تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں اصل فریق سیاسی حکومت نہیں بلکہ اصلی و ریاستی حکومت تھی بیچاری سیاسی منڈلی تو بس یرغمال تھی اور رہے گی جب تک کہ ترکی کی مانند عوام سڑکوں پہ نہ نکل آئے اور اردگان جیسے عوامی لیڈر کے پیچھے نہ جا کھڑی ہو ۔۔۔ مقتدرہ کا سارا غصہ جسٹس فائز عیسیٰ کی جانب سے فیض آباد دھرنا کیس میں دیئے گئے ان انقلابی ریمارکس پہ تھا کہ جس میں انہوں نے ریاستی اداروں کی طرف سے اس دھرنے سے صرف نظر کرنے پہ انہیں سخت لتاڑا تھا اوراسے جاری رکھنے کی اجازت دینے اور آخر میں حاضر سروس افسر کیے ہاتھوں کھلم کھلا رقم کی تقسیم پہ نہایت سخت لفظوں میں تنقید کی گئی تھی اور اسے قانون کی حکمرانی کے یکسر خلاف بلکہ آئین کی پامالی کے مترادف قرار دیا تھا
ایک چیز جو اس فیصلے میں البتہ کم نظر آئی وہ یہ تھی کہ اس ریفرنس کے دائر کرنے کی ضمن میں حکومت کی ‘بدنیتی ‘ کے عنصر کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی واضح رائے نہیں دی گئی اور یوں بظاہر حکومت کا بوریا لپیٹے جانے کے امکانات بھی معدوم ہوگئے ہیں ورنہ تو اس طرح کی رائے آجانے کے بعد وزیر اعظم اور صدر کا اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونا بھی لازمی تقاضا بن جاتا – یہ اک طرح سے حکومت کی مدد والی بات ہے بالکل اسی طرح جس طرح عدلیہ نے اس وقت عمران خان کی بالواسطہ مدد کی تھی کہ جب ڈھائی برس پہلے عمران خان نے انتخابی مہم میں یہ الزام لگایا تھا کہ شہباز شریف نے نواز شریف کی ایماء پہ انکے خلاف فیصلہ کرنے کے لیئے ججوں پہ نہ صرف دباؤ ڈالا تھا بلکہ دس ارب روپے رشوت کی بھی آفر دی تھی اور یہ الزام درحقیقت جتنا شہباز و نواز شریف کے خلاف تھا اتنا ہی عدلیہ کے بھی خلاف تھا کہ آخر اس کے ججوں نے اس رشوت کی پیشکش کو پبلک کیوں نہیں کیا ور اس بابت کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا اور اب اس انکشاف کے سامنے آجانے کے بعد بھی وہ چپ کیوں ہیں کیونکہ ایسی خاموشی تو اگر اقرار کے مترادف نہ بھی سہی لیکن عدلیہ کی جانب سے اس کے خلاف کسی ایکشن نہ لیئے جانے یا کسی وضاحت کے نہ دینے سے تو یہ سراسر دوسرے فریق یعنی الزام لگانے والے کی تائید و مدد والی بات ہوئی
مزید ستم ظریفی یہ ہوئی کہ جب اس معاملے کو شہباز شریف نے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تو وہاں پہ حیرت انگیز طور پہ اس کیس کا فوری فیصلہ کرنے سے یکسر گریز کا رویہ اختیار کیا گیا اور اس کیس کو لٹکا دیا گیا حالانکہ اس کا فوری نتیجہ نکالا جانا بیحد ضروری تھا کیونکہ اس میں عمران نے عدلیہ پہ بھی چھینٹے اڑائے تھے ۔۔۔ مگر اس سلسلے میں فوری عادلتی کارروائی ہونے سے زیادہ امکان یہ تھا کہ عمران خان یہ کیس ہار کر سزایابی سے نہ بچ پاتے اور یوں وزارت عظمیٰ کے لیئے نااہل ٹہر جاتے ۔۔ لہٰذا عدلیہ نے خود کو ملؤث کرنے پہ مبنی الزام تک کو فوری ایکشن کے لیئے فٹ نہ جانا اور عمران خان محض اسی گریز پائی اور سہولت کی وجہ سے باآسانی الیکشن لڑنے اور وزیراعظم بننے کے لائق ٹہرسکے ۔۔۔ فائز عیسیٰ کیس درحقیقت ایک بڑے قومی المیئے سے کم نہیں کہ انقلاب اور تبدیلی کے نعرے لگا کر اقتدار میں آنے والے بھی پہلوں جیسے نکلے بلکہ ان سے بھی زیادہ عاجزی و برخورداری سے مقتدد طاقتوں کے آگے یکسر سجدہ ریز ہوگئے ۔۔ لیکن جو بھی ہو اب اس گندے مندے اور مسترد ہوئے اس ریفرنس کو بھیجنے کے نتائج تو انہی کو بھگتنے ہوںگے حالانکہ اس کا سبب وہ شدید بغض تھا کہ جو سول بالادستی کے کسی بھی امکان کے خلاف مقتدر طاقتوں کے دل میں تھا اور ہے ۔۔۔ لیکن اس طرح کے جرآتمندانہ فیصلے دینے سے یقینناً عدلیہ کی سابقہ غلطیوں کی نہ صرف تلافی ہوگی بلکہ اس کی تکریم میں بہت اضافہ ہوجائے گا اور اس کا نقد نتیجہ بے لگاموں کو لگام ڈالنے اور سول ادارں کو بالادست بنانے کی صورت میں نکلے گا ۔۔ خواہ آج نہ سہی مگر مستقبل دیدہ میں تو یہ چنگاری بھڑک کر الاؤ بننے کے امکانات تو اب بہت روشن ہیں۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔