سینئر صحافی اور کالم نویس سہیل وڑائچ کے مطابق انتخابی نقشہ فی الحال بن نہیں پا رہا ،پنجاب کے تقریباً ہر حلقے میں نون لیگ کا امیدوار تو موجود ہے مگر پاکستان تحریک انصاف کا امیدوار کون بن پائے گا ابھی تک کنفرم نہیں ہو رہا ،یہی وجہ ہے کہ ابھی تک انتخابی ماحول نہیں بن رہا۔روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ کالم میں وہ رقم طراز ہیں کہ اب تک انتخابات کی جو صورتحال نظر آ رہی ہے، اس میں دیہی حلقوں میں نون لیگ کو واضح واک اوورمل رہا ہے کیونکہ یا تو نون لیگی امیدوار کا روایتی اور تگڑا حریف اپنی پارٹی چھوڑ چکا ہے اور اگر وہ تحریک انصاف میں ہے تو غائب ہے۔تحریک انصاف کا ورکر ڈرا اور سہما ہوا ہے اور لگ رہا ہے کہ الیکشن تک تحریک انصاف کو اور دبایا جائے گا ۔عمران خان کی نااہلی کا امکان ہے، مضبوط امیدواروں کو کھڑا ہی ہونے نہیں دیا جائے گا ،یوں نون لیگ کیلئے راہ ہموار ہو جائے گی۔ خوف اور ڈر کی یہی صورتحال برقرار رہی تو نون لیگ بآسانی سادہ اکثریت لے لے گی اور اگر دوائی زیادہ ڈل گئی تو ن لیگ کو سادہ اکثریت سے بھی زیادہ دوتہائی کے قریب بھی اکثریت مل سکتی ہے یہ ایک تھیوری ہے جس کا چانس 90فیصدہے لیکن ایک دوسری تھیوری بھی بڑی مضبوط ہے جس کا چانس اگرچہ صرف دس فیصد ہے لیکن اسے رد کرنا مشکل ہے اور وہ تھیوری یہ ہے کہ اگر تھوڑا سا بھی ہاتھ ہلکا ہوا تو تحریک انصاف کا ناراض ووٹر الیکشن والے دن باہر نکل کر بالخصوص بڑے شہروں اور بالعموم چھوٹے قصبوں میں سارے انتخابی نتائج کو الٹ دے گا۔ فی الحال اوپر دی گئی دونوں تھیوریاں غیر ثابت شدہ ہیں آنے والے دنوں کے حالات یہ بتائیں گے کہ کونسی تھیوری صحیح ثابت ہوگی۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے ایک منصوبہ بندی یہ بھی کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ یا تو آزاد الیکشن لڑیں یا پھر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں مگر الیکشن کے بعد وہ یا تو آزاد گروپ بنالیں یا استحکام پارٹی کے ساتھ الحاق کر لیں ،کچھ کا خیال ہے کہ یہ آزاد گروپ نون لیگی حکومت کا پٹریاٹ کی طرح ممدومعاون بن جائے ۔اس منصوبہ بندی کے مطابق اس طرح تحریک انصاف کے ووٹ لیکر آنے والے 40کے قریب اراکین کا ایک الگ گروپ بن جائے گا ،یہ لوگ آنے والی حکومت کو سپورٹ کریں گے۔ تحریک انصاف کے اندر موجود انتخابی گھوڑے اس صورتحال کو اپنے لئے بہت بہتر قرار دے رہے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ وہ تحریک انصاف کے مخالف ہو کر الیکشن لڑیں ،اس طرح سے انہیں تحریک انصاف کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہو گا ،وہ چاہتے ہیں کہ ووٹ تو تحریک انصاف کے ہی لیں لیکن بعد میں فیصلہ آزادانہ طور پر کریں تاہم اس حوالے سے نون لیگ کی قیادت اور ملک کے دوسرے بااختیار شخص نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے، انکی رائے میں یہ انتخابی گھوڑے انتہائی نا قابل اعتبار ہونگے اور ان کی مدد سے جو بھی سیاسی عمارت کھڑی ہوگی وہ ناپائیدار ہوگی۔پاکستان کے بالائی حلقوں میں آئندہ حکومت کے بارے میں مضبوط تاثر یہی ہے کہ یہ مخلوط حکومت ہو گی جس میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی میجر پارٹنر ہونگے۔ نواز شریف وزیر اعظم ہونگے اور آصف زرداری صدر کے امیدوار ہونگے ۔حالیہ دنوں میں آصف زرداری نے مقتدرہ کےساتھ ملاقات کرکے سندھ میں دوبارہ سے اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے، زرداری صاحب نے بلاول بھٹو کو بھی منالیا ہے۔بالائی حلقوں میں یہ خدشہ موجود ہے کہ اگر دوائی زیادہ ڈل گئی تو نون کی مضبوط حکومت بن جائے گی جس سے ماضی کی طرح پھر مقتدرہ سے لڑائی ہو سکتی ہے، اس لئے ضروری ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مخلوط حکومت ہو تاکہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم رہے۔بالائی حلقے کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی مقتدرہ سے کبھی لڑائی نہیں کرتی اس لئے اس کا راستہ نہیں روکنا چاہئے یہی وجہ ہے کہ اندازوں میں یہ سامنے لایا جا رہا ہے کہ شہر کراچی کی آٹھ دس نشستیں بھی پیپلز پارٹی لے جائیگی اور اندرون سندھ ان کا کوئی بھی بڑا مدمقابل ان کا مخالف نہیں رہا یوں پیپلز پارٹی اگلے انتخابات کیلئے محفوظ اننگز کھیل رہی ہے کیونکہ سندھ میں اسے حکومت بنانے میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی اور مرکز میں بھی اس کے ووٹوں کے بغیر مضبوط حکومت نہیں بنے گی ۔اپنے کالم کے اختتام میں انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ میری ذاتی رائے میں تو آئندہ انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ ہونا چاہئے ،سب جماعتوں کو برابر کا مو قع ملنا چاہئے انتخابات کو جمہوری استحکام کا ذریعہ بننا چاہئے نہ کہ جمہوری عدم استحکام کا،ملک کو اگر معاشی استحکام کی طر ف لےجانا ہے تو اس کیلئے دیر پا سیاسی استحکام ضروری ہے اور دیر پا سیاسی استحکام منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔