انصاف پر ’’ لاف‘‘۔۔۔
کالم : علی عمران جونیئر
28-Sep-2018
دوستو،ہمارے ملک میں انصاف ناپید ہے، غریب کے لئے ناممکن ہے کہ اسے انصاف مل سکے، اس لئے جب کسی غریب کو تسلی کرائی کہ اسے انصاف ضرور ملے گاتو وہ انصاف پر ’’ لاف ‘‘(ہنستا) ضرور کرتا ہے، ہنسی والا’’ لاف ‘‘ اپنی جگہ اکثر ٹوٹے دل والے اور انصاف سے ناامید تو انصاف پر ’’لام‘‘ بھی بھیج دیتے ہیں۔۔مرحوم سلطان راہی جب بھی اپنی فلموں میں انصاف و قانون کے خلاف علم بغاوت بلند کرتا تھا تو غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے فلم بینوں کا جوش و جذبہ دیکھنے لائق ہوتا تھا، سیٹیاں، تالیاں اور بڑھکیں ماری جاتی تھیں جس سے پورا سینما ہال گونج اٹھتا تھا، ہمیں یاد ہے ایک فلم میں سلطان راہی سوال اٹھاتا ہے کہ عدالتیں شام کو اور رات کو کیوں انصاف فراہم نہیں کرتیں؟؟ آج بھی اگر چیف جسٹس پاکستان اس سوال پر سنجیدگی سے غور کریں تو التوا کا شکار لاکھوں مقدمے خوش اسلوبی سے اپنے انجام کو پہنچ سکتے ہیں، عدالتوں میں تین شفٹیں لگائی جائیں، اور دھڑا دھڑ مقدمے نمٹائے جائیں۔۔ جب چیف جسٹس پاکستان اتوار کے روز عدالت لگا سکتے ہیں تو شام اور رات کی عدالتیں بھی لگانا کچھ ایسا ناممکن نہیں، ہماری تجویز ہے کہ اگر عدالتیں تین شفٹوں میں کام کرنا شروع کردیں تو راتوں رات اس معاشرے کی قسمت بدل سکتی ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے، کوئی بھی معاشرہ کفر کے ساتھ تو برقرار رہ سکتے ہے ،ناانصافی کے ساتھ نہیں۔۔
ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے۔۔اگر ایک عدالت کے ’’مجرم‘‘ دوسری عدالت میں ’’محترم‘‘ قرار پارہے ہیں تو سمجھ لیں ہمارا عدالتی نظام کتنا شفاف اور انصاف پر مبنی ہے۔۔۔یہاں تو یہ حالت ہے کہ عزیر بلوچ کیس کا کچھ پتہ نہیں، عابد باکسر پر کئی کیسز ہیں وہ ضمانت پر آزاد گھوم رہا ہے،اربوں روپے کی کرپشن میں ملوث ڈاکٹر عاصم کے کئی کیسوں کا کوئی فیصلہ اب تک نہیں ہوسکا، شرجیل میمن کیس کا رزلٹ بھی صفر، ریمنڈ ڈیوس کو بھلا کون بھول سکتا ہے،بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن نے آن ڈیوٹی پولیس اہلکار کو گاڑی تلے روندا،پھراس کیس کا کیا بنا؟ کسی کو یاد بھی ہے؟؟ ماڈل ایان علی ڈالروں کی اسمگلنگ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی، تفتیش کرنے والا افسر قتل ہوگیا، محترمہ پچھلے ڈیڑھ سال سے کسی پیشی پر عدالت ہی نہیں آئیں،ضمانت پر رہاہیں۔۔کراچی والے سانحہ بارہ مئی کو آج تک بھلا نہ پائے،جس میں پچاس سے زائد معصوم جانیں قتل ہوئیں لیکن برسوں بعد بھی یہ مقدمہ توجہ کا طالب ہے۔۔احد چیمہ ریمانڈ پر ریمانڈ رزلٹ صفر۔۔فواد حسن فواد صرف ریمانڈ رزلٹ صفر۔۔ اسحاق ڈار رزلٹ صفر۔۔نیو بینظیر ائیر پورٹ کرپشن کیس رزلٹ صفر۔۔رئیسانی حرام کمائی گھر سے برآمد رزلٹ صفر۔۔ایم کیو ایم غداری کیس ثبوت موجود رزلٹ صفر۔۔اصغر خان کیس رزلٹ صفر۔۔شہد کی بوتل رزلٹ صفر۔۔کراچی کا سانحہ بلدیہ ٹاؤن جس میں ایک فیکٹری کے ڈھائی سو سے زائد مزدور زندہ جلائے گئے، رزلٹ صفر۔۔لاہور کا سانحہ ماڈل ٹاؤن،رزلٹ صفر۔۔شاہ رخ جتوئی کیس رزلٹ صفر۔۔راؤ انوار ناحق قتلِ عام ثبوت موجود رزلٹ صفر۔۔56 کمپنی سکینڈل رزلٹ صفر۔۔صاف پانی کرپشن کیس رزلٹ صفر۔۔سستی روٹی تندور کرپشن رزلٹ صفر۔۔کلبھوشن یادیو دشمن جاسوس رزلٹ صفر۔۔گستاخ بلاگرز کیس آزاد رزلٹ صفر۔۔حسین حقانی کیس رزلٹ صفر۔۔یہ تو چند موٹے موٹے کیسز تھے جو یادآگئے تو بتادیا، نجانے ان جیسے ہزاروں کیس امیروں، وڈیروں، جاگیرداروں اور بزنس مینوں کے کیسز کے رزلٹ صفرہی ہیں۔۔مگر غریب آدمی کے لئے قانون فرعون بن جاتا ہے۔۔ انصاف نہیں ملتا۔۔ہزاروں بے گناہ قید میں اور گناہ گار آزادگھوم رہے ہیں۔۔یہاں کوئی غریب آدمی ادارے پر تنقید کر لے تو غداری میں دھر لیا جاتا ہے مگر الطاف بھائی آزاد، زرداری اینٹ سے اینٹ بجائے آزاد، پرویز رشید آزاد، حسین حقانی آزاد، اسفند یار ولی آزاد، محمود خان اچکزئی آزاد، سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے آزاد، تھانوں پر حملہ کر کے اپنے بندے چھڑانے والے آزاد، ناکے پر کھڑے پولیس اہلکاروں پر شراب کے نشے میں دھت گاڑیاں چڑھانے والے آزاد۔۔ہمارے پیارے دوست کاکہنا ہے۔۔اس ملک میں ایسا قانون ہے،جس میں بڑے پھنستے نہیں، اور چھوٹے بچتے نہیں۔۔
تحریر کے شروع میں سلطان راہی کا ذکر آیا تھا، مرحوم سلطان راہی ہمارے فیوریٹ اداکار تھے، بچپن میں ان کی فلم ’’راستے کا پتھر‘‘ دیکھی جس کے بعد اکثر کوشش ہوتی تھی کہ ان کی فلمیں ’’مس ‘‘ نہ کی جائیں، پھر جب وہ پنجابی فلموں تک ہی محدود ہوگئے تو چاروناچار وہ بھی دیکھیں۔۔بطور ہیرو سلطان راہی پر سات خون بھی معاف تھے، ان کی چندفلموں کے کچھ مناظر ہمیں آج تک یاد ہیں، جب وہ مناظر سوچتے ہیں تو مسکرانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔۔ایک فلم میں سلطان راہی کو برین ٹیومر تھا۔۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔ آپریشن ممکن نہیں۔ ایک لڑائی میں سلطان راہی کو سر میں گولی لگتی ہے۔ ڈاکٹروں کی پریشانی کی انتہا نہیں رہتی جب وہ دیکھتے ہیں کہ گولی ایک کان میں لگی اور دوسرے سے نکلتے ہوئے برین ٹیومر ساتھ لیتی گئی۔۔۔ سلطان راہی زندہ باد۔۔ ایک اور فلم میں سلطان راہی کا مقابلہ تین بدمعاشوں سے تھا۔ سلطان راہی کے پاس ایک پستول اور ایک چاقو تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ پستول میں گولی صرف ایک تھی۔۔اندازہ لگائیں اس نے کیا کیا؟اس نے درمیانی بدمعاش پر چاقو پھینکا اور ساتھ ہی چاقو پر گولی چلائی۔ گولی چاقو سے لگ کر دو ٹکڑے ہوئی اور دائیں بائیں کھڑے بدمعاش آدھی آدھی گولی کھا کر مر گئے جبکہ چاقو سے درمیانی بدمعاش مر گیا۔۔ایک اور فلم میں سلطان راہی کا پیچھا ایک بدمعاش کر رہا ہوتا ہے۔ سلطان راہی کے پاس خالی ریوالور ہوتا ہے۔ اندازہ لگائیں اس نے کیا کیا ہوگا؟؟ نہ جی نہ، آپ کے اندازوں سے بھی آگے ہیں سلطان راہی جناب۔۔ سلطان راہی انتظار کرتا ہے کہ بدمعاش اس پر فائر کرے۔ جونہی بدمعاش گولی چلاتا ہے، سلطان راہی ریوالور کا چیمبر کھول کر گولی کو اس میں کیچ کرتا ہے، ریوالور کا چیمبر بند کر کے پھر جوابی فائرکرتا ہے، ڈشوں۔۔۔ بدمعاش موقع پر ہی ختم۔۔
ایک فلم میں جب سلطان راہی کو علم ہوا کہ اس کا دشمن دیوار کے پیچھے موجود ہے۔ دیوار اتنی اونچی ہے کہ سلطان راہی کا سپرمین جمپ بھی اسے دیوار کے پار نہ لے جا سکا۔ سلطان راہی کو اس دشمن کو ہلاک بھی کرنا ہے، ورنہ فلم کیسے پوری ہوتی؟ سلطان راہی نے جیب سے دو پستول نکالے۔ ایک پستول کو دیوار کے اوپری سرے کی طرف اچھالا۔ جب پستول دیوار عبور کر چکا تو سلطان راہی نے دوسرے پستول سے پہلے پستول کے ٹریگر پر فائر کیا۔ پہلا پستول چلا اور دشمن فشوں۔۔۔۔
اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔جو لوگ ہمیں نہیں جانتے، ان کی نظر میں ہم عام ہیں۔جو ہم سے حسد رکھتے ہیں، ان کی نظر میں ہم مغرور ہیں۔ جو ہمیں سمجھتے ہیں، ان کی نظر میں ہم اچھے ہیں۔ جو ہم سے محبت کرتے ہیں، ان کی نظر میں ہم خاص ہیں۔ جو ہم سے دشمنی رکھتے ہیں، ان کی نظر میں ہم بْرے ہیں۔ہر شخص کا اپنا ایک الگ نظریہ اور دیکھنے کا طریقہ ہے۔ لہذا دوسروں کی نظر میں اچھا بننے کے پیچھے، اپنے آپ کو مت تھکائیے۔اللہ آپ سے راضی ہو جائے، یہی آپ کے لیے کافی ہے۔ لوگوں کو راضی کرنا ایسا مقصد ہے، جو کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔اللہ کو راضی کرنا ایسا مقصد ہے، جس کو چھوڑا نہیں جا سکتا۔تو جو چیز مل نہیں سکتی، اس ے چھوڑ کر وہ چیز پکڑیئے ۔۔جسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔