bohot saray social media influencers jhoot dikha rhe

انفلوئنسرز مارکیٹنگ کے فوائد

خصوصی رپورٹ۔۔

برانڈز مختلف طریقوں سے اس انفلوئنسرز مارکیٹنگ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔مثال کے طور پر، فیشن اور بیوٹی برانڈز فیشن بلاگرز اور انفلوئنسرز کے ساتھ شراکت کر رہے ہیں۔جب کہ ٹریول برانڈز ٹریول بلاگرز کے ساتھ شراکت کر رہے ہیں تاکہ ان کی فروخت میں اضافہ ہو سکے، فوڈ برانڈز فوڈ بلاگرز کا استعمال کر رہے ہیں۔

برانڈز کے لیے انفلوئنسر مارکیٹنگ کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ مخصوص صارفین کو ہدف بنا سکتے ہیں۔ برانڈز ایسے متاثر کن افراد کا انتخاب کر رہے ہیں جو اپنے ٹارگٹڈ صارفین کے لیے مواد تخلیق کرتے ہیں۔

’مواد کے تخلیق کاروں کے پاس اشتہارات کے لیے مارکیٹ میں بہت زیادہ صلاحیت ہے۔ برانڈز بھی ٹی وی یا اخبارات پر اشتہار دینے کے بجائے اثر انگیزی کی مارکیٹنگ میں اپنا اعتماد ظاہر کر رہے ہیں۔ جب بھی کوئی کمپنی اشتہار دینے کے لیے کسی ایجنسی سے رابطہ کرتی ہے، تو وہ کمپنی پوچھتی ہے کہ انفلوئنسر کے کتنے فالوورز ہیں۔‘

’کیا یہ فالوروز حقیقی ہیں یا نہیں؟ اس نے کن برانڈز کے ساتھ کام کیا ہے؟ اس شعبے میں 5 سال یا اس سے زیادہ عمر کے بچوں سے لے کر 80 سال تک کے لوگ کام کر رہے ہیں۔‘

سندیپ بڈکی کہتے ہیں کہ ’مارکیٹنگ کی دنیا میں ہر دس سال بعد ایک نیا رجحان آتا ہے۔ پہلے ٹی وی یا اخباری اشتہارات کے علاوہ کوئی اشتہار نہیں ہوتا تھا۔ پھر ریڈیو اشتہارات ظاہر ہونے لگے اور اب وہ وقت ہے جب کمپنیاں خاص طور پر صارفین کو نشانہ بنانے کے لیے اثر انداز ہونے والوں کی طرف رجوع کر رہی ہیں۔‘

’ہر برانڈ کی اپنی کیٹیگری ہوتی ہے۔ کچھ انفلوئنسرز ایسے ہوتے ہیں جن کے پانچ یا چھ ہزار فالوورز ہوتے ہیں اور یہ ٹھیک ہے، اور انفلوئنسرز جن کے لاکھوں فالوورز ہوتے ہیں۔ اس لیے برانڈز اور انفلوئنسرز کے درمیان تعلق کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کے ٹارگٹڈ آڈینس کیا ہیں، نہ کہ صرف فالوورز۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں