تحریر: علی حسن
بدھ کے روز صوبہ خیبر پختون خوا کے شہر صوابی کی ایک عدالت میں فقیر گل نے فائرنگ کر کے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو قتل کر دیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ فقیر گل قتل نہ کرتا تو اور کیا کرتا؟ پانچ سال قبل دو افراد نے ان کے جوان بیٹے کو سر عام قتل کر دیا تھا ۔ فقیر گل گزشتہ پانچ سال سے تھانہ اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے۔ شدید سردی اور سخت دھوپ میں عدالتوں کے چکر لگاتے تھے تاکہ انہیں انصاف مل سکے۔ ہر مہینے مقدمہ کی سماعت پر پیشی کی نئی تاریخ ملتی تھی اور ملزمان ہر پیشی کے بعد فقیر گل کا مذاق اڑاتے تھے ۔ بدھ کے روز فقیر گل نے دونوں قاتلوں کو عدالت میں گولی مار کر ہلاک کر دیا اور اپنے مقدمہ کا حساب برابر کر دیا۔ پانچ سال عدالت میں جوتیاں گھسنے کے بعد تنگ آکر اس بوڑھے نے اپنے انجام کی پرواہ کئے بغیر ان کی نظر میں قاتلوں کو ان کے انجام سے دوچار کر کے خود ہی انصاف کر دیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے قانون اور انصاف کا مذاق اڑا دیا۔ فقیر گل کے اس فیصلے سے پاکستان میں عدالتی نظام میں پائی جانے والی کمزوریوں سے تنگ آکر قانون کو ہاتھ میں لے کر خود ہی منصف بن گئے۔
دوسرا واقعہ سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے جو 39 برس بعد منگل کے روز دی گیا۔ صوبہ سندھ کے ضلع بدین میں لواری میں واقع درگاہ پر گدی نشینی کے معاملات اختلافات کے نتیجے میں 39 برس قبل بیک وقت سات افراد کے قتل کی واردات ہو گئی تھی۔ یہ واردات دو گروہ کے درمیاں اختلافات کو نتیجہ تھی۔ دونوں گروہ گدی نشینی کے دعوی دار بھی تھے۔ پولس نے 32افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ نیچے کی عدالتوں میں مقدمہ کی سماعت جاری تھی ۔ ماتحت عدالتوں نے 15 افراد کو سزائیں دی تھیں۔ 11 ملزمان دوران سماعت ہی انتقال کر گئے تھے۔ دو ملزمان سزائیں ملنے کے بعد اپیلوں کی سماعت کے دوران جیل ہی میں انتقال کر گئے تھے ۔ سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے جج جسٹس عمر سیال نے مقدمات کی سماعت کے 39سالوں کی طویل مدت پر افسوس کا اظہار کیا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہائی کورٹ تک پہنچنے میں کیس کو 39 سال کا طویل عرصہ لگ گیا۔1999 میں حیدرآباد سیشن عدالت نے 24ملزمان کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ان لوگوں نے اس فیصلے کیہ خلاف اپیل دائر کی تھیں۔یہ مقدمہ ماتحت عدالتوں میں 17سال زیر سماعت رہا۔ جسٹس عمر سیال نے کہا کہ مقدمہ کو بلا ضرورت طوالت دی گئی۔ عدالت نے کہا کہ اپیل کرنے والے ملزمان میں سے گواہوں کے بیانات کی روشنی میں کوئی بھی قتل کا ذمہ دار نظر نہیں آتا ہے۔ پرا سی کیوشن بھی ملزمان کے خلاف الزمات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ عدالت نے کہا کہ تمام ملزمان ضمانتوں پر رہا تھے۔ پراسی کیوشن نے عدالت کو بتایا کہ پیر گل حسن کی وفات کے بعد دونوں گروہ میں گدی نشینی کے معاملہ پر اختلاف کے بعد جھگڑا ہوا جو خون زیری میں تبدیل ہو ا۔ ایک گروہ فیض محمد کو گدی نشین بنانا چاہتےا تھا جبکہ مخالفین ایسا نہیں چاہتے تھے۔
فیصلہ میں جسٹس عمر سیال نے لکھا کہ فریقین کو 39 طویل سالوں سماعت کے لئے عدالتوں کے چکر لگانے پڑے جس کے لئے عدالت معذرت خواہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سسٹم ہی ایسا ہے جس میں آپ کا قصور نہیں ہے اور نہ ہی وکلاءحضرات کا قصور ہے۔ جسٹس سیال نے کہا کہ دشمنی میں جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا۔ لیکن اب یہ ضروور سوچنا ہوگا کہ کیا دشمنی جا ری رہنا چاہئے۔ دشمنی کو یہیں ختم ہونا چاہئے۔ اپنی آئندہ نسلوں میں یہ زہر اگھولنا نہیں چاہئے۔ مقدمہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہا مقدمہ میںنامزد دو ملزمان کو پولس39 سال گزرنے کے باوجود
گرفتار نہیں کر سکی۔ عدالت کے ریکارڈ میں دونوں افراد مفرور ہیں۔ درگاہ محکمہ اوقاف کے ماتحت ہے جو دو سال قبل کھول دی گئی ہے۔ ہر کیس میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ پاکستان میں پراسی کیوشن مقدمہ بنانے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے میں ناکام رہتا ہے ۔ وکلاء مقدمہ کے مختلف کمزور پہلوﺅں سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو مقدمہ کی طوالت کا سبب بنتا ہے۔ سپریم کورٹ کے تمام ہی سربراہوں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ مقدمات کی سماعت برق رفتاری سے ہو اور سائلین کو در پیش مسلہ ہو سکے لیکن عملا ایسا ہو نہیں سکا ہے۔
حال ہی میں ایک انٹر نیشنل کانفرنس کے دوران شرکاءمیں سے کسی نے جسٹس فائز عیسی سے سوال کیا تھا کہ آپ عدالتی نظام سے کس حد تک مطمعن ہیں۔ انہوں نے سوال شرکاءسمینار کے حوالے کرتے ہوئے سوال دہرا دیا۔ حیران کن بات تھی کہ کسی بھی شخص نے اطمینان کے حق میں ہاتھ نہیں ا ٹھایا حالانکہ جج صاحبان، وکلاءاور دیگر شہریوں کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ اگر اتنے تعلیم یافتہ حاضرین اطمینان کا اظہار نہیں کر رہے تھے تو فقیر گل نے کیا برا کیا اور 39سال مقدمہ بھگتنے کے بعد ہونے والے فیصلے پر کیوں کر اطمینان کا اظہار کر سکتے ہوں گے۔ چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال نے اسی کانفرنس میں کہا کہ خوشحال پاکستان کیلئے ضروری ہے کہ عدلیہ تک ملک کے تمام طبقات کی مساوی رسائی ہو۔ عدالت محروم طبقات کے حقوق کے تحفظ کیلئے پرعزم ہے، حکومتوں اور عدلیہ کوتنازعات کا متبادل نظام اختیار کرنا ہو گا، پولیس اور پراسکیوشن کو اپنی کارکردگی اور باہمی تعاون کو بھی بہتر بنانا ہو گا۔ نظام انصاف کی بہتری کیلئے عدلیہ اور بارایسوسی ایشنز کو بھی اپنا قانونی علم بہتر کرنا ہو گا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تنازعات کے حل کے متبادل نظام کیلئے قانون سازی ضروری ہے، عوام کو عدالتوں میں آنے کی بجائے ثالثی کے نظام سے رجوع کرنے کی آگاہی دی جانی چاہیے،عدالتوں میں غیر ضروری مقدمات کی وجہ سے مقدمات کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے پاکستان کو درپیش مسائل کا اولین اور آخرین حل انصاف کی فوری فراہمی کے نظام کا قیام ہے۔ انصاف ہوگا تو اہلیت اور میرٹ ہوگی، کام سر انجام دینے کا ڈھنگ ہوگا ، جواب دہی کا خوف ہوگا۔ سپریم کورٹ کے موجودہ اور سابق جج صاحبان سر جوڑ کر بیٹھیں اور انصاف کی فوری فراہمی کا طریقہ کار وضع کریں خواہ عدالتوں کو سرکاری اوقات کار سے زیادہ ہی کام کیوں نہ کرنا پڑے۔ صوابی کے فقیر گل اور لواری (بدین) کے سائلین کو فوری انصاف فراہم کرنا عدالتوں کے جج حضرات کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ دنیا میں وہ ممالک بھی تو ہیں جہاں فیصلوں میں تاخیر کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔ ان سے ہی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ (علی حسن )