تحریر: علی حسن
سب ہی گنتی میں مصروف ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے حلقے اور مجوزہ کامیاب امیدوار گن رہے ہیں۔ مستقبل میں حکومت کے قیام کے لئے اپنے لوگوں کی تعداد گن رہے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے کے امیدوار انتخاب کا دن گن رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ انتخابات ہوتے بھی ہیں یا نہیں۔ نگران حکومت پنجاب کی نگران حکومت کی طرح اپنی آئینی مدت کو بھی گزار دے گی۔ آئین کی خلاف ورزی کو معیوب نہیں سمجھا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت انتخابی اصلاحات کے بارے میں تجاویز پر غور کر رہی ہے۔ حکومت میں شامل بعض عناصر اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ان کے سیاسی مخالفین کو انتخابات سے باہر کس طریقہ سے رکھا جا سکتا ہے۔ چیئرمین انتخابی اصلاحات پارلیمانی کمیٹی ایاز صادق کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعت پر پابندی کی کوئی تجویز زیر غور نہیں طریقہ کار پر بات ہوئی ہے۔ان کا کہا کہ ہمارا کام انتخابی اصلاحات کرنا ہے، سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانا نہیں۔ انتخابی اصلاحات پر کمیٹی سفارشات کو آئندہ ہفتے حتمی شکل دے دی جائے گی، انتخابات کے شفاف انعقاد کیلئے مو ¿ثر تجاویز کو زیر غور لایا گیا۔انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی جماعت پر پابندی کا اختیار سپریم کورٹ کے بجائے پارلیمنٹ کو دینے کی تجویز پر غور کیا گیا۔ مجوزہ ترمیم میں کہا گیا کہ پہلے پارلیمنٹ جائزہ لے کہ سیاسی جماعت پر پابندی لگنی چاہیے یا نہیں۔ذرائع کے مطابق اجلاس میں تجویز دی گئی کہ پارلیمنٹ سیاسی جماعت پر پابندی لگانے پر متفق ہو تو معاملہ سپریم کورٹ کو بھجوایا جائے۔ انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی کا سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ان کیمرا اجلاس ہوا، پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں 73 انتخابی تجاویز زیر غور ہیں۔پریذائیڈنگ افسر کو نتیجہ مرتب کرنے کےلیے مخصوص وقت دینے کی تجویز بھی دی گئی، نتائج مرتب کرنے میں تاخیر پر پریزائیڈنگ افسر کو جوابدہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔اجلاس میں یہ بھی تجویز سامنے آئی کہ پریزائیڈنگ افسر انتخابی نتائج کی تاخیر پر ٹھوس وجہ بتانے کا پابند ہوگا، پریزائیڈنگ افسر دستخط شدہ نتیجے کی تصویر ریٹرننگ افسر کو بھیجے گا، پریزائیڈنگ افسر کو تیز ترین انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون دینے کی بھی تجویز دی گئی۔اجلاس میں پولنگ ایجنٹس کو بھی کیمرے والا فون ساتھ لے جانے کی اجازت دینے کی تجویز سامنے آئی ہے، پولنگ اسٹیشن کے ہر بوتھ پر سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کی بھی تجویز دی گئی۔ شکایت کی صورت میں کیمروں کی ریکارڈنگ بطور ثبوت پیش کی جاسکے گی۔ امیدوار بھی قیمت ادا کر کے پولنگ اسٹیشن کی ویڈیو حاصل کر سکے گا۔پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدوار کے لیے انتخابی اخراجات کی حد بڑھانے کی بھی تجویز دی گئی۔ قومی اسمبلی کی نشست کے لیے 40 لاکھ سے ایک کروڑ تک اخراجات کی حد مقرر کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے، صوبائی نشست کے لیے انتخابی مہم پر 20 سے 40 لاکھ خرچ کرنے کی اجازت دینے کی تجویز دی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق دھاندلی میں ملوث انتخابی عملے کی سزا 6 ماہ سے بڑھا کر 3 سال کرنے کی تجویز دی گئی، غفلت پر پریزائیڈنگ اور ریٹرننگ افسر کےخلاف فوجداری کارروائی کرنے کی تجویز پیش کی گئی، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا فیصلہ 15 کے بجائے 7 روز میں کرنے کی تجویز دی گئی، پولنگ عملے کی حتمی فہرست بروقت الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔اجلاس میں یہ بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں کہ امیدوار 10 روز کے اندر حلقے میں پولنگ عملے کی تعیناتی چیلنج کر سکے گا، سیکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے باہر ڈیوٹی دیں گے، پریزائیڈنگ افسر کی اجازت سے سیکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے اندر آسکیں گے۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ توقع رکھتے ہیں کہ اکتوبر 2023ءمیں الیکشن ہوجانے چاہئیں۔ سندھ اسمبلی کی مدت 13اگست کو ختم ہورہی ہے، 12 اگست کی رات 12بجے اسمبلی کی مدت ختم ہوجائے گی، اسمبلی کی مدت ختم ہو تو آئین میں لکھا ہے کہ دو ماہ میں الیکشن ہوں گے.غرض ملک اقتدار کے حصو ل میں دلچسپی رکھنے والے کسی نہ کسی طور پر مصروف ہیں۔ ان کی دلچسپی کا ایک ہی کھیل رہ گیا ہے کہ وہ کس طرح اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف نے منظور کئے ہوئے قرضے کی پہلی قسط بھی ادا کر دی ہے۔ اب کس بات کو خوف۔ پیسے تو موجود ہیں۔ جیسے چاہئے خرچ کرو۔ البتہ معیشت کو سمجھنے والے ایک ایک ڈالر گن رہے ہیں کہ حکومت کس کس طرح خرچ کرے گی تو کیا کیا نتائج نکلے گے۔ سوال یہ ہے کہ سرکاری محکموں اور بڑے نجی اداروں میں فنانشل کمپٹرولر اسی لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ آمدنی اور اخراجات کا حساب کتاب رکھتے ہیں اور بوقت ضرورت خطرے کی گھنٹی بجا دیا کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں عرصہ دراز سے فنانشل کمپٹرولر کا عہدہ بے مقصد ثابت ہو رہا ہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن نے ریاض ایئر پورٹ اتھارٹی کے واجبات ادا نہیں کیے ہیں۔جس پر قومی ایئرلائن کو واجبات کی ادائیگی سے متعلق خط بھی موصول ہو گیا ہے۔ خط میں بتایا گیا کہ پی آئی اے نے ریاض ایئرپورٹ کو 6 ماہ سے ادائیگی نہیں کی، ایئرلائن نے 60 کروڑ روپے سے زائد کے واجبات ادا کرنے ہیں۔ خط میں مزید کہا گیا کہ پی آئی اے 15 جولائی تک واجبات ادا کرے، ریاض ایئر پورٹ اتھارتی نے ونٹر شیڈول فلائٹ کا سلاٹ ادائیگی سے مشروط کردیا ہے۔ذرائع کے مطابق پی آئی اے کو جدہ ایئرپورٹ کے واجبات کےلیے بھی وارننگ جاری ہوئی ہے۔ پاکستان نے امریکہ میں پاکستانی سفارتخانے کی بلڈنگ کابینہ کی منظوری سے فروخت کر دی ہے۔ بلڈنگ کی چابی حوالے کر نے کی تقریب کا لنکن لائبریری واشنگٹن میں انعقاد ہوا. یہ عمارت پاکستانی نڑاد امریکی شہری عبدالحفیظ خان نے7.1 ملین ڈالر میں خریدی ہے۔امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر مسعود خان نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے مطابق پراپرٹی بیچی گئی ہے ، کوئی اور جائیداد فروخت نہیں کی جا رہی۔ سفارتی ذرائع کے مطابق واشنگٹن میں عمارت کی فروخت کے لئے بولی لگائی گئی ۔ اطلعات کے مطابق عمارت نے کئی دہائیاں پاکستانی کمیونٹی کی خدمت کی۔ اس تماش گاہ میں بھی عجیب کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ جتنی مشکلوں سے پاکستان نے اپنے اثاثے بنائے تھے، اتنی ہی آسانی سے حکومتوں سے انہیں فروخت کر دیا ہے۔ کیا گھر کے اثاثے بھی بیچ کر گھر چلائے جاتے ہیں۔ ایسے گھروں کا انجام اطمینان بخش نہیں ہوتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر کسی دل جلے نے لکھا کہ ” پاکستان او ایل ایکس پر لٹکا دیا گیا “۔ (علی حسن)