تحریر: طاہر اکرم
سی ٹی ڈی نے ساہیوال میں کار میںسوار فیملی پر فائرنگ کرکے خاتون، بچی اور دو افراد کو بے رحمی سے قتل کردیا، مرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیدیا گیا، فیملی بورے والا میں شادی کی تقریب میں جارہی تھی ساتھ بچے بھی تھے۔ ترجمان کی جانب سے بیان بھی سامنے آگیا کہ کار میں دہشت گرد سوار تھے۔ واقعہ پر ریاست مدینہ کے خلیفہ نے نوٹس لے لیا لیکن دوسری جانب انکے چہیتے وزیر اطلاعات فرما رہے ہیں کہ دہشت گردوں نے انسانی ڈھال بنا رکھی تھی، عینی شاہدین بھی کہہ رہے ہیں کہ کار سواروں کی جانب سے نہ کوئی فائر ہوا نہ ان سے اسلحہ برآمد ہوا بلکہ کپڑوں کے بھرے بیگ ملے جو سی ٹی ڈی کے قاتل اپنے ساتھ لیکر چل دیئے۔ کار میں اگر دہشت گرد سوار تھے تو کار سواروں نے گاڑی روک کر تلاشی دینے اور پیسے دینے کی التجا کیوں کی؟ ان سے ہتھیار ملا نہ کوئی مزاحمت کی گئی۔ شک کی بنا پر انکو حراست میں لیا جاسکتا تھا، سرچنگ بھی کی جاسکتی تھی لیکن فائرنگ کرکے خاندان کو تباہ کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟ ایسے لوگوں کو لگام کیوں نہیں ڈالی جاتی؟ یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہوا، گزشتہ برس کراچی میں راﺅ انوار نے نقیب محسود کو پیسے نہ ملنے پر دہشت گرد قرار دیکر قتل کر دیا، عدالت میں کیس چلا، کیا ہوا، آج درجنوں بے گناہ افراد کا قاتل آزاد گھوم رہا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ترجمان بھی آنکھیں بند کرکے ایسے حادثوں پر اپنا موقف دیکر عوام کے دلوں میں اداروں کیلئے مزید نفرت پیدا کرتے ہیں، ترجمان نے بیان دیا کہ دہشت گردوں کا تعلق16جنوری کو فیصل آباد میں مارے جانے والے دہشت گردوں سے ہے۔ دنیا بھر میں یہ طریقہ رائج ہے کہ جب تک کوئی شخص کسی پر فائر نہیں کرتا تب تک سیکیورٹی اداروں کو گولی کا کوئی حکم نہیں ہے حتیٰ کہ کسی کے ہاتھ میں ہتھیار بھی ہے تو اسے وارن کیا جاتا ہے اور اگر پھر بھی ملزم کی جانب سے ہتھیار پھینکنے کے بجائے فائر کھول دینے کا خدشہ ہو تو اس پر فائر کیا جاتا ہے، لیکن یہاں تو جعلی پولیس مقابلوں کے نام ہزاروں بے گناہوں کو مارا جا چکا ہے۔ عدالتوں میں پولیس جعلی گواہوں سے بیان دلوا کر پاک صاف ہو جاتی ہے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ اور کتنے بے گناہوں کو مارا جائے گا، کتنے بچے یتیم کرو گے؟ کیا چاہتے ہو آخر؟ وہ بچے جن کے سامنے انکے والدین کو مارا گیا وہ یہ سانحہ کبھی بھول پائیں گے؟ انکے دلوں میں جو نفرت بوئی گئی اسے محبت میں بدل سکو گے؟ کبھی بھی نہیں، وہی بچے کل اٹھ کر تمہارے خلاف اعلان جنگ کرسکتے ہیں جن کو تم پھر دہشت گرد قرار دو گے۔ اگر وہ کچھ نہ کر سکے تو اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ ماضی میں بم بلاسٹ میں مرنے والے ایس ایس پی کی لاش سے اندازہ ہو جانا چاہئے کہ بے گناہوں کو مارنے والے کو ذلت کی موت آئی، اسپتال میں ننگا پڑا رہا، جسم کے ساتھ کپڑوں کے چیتھڑے بھی اڑ گئے، اک اور سی پی ایل کے ظالم نے کچھ پختون تاجروں کو قتل کیا تھا اور وہ8سال جیل میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا تھا، کراچی میں سہراب گوٹھ میں مرنے والا ایس ایچ او جس نے بے گناہ شخص کو صرف اسلئے قتل کیا کہ ایس ایچ او اسکی بلڈنگ پر قبضہ چاہتا تھا انکار پر اسے مار دیا گیا لیکن خود بھی ایس ایس پی بم بلاسٹ میں مارا گیا۔ خدارا ہوش کے ناخن لو ورنہ کل تم بھی کسی اسپتال میں ننگے پڑے ہو سکتے ہو کیونکہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔(طاہر اکرم)