تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو، انسان کیا ہے؟ کہاں سے آیا؟ پہلے کون تھا؟ کیا ڈارون کا نظریہ ارتقاء درست ہے کہ انسان پہلے بندر تھا؟ یہ اور ان سمیت کئی سوالات کے جوابات،معروف امریکی ایکولوجسٹ نے اپنی تازہ ریسرچ میں دیئے ہیں۔ امریکی ماہر نے دعویٰ کیا ہے کہ انسان زمینی مخلوق نہیں، اس سلسلے میں اس نے کافی بھاری بھرکم دلائل بھی دیئے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست نے امریکی ایکولوجسٹ ڈاکٹر ایلس سلور کی تہلکہ خیز ریسرچ ہمیں واٹس ایپ کی ہے، چلیے آپ کو بھی یہ ریسرچ مختصر ،مختصر بتاتے ہیں۔۔
ڈاکٹر ایلس سِلور(Ellis Silver)نے اپنی کتاب (Humans are not from Earth) میں تہلکہ خیز دعوی کیا ہے کہ انسان اس سیارے زمین کا اصل رہائشی نہیں بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اس کے اصل سیارے سے اس کے موجودہ رہائشی سیارے زمین پر پھینک دیا گیا۔ذہن میں رہے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں جو کسی بھی مذہب پر یقین نہیں رکھتا۔ اس کا کہنا ہے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رہتارہاہے ،وہ سیارہ،وہ جگہ اس قدر آرام دہ پرسکون اور مناسب ماحول والی تھی جسے وی وی آئی پی کہا جا سکتا ہے، وہاں پر انسان بہت ہی نرم و نازک ماحول میں رہتا تھا اس کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی روٹی روزی کے لیے کچھ بھی تردد نہیں کرنا پڑتا تھا، یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی جسے لگژری لائف میسر تھی۔ وہ ماحول ایسا تھا جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا موسم رہتا تھا اور وہاں پر سورج جیسے خطرناک ستارے کی تیز دھوپ اور الٹراوائلیٹ شعاعیں بالکل نہیں تھیں ۔ تب اس مخلوق انسان سے کوئی غلطی ہوئی۔جس کی پاداش میں اسے آرام دہ اور عیاشی کے ماحول سے نکال باہر پھینکا گیا۔جس نے انسان کو اس سیارے سے نکالا ،لگتا ہے وہ کوئی انتہائی طاقتور ہستی تھی جس کے کنٹرول میں سیاروں ،ستاروں کا نظام بھی تھا ۔ وہ جسے چاہتا، جس سیارے پر چاہتا، سزا یا جزا کے طور پر کسی کو بھجوا سکتا تھا۔ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔
ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی جسے جیل قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہاں پر صرف مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہو۔ کیونکہ زمین کی شکل، کالا پانی جیل کی طرح ہے۔ خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی شکل جس کے چاروں طرف سمندر ہی سمندرہے، وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹر سلور ایک سائنٹسٹ ہے جو صرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے بعد رائے قائم کرتا ہے۔ اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے جن سے انکار ممکن نہیں۔اس کے دلائل کی بڑی بنیاد جن پوائنٹس پر ہے ان میں سے چند ایک ثابت شدہ یہ ہیں۔
نمبر ایک۔ زمین کی کش ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جس سیارے سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل زمین سے بہت کم تھی، جس کی وجہ سے انسان کے لیے چلنا پھرنا بوجھ اٹھا وغیرہ بہت آسان تھا۔ انسانوں کے اندر کمر درد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے۔ ۔۔نمبر دو،انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں جو زمین پر بس رہی ہے۔ آپ اس روئے زمین پر ایک بھی ایسا انسان دکھا دیں جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوسکتا ہوں جبکہ میں آپ کوہر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں گرفتار نہیں ہے۔ ۔نمبر تین، ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور سن اسٹروک کا شکار ہوسکتا ہے جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ، مہینوں دھوپ میں رہنے کے باوجود جانور کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کے مر ض میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔ نمبر چار، ہر انسان یہی محسوس کرتا ہے اور ہر وقت اسے احساس رہتا ہے کہ اس کا گھر اس سیارے پر نہیں۔ کبھی کبھی اس پر بلاوجہ ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسی کسی پردیس میں رہنے والے پر ہوتی ہے چاہے وہ بیشک اپنے گھر میں اپنے قریبی خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نا بیٹھا ہو۔ نمبر پانچ ،زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹومیٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے یعنی اگر سخت اور تیز دھوپ ہے تو ان کے جسم کا درجہ حرارت خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہو جائے گا، جبکہ اسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا جبکہ انسان کا ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمارہونے لگ جائے گا، موسمی بخار کا لفظ صرف انسانوں میں ہے۔ نمبر چھ،انسان کا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔ نمبر سات، زمین کے اصل رہائشی (جانوروں) کو اپنی غذا حاصل کرنا اور اسے کھانا مشکل نہیں، وہ ہر غذا ڈائریکٹ کھاتے ہیں، جبکہ انسان کو اپنی غذا کے چند لقمے حاصل کرنے کیلیئے ہزاروں جتن کرنا پڑتے ہیں، پہلے چیزوں کو پکا کر نرم کرنا پڑتا ہے پھر اس کے معدہ اور جسم کے مطابق وہ غذا استعمال کے قابل ہوتی ہے۔ جب یہ اپنے اصل سیارے پر تھا تو وہاں اسے کھانا پکانے کا جھنجٹ نہیں اٹھانا پڑتا تھا بلکہ ہر چیز کو ڈائریکٹ غذا کیلیئے استعمال کرتا تھا۔مزید یہ اکیلا دو پاؤں پر چلنے والا ہے جو اس کے یہاں پر ایلین ھونے کی نشانی ہے۔نمبر آٹھ، انسان کو زمین پر رہنے کیلیے بہت نرم و گداز بستر کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ زمین کے اصل باسیوں یعنی جانوروں کو اس طرح نرم بستر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نمبر نو، انسان زمین کے سب باسیوں سے بالکل الگ ہے لہذا یہ یہاں پر کسی بھی جانور (بندر یا چمپینزی وغیرہ) کی ارتقائی شکل نہیں۔ انسان کو جس اصل سیارے پر تخلیق کیا گیا تھا وہاں زمین جیسا گندا ماحول نہیں تھا، اس کی نرم و نازک جلد جو زمین کے سورج کی دھوپ میں جھلس کر سیاہ ہوجاتی ہے اس کے پیدائشی سیارے کے مطابق بالکل مناسب بنائی گئی تھی۔ یہاں زمین کی مخلوقات عقل سے عاری اور تھرڈ کلاس زندگی کی عادی ہیں جن کو نہ اچھا سوچنے کی توفیق ہے نہ اچھا رہنے کی اور نہ ہی امن سکون سے رہنے کی۔یہ ایک ایسا قیدی ہے جسے سزا کے طور پر تھرڈ کلاس سیارے پر بھیج دیا گیا تاکہ اپنی سزا کا دورانیہ گزار کر واپس آ جائے۔ڈاکٹر ایلیس کا کہنا ہے کہ انسان کی عقل و شعور اور ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایلین کے والدین کو اپنے سیارے سے زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا، ابھی کچھ ہزار سال ہی گزرے ہیں یہ ابھی اپنی زندگی کو اپنے پرانے سیارے کی طرح لگژری بنانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہاہے، کبھی گاڑیاں ایجاد کرتا ہے ، کبھی موبائل فون اگر اسے آئے ہوئے چند لاکھ بھی گزرے ہوتے تو یہ جو آج ایجادات نظر آ رہی ہیں یہ ہزاروں سال پہلے وجود میں آ چکی ہوتیں، کیونکہ میں اور تم اتنے گئے گزرے نہیں کہ لاکھوں سال تک جانوروں کی طرح بیچارگی اور ترس کی زندگی گزارتے رہتے۔ڈاکٹر ایلیس سِلور کی کتاب میں اس حوالے سے بہت کچھ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے دلائل کو ابھی تک کوئی جھوٹا نہیں ثابت کر سکا۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ارشاد خداوندی ہے، اے انسانوں یہ دنیا کی زندگی تمہاری آزمائش کی جگہ ہے۔ جہاں سے تم کو تمہارے اعمال کے مطابق سزا و جزا ملے گی۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔