تحریر: ایاز امیر۔۔
عمرکے اس حصے میں اب ہم نے کہاں جانا ہے‘ یہیں مرنا اور کھپنا ہے۔ حالات پر کُڑھنا کب کا چھوڑ دیا‘ اتنی سمجھ آ چکی ہے کہ حالات تقریباً ایسے ہی رہیں گے اور عقل مندی اسی میں ہے کہ انسان اپنے آپ کو ایسے ہی ڈھال لے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے ہمارے کہنے پر نہیں رکنا‘ درختوں کا کٹنا ہمارے کہنے سے نہیں رکے گا۔ اپنے گاؤں بھگوال سے اسلام آباد جانا ہوتا ہے تو بیشتر راستے میں اب بھی ہریالی ہے لیکن ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی رفتار سے یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ اگلے پانچ سال میں موٹروے کے دونوں اطراف رئیل اسٹیٹ والے چکری‘ اور کیا پتا‘بلکسر تک پہنچ چکے ہوں۔
ماحولیات جائے بھاڑ میں‘ ذہن اب اس طرف مائل ہو چکا ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہمارے قریب آ رہی ہیں تو اس میں بھی ہم فائدے کے کچھ پہلو ڈھونڈ لیں گے۔ سیمنٹ اور سریے کے شہر بچھنے لگیں تو ان میں مارکیٹیں بھی ہوں گی‘ بجائے اسلام آباد سپرمارکیٹ اور جناح سپر مارکیٹ جانے کے اب نزدیک سے ہی سوداسلف لے آیا کریں گے۔ بال کٹوانے ہوں یا داڑھی ٹھیک کروانی ہو توکسی قریب کی ہاؤسنگ سوسائٹی میں چلے جائیں گے‘ کسی نہ کسی حجام نے تو وہاں دکان کھولی ہو گی۔ دیگر ضروریات ہماری بہت کم ہیں‘ ایک تو وہ جو راحتِ شب سے منسوب ہیں۔ شہر بڑے ہوتے ہیں تو ضروریات پوری کرنے والوں کی صلاحتیں بھی زیادہ ہو جاتی ہیں۔ بہت سی نئی ہاؤسنگ سوسائٹیاں ایسی ہیں جن میں مناسب پردے کے پیچھے صحت کدے قسم کی جگہیں پھیل چکی ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے چکری اور بلکسر تک اگر پہنچ جانا ہے تو ظاہر ہے کہ دیگر لوازمات بھی اُن کے ساتھ پھیلتے جائیں گے۔ مغل فوجیں چلتی تھیں تو صرف اُن میں جنگجو نہیں ہوتے تھے بلکہ ضروریات کی تمام چیزیں بھی ساتھ ساتھ ہوتی تھیں۔
زیادہ ٹریفک سے ہمیشہ چڑ رہی ہے لیکن گاڑیوں کی بہتات اس دھرتی کی خصوصیت بن چکی ہے‘ اس سے کوئی چھٹکارا نہیں۔ بس ایسی جگہیں نگاہ میں ہونی چاہئیں جہاں ٹریفک سے انسان کچھ نجات حاصل کرسکے۔ گاؤں میں جو ہماری پرانی حویلی ہے اُس کے اردگرد کچھ ایسا ماحول بن چکا ہے کہ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کا زیادہ رَش نہیں ہوتا۔ حویلی کے نزدیک اپنی ہی زمین سے ایک گزرگاہ ہوا کرتی تھی جس سے دنیا جہاں کی ٹریفک گزرتی تھی۔ دو تین سال ہوئے وہ گزرگاہ بند کر دی گئی اور اب سکون ہی سکون ہے۔
اگلی شب ٹی وی پروگرام کے سلسلے میں اسلام آباد جانا ہوا۔ سپرمارکیٹ کا اب تو کوئی حال نہیں رہا۔ ایک زمانہ تھا بڑی پُرسکون مارکیٹ ہوا کرتی تھی‘ اب خدا کی پناہ‘ دن ڈھلے وہاں کا رخ کریں تو گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ملتی۔ کبھی کبھی جانا اس لیے پڑتا ہے کہ دوائیوں کی ایک دو اچھی دکانیں ہیں اور جب جیب میں کچھ پیسے ہوں تو ایک عدد قالین لینے کا شوق رہتا ہے۔ ایک دو دکانیں ہیں جن میں قالین خریدنے کی غرض سے عرصہ دراز سے ہم جا رہے ہیں۔ کبھی کبھار پھر وہاں کا رُخ کرلیتے ہیں۔ یہ دو ضروریات نہ ہوں تو سپرمارکیٹ کبھی نہ جائیں۔ لاہور مزدوری کیلئے جانا ہوتا ہے اور یقینایہ کسی نعمت سے کم نہیں کہ اب بھی مزدوری کررہے ہیں اور اپنا کما رہے ہیں۔ نہیں تو سچ پوچھئے خرچے پورے نہ ہوں۔ شاہ خرچ ہم کبھی نہیں رہے لیکن تھوڑی بہت فضول خرچی کرنے کا تو جی چاہتا ہے اور وہ تبھی ہوسکتی ہے یا تو آپ کسی نواب کے جانشین ہوں جو ہم نہیں ہیں یا آپ کچھ کما رہے ہوں۔ ہفتے میں ایک عدد شام ہماری فضول خرچی والی گزرتی ہے‘ اب زبان پر اتنا عبور نہیں کہ سارا مدعا احسن طریقے سے بیان کر سکیں‘ لیکن یوں سمجھئے شام گزارنے کا انداز کچھ ہو ہی جاتا ہے۔ اس عمر میں بھی انسان جھک مار سکے تو اور کیا چاہئے۔ ہمیں تو پلاٹوں کی فائلوں میں کوئی دلچسپی نہیں اورشام کے سائے بڑھنے لگیں تو کاروباری باتیں برداشت نہیںہوتیں۔ مردانہ چہروں کو دیکھنے کا بھی زیادہ جی نہیں چاہتا۔ لاہور میں ہمارے ایک دوست گوندل صاحب ہیں جو کبھی کبھار بلا لیا کرتے ہیں۔ میز بانی بہت اعلیٰ ہے اور شرفاجن چیزوں کی تمنا رکھ سکتے ہیں اُن کی میز پر وافرہوا کرتی ہیں۔ لیکن مہمان اُن کے مردانہ چہرے ہی ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ اُن سے کہا کہ دن بھر ایسے چہروں کو دیکھ کر شا م کو مزید دیکھنے کی خواہش نہیں رہتی۔ کہنے لگے: اس کا کچھ کرتے ہیں۔ کافی وقت گزرچکا ہے اب تک تو کچھ کرنہیں سکے لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ دنیا امید پر قائم ہے۔
اس عمر میں اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ بور کمپنی سے بہتر ہے کہ انسان شام اپنے ہی ساتھ گزارے۔ گاؤں میں تو شاموں کوکسی ثقیل کمپنی کا نزدیک آنا یوں سمجھئے ممنوع ہے۔ اکیلے ہی بیٹھے‘ کچھ گانے سن لیے جاتے ہیں‘ ذہن ماضی کی یادوں میں گم ہوجاتا ہے۔ رفیع صاحب اور ثریاجی کا ایک بہت ہی خوبصورت گانا ہے ‘ہم بھی اکیلے تم بھی اکیلے‘ آؤ لگا لیں محبت کے میلے‘ ہماری حویلی میں کسی ثریا نے تو آنا نہیں‘ لیکن خیالوں میں ہی محبت کے میلے لگا لیتے ہیں اور یوں شام گزر جاتی ہے۔ اب شاموں کو سیاست پر بھی گفتگواچھی نہیں لگتی۔ یعنی نہ بور چہرے‘ نہ کاروباری باتیں نہ سیاست پر گفتگو۔ اب تویہی جی چاہتا ہے کہ مرزا غالب کا کوئی شعر یاد آ جائے‘ کوئی اچھا گانا سن لیا جائے‘ کوئی حسین یاد دل میں پھر سے آ جائے۔ ہمارے دیس نے ایسا ہی رہنا ہے‘ یہی بھیڑ‘ یہی شورشرابہ اور یہی فضول کی باتیں۔ اب تو اسی پہ خوش ہیں کہ صحت قابلِ رشک نہیں لیکن ٹھیک ہے‘ ڈاکٹروں کے پاس نہیں جانا پڑتا اور یہ پروردگار کی مہربانی ہے‘ اپنا کماتے ہیں اور اپنا کھاتے ہیں۔ اور جو ہماری خاص ضرورت کی چیزیں ہیں وہ ہمیں دستیاب ہو جاتی ہیں۔
بھیڑ اور ٹریفک کی وجہ سے چکوال شہر اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ شکر ہے کہ گاؤں کا آپشن ہمارے لیے موجود ہے اور زیادہ گزربسر اب وہیں ہوتی ہے۔ چکوال کا علاقہ البتہ نہایت ہی خوبصورت ہے اور یہاں کے پہاڑوں اور وادیوں میں بہت سیرسپاٹا کیا جاسکتا ہے لیکن اس لحاظ سے ہم کاہل ہی ٹھہرے اور بہت سی جگہو ں کو نہیں دیکھ سکے۔ یہ بھی ہے کہ سیرسپاٹا زیادہ بہتر انداز سے تبھی ہوسکتا ہے جب ساتھی کوئی اچھا اور مناسب ہو۔ یہ اب قسمت کی باتیں ہیں‘ اچھے ساتھی کا ہونا اسی زمرے میں آتا ہے۔ خیر‘ جو نصیب میں لکھا ہو انسان کو برداشت کرنا چاہئے۔ ہرانسان کی قسمت میں کچھ نہ کچھ لکھا ہوتا ہے اور وہ بہت ہی خوش نصیب سمجھے جانے چاہئیں جنہیں زندگی کی منازل طے کرنے کیلئے اچھا ساتھی یا ہمسفر مل جائے۔ شام کی تنہائیوں میں ہم جیسوں کے سفر تنہا ہی ہوتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسے گئے گزرے بھی نہیں‘ جیسے اوپر عرض کیا ایک دو شامیں ہماری فضول خرچی والی ہو ہی جاتی ہیں۔
ایک اچھی بات ہے کہ گو معلوم ہے کہ یہاں کچھ نہیں ہونا لیکن نہ افسردہ ہیں نہ دل برداشتہ۔ اس ماحول میں ڈھل چکے ہیں۔ یہ معلوم ہوچکا ہے کہ ہمارے معاشرے کی یہ خصوصیات ہیں‘ یہاں یہی کچھ ہونا ہے۔ لیکن اگر ہماری یہی حقیقت ہے تو اس کا کیا کیا جائے؟ جوانی میں انسان خواب پالتے ہیں اور ہم نے بھی ایسا کیا۔ سمجھتے تھے پتا نہیں یہاں کون سے انقلاب آئیں گے‘ رومانس بھری نظروں سے ہر چیز کو دیکھتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ سمجھ بدل چکی ہے۔ آنکھیں اب بھی رومانس بھری ہیں‘ کوئی خوش شکل سامنے سے گزرے تو دل میں بہت کچھ ہونے لگتا ہے۔ لیکن سیاست کے حوالے سے رومانس تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ جلسوں میں کبھی کبھار اب بھی چلے جاتے ہیں لیکن زیادہ ترسیاسی گفتگو سننے میں آئے تو ہنسی چھوٹ جاتی ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)