maslon ka masla

انٹرٹینمنٹ اور فحاشی



تحریر: خرم علی عمران

دراصل فحاشی اور انٹرٹینمنٹ کی ایسی جامع تعریف کرنا کہ جس پر سب لوگ متفق ہوں ذرا مشکل کام ہے،ہوسکتا ہے کہ ایک چیز جوآپ کے معاشرے،روایات۔تہذیبی اقدار اور مذہبی اصولوں کے مطابق فحش ہو،کسی دوسرے معاشرے والوں کے لئے وہ محض انٹر ٹینمنٹ ہو،تفریح ہو، یورپ کے کئی ممالک میں، اسکنڈے نیوین ممالک میں، کئی ایشین ممالک مثلا،تھائی لینڈ وغیرہ میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے،وہاں باقاعدہ ایک سسٹم اور نظام کے تحت اس عمل کو رواج حاصل ہے، مگر اس چیز کو کسی اسلامی ملک میں قانونی طور پر جائز قرار دینے کا تصور بھی محال ہے، اس لئے چاہے وہ تحریر ہو،تصویر ہو، فلیم ہو یا وڈیوز، انہیں عالمگیر طور پر کسی مطلق تعریف کے تحت فحش قرار شاید نہیں دیا جاسکتا، کئی ممالک میں کچھ حدود کے ساتھ پورن فلموں کو باقاعدہ انڈسٹری کا درجہ حاصل ہے،اور یہ کام کسی اسلامی تو چھوڑئیے کسی مشرقی ملک میں بھی اعلانیہ انڈسٹری کے طور پر ہونا محال ہے۔ بہت سے مغربی ممالک میں ننگوں کے کلب،ہم جنس پرستوں کے فورمز اور ادارے، ایسے ساحلِ سمندرجہاں کپڑے پہننا ممنوع ہے، عام سی بات اور انٹرٹینمنٹ شمار ہوتا ہے جبکہ یہی چیزیں مشرقی ممالک میں سختی سے ممنوع ہیں۔ تو پھر انٹرٹینمنٹ اور فحاشی میں تمیز کرنے کے لئے کیا معیار ہو سکتا ہے،مذہب؟ تہذیبی روایات؟ یا کچھ اور۔۔۔

اگر آپ مذہب کو معیار بنا کر فحاشی کا تعین کریں گے تو مغربی ممالک کی بات تو چھوڑئیے انہوں نے تو عملا اپنے اپنے مذاہب کو عملی زندگی سے تقریبا خارج ہی کر دیا ہے، بس اسلامی ممالک ہی ہیں جہاں مذہب کی کچھ اہمیت ابھی باقی ہے، تو اگر معیار مذہب ہوگا تو پھر تو بہت کچھ جو اسلامی ممالک خصوصا پاکستان میں ہورہا ہے آپ کو فحش قرار دینا ہوگا،ان ہی میں سے ایک شعبے کے حوالے سے چند نکات پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں، وہ شعبہ ہے انٹرٹینمنٹ ،یعنی ٹی وی اور فلم انٹرٹینمنٹ کی دنیا، فلم پر پھر کبھی بات ہوگی فی الحال ٹی وی کو ذرا دیکھتے ہیں، نیوز شوز “جو اپنی جگہ بجائے خود بہت بڑی اور عمدہ قسم کی تفریح اور انٹرٹینمنٹ کا سامان بہم پہنچانے میں کافی سالوں سے مصروف ہیں” کے علاوہ ہمارے ٹی وی چینلز مارننگ شوز کے نام سے ،ڈراموں کے نام سے اور گیم شوز کامیڈی شوزکے عنوان سے انٹرٹینمنٹ کی لذت عطا کرتے ہیں،

اب ان چیزوں یا آئٹمز کو آیا ہم فحش قرار دے سکتے ہیںیا نہیں،علماء ایک طبقے کا خیال ہے کہ ٹی وی اپنی ذات میں نہ حلال ہے نہ حرام،وہ محض ایک آلہ ہے،اسکا استعمال اسے حرام یا حلال بناتا ہے، جب کہ علماء کے دوسرے طبقے کی رائے میں ٹیلیویژن فی نفسہ ہی حرام اور غلاظت ہے، چلیں اگر ہم پہلے طبقہ ء علما کی بات مان کر چلیں تو بھی وہ حضرات فلموں، ڈراموں،مارننگ،کامیڈی،گیم شوز جس میں نامحرموں کا کھلا اختلاط،ہنسی مذاق، چست  اور جسم کی بناوٹ کو ظاہر کرتے ہوئےکپڑے،ذو معنی جملے اور شہوت انگیز ڈائیلاگز اور دیگر کئی عوامل کی وجہ سے انہیں نہ صرف حرام، فسق اور ناجائز قرار دیتے ہیں بلکہ انٹرٹینمنٹ چینلز کو فحاشی کے فروغ کا بڑا ذریعہ قرار دیتے اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی کو یکسر حرام اور آخری درجے میں حرام نہیں تو کم از کم مکروہ ضرور قرار دیتے ہیں۔ اب کیا کریں گے؟ چلیں،آپ  ماڈریٹ اور لبرل لوگ،آزادانہ طرز زندگی کے شائق صاحبانِ مال و زر تو علما کی باتوں کوبظاہر حقارت سے فرسودہ اور آؤٹ آف ڈیٹ قرار دے کر اپنی جان  اور ایمان جیسے تیسے اپنے خیال میں بچا ہی لیتے ہیں،مگر آپ ان روشن خیال تعلیم جدید کے حاملین کو کیاکہیں گے جو آپ کے پیش کردہ انٹرٹینمنٹ پروگرامز کو اپنی ماں بہن بیٹی یا بھائی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے سے گھبراتے اور احتراز کرتے ہیں۔ وہ بظاہر کھل کر آپ کی مخالفت کرتے  زیادہ نظر نہیں آتے،مگر دل میں اگر برا نہیں تو ناگوار تو ضرور سمجھتے ہیں، اگر کسی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے کسی بھی طرح وابستہ کوئی لڑکے یا لڑکی کا رشتہ کہیں دیا جائے تو کتنی مشکل اور حجت بازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ کم و بیش سب ہی جانتے ہیں۔

تو حاصل گفتگو کچھ یہ ہوا کہ وطنِ عزیز میں فحاشی اور انٹرٹینمنٹ کچھ اس طرح سے گڈ مڈ ہو گئی ہیں کہ انہیں علیحدہ تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا،ایک اور الزام ہمارے انٹرٹینمنٹ چینلز پر غیر ملکی کونٹینٹ خصوصا انڈین کونٹینٹ پھیلانے کا بھی آتا ہے کہ وہ پیسے کمانے کے چکر میں سب کچھ بھول کر اس کونٹینٹ کو پاکستان میں پروموٹ کرنے کے مجرم ہیں،  گو کہ سپریم کورٹ کے حالیہ حکم کے بعد اس سیلاب پر کچھ روک تو لگی ہی ہے،میرا اس سلسلے میں ایک نرم گوشہ اپنے چینلز کے لئے یہ بنتا ہے کہ کچھ بھی ہو، ہمارے ڈراموں نے کم از کم انڈین ڈراموں کا سحر تو پوری طرح توڑ دیا ہے اور انڈین فلموں کے اثر اور ویور شپ کو بھی کم کیا ہے۔ یہ ایک کام ہے جس کی وجہ سے انکی ساری خطائیں معاف کرنے کا دل چاہتا ہے۔ وگرنہ چند سال پہلے ہی کا زمانہ ذرا یاد کیجئے، ہر طرف انڈین ڈراموں اور پروگراموں کی بہار عروج پر تھی اور ہندی بول چال کا اثر ہماری زبان تک میں نمایاں ہو گیا تھا۔۔ کیا ایسا نہیں تھا؟ ہمارے  میڈیا کےانٹرٹینمنٹ اور انفو ٹینمنٹ سگمنٹ نے کم از کم یہ سحر تو توڑا۔۔۔ ویسے تو مجھے یقین ہے کہ میڈیا سے منسلک احباب کسی سے کم پاکستانی نہیں ہیں مگر میرا پھر بھی عاجزانہ اور ہمدردانہ  سا مشورہ ہے کہ بھیا،خوب پیسے کماؤ کون منع کرتا ہے، مگر بغیر پیمرا اور سنسر کے ڈر سے خود ہی کہ آپ” جو ان شعبوں میں مختلف کام کر رہے ہیں” بھی ہم سے زیادہ پاکستانی اور ذاتی زندگی میں ہم سے شاید بہتر مسلمان ہیں کچھ اپنی مشرقی اقداراور مذہبی روایات کا بھی خیال اور پاسداری کرتے ہوئے سیلف چیکنگ اور سیلف سنسرشپ کے تحت ان پروگرامز کو مزید بہتر بنائیں۔ عین نوازش ہوگی۔  )

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں