیں کاٹیں جبکہ تاوقتیکہ کہ اصل لاڈلے بڑے میاں صاحب کو جب جب اقتدار سے فراغت نصیب ہوئی انہوں نے پرلوک جاکر آرام فرمایا اور واپس صرف حصول اقتدار کے لیے ہی وطن آئے جو کہ اب بھی قریب قریب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
پیپلزپارٹی نے انتقام کی سیاست پر یقین نہ رکھتے ہوئے آمر مشرف کو بھی ایگزٹ دیا اور اپنے دور اقتدار میں تمام افراد پر سیاسی مقدمات کا خاتمہ کیا۔
سیاسی انجنیٗرز نے عمران خان کو لانچ کرنے کا تجربہ خیر فرمایا تو وہ ان کے ہی گلے آگیا جبکہ عمران خان نے سیاسی انتقام کی بدترین روایات قائم کیں ساتھ ہی نہ صرف اداروں کا تقدس پامال کیا بلکہ ملک کی معیشت کا بھی دھڑن تختہ کر ڈالا۔
کسی بھی جماعت نے فوج کو بظاہر اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا اکیلے عمران خان نے جبکہ لانے والوں کو عمران خان کا ٹریک ریکارڈ بھی معلوم تھا کہ اسے تھالی میں چھید کرنے کی عادت مگر “اٹھا ہے دل میں تماشے کا شوق بہت” کے مصداق عمران خان کے تمام ناز و انداز اٹھائے گئے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر ٹک ٹاکرز نے دھاوا بول دیا۔
عمران کو حکومت سے نکالنے کے بعد کرتا دھرتاوں نے پھر سے روٹھے یار نوں مناون دی کوششیں تیز کردیں کہ کسی طرح سیاسی محاذ آرائی بڑے میاں صاحب کے حوالے کی جائے لیکن بڑے میاں صاحب اپنے ساتھ ہوئے سلوک کو لے کر دلبرداشتہ ہوئے بیٹھے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ عمران خان کو سزا لازمی دی جائے جبکہ نون لیگ کے اپنے کچھ لوگ اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ سیاسی انتقام کی روایت برقرار رکھی جائے لیکن انوکھے لاڈلے کی فرمائش پوری کرنا فی الوقت “ان” کی مجبوری ہے۔
ایک طرف عمران خان پر نہایت کمزور مقدمے میں ایک ڈسٹرکٹ کورٹ کے جانب سے سزا نافذ کی جاتی تو دوسری جانب اس کے لیے اگلے ہی قدم پر فیصلے کو چیلینج کرنے کے آپشنز کھلے چھوڑے جاتے ہیں۔
میڈیا ٹرائلز اور حقیقی سزاوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
میڈیا پر اسحاق ڈار کا گھر نیلام ہوتا ہے جبکہ اس پر سزا ٹیکس ریٹرنز کے معاملے میں ہوتی ہے۔ نواز شریف کی کردار کشی پانامہ کو لے کر ہوتی ہے جبکہ سزا محض ایک اقامے پر ہوتی ہے۔ یہ کمزور ترین کیسز میں سزا واپسی میں آسانی کے لیے دی جاتی ہے کہ بوقت ضرورت معاملہ جلدی ریورس ہوجائے۔
حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اور حکومت سے نکالے جانے کے بعد بھی عمران خان بدقستمی سے خود کو سیاستدان نہ بنا پائے کیونکہ سیاستدان عوام اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے معاملے کرتا ہے مگر خان صاحب محض پنڈی کی جانب نظر کیے بیٹھے رہے کہ وہ ان سے بات کرینگے اور نتیجہ یہ کہ دو سابقہ لاڈلوں میں سے ایک کو ہٹا کر دوسرے کو راضی کرنے کے لیے کھینچا تانی جاری ہے اور ملک میں عوام کی فکر کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
عمران خان کو سزا ہوئی ہے کل کو ختم بھی ہو سکتی ہے ٹھیک اسی طرح جیسے دیگر کی بھی ہوتی رہی ہے مگر اقتدار میں جو بھی آئے اسے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ چور دروازے کی مدد سے آوگے تو اسی دروازے کی مداخلت سے نکال بھی دیے جاوٗگے۔
حصول اقتدار کا اصل راستہ عوام کی طاقت ہے اور عوام اپنی روزی روٹی کے چکر میں اس قدر پس چکے ہیں کہ ان سے اب کوئی بھی امید نہ ہی رکھی جائے تو بہتر ہے۔(عادل علی)۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں