خصوصی رپورٹ۔۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے بعد ضلع اٹک کی ایک مقامی عدالت نے بھی اینکر عمران ریاض خان کیس کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دیتے ہوئے انھیں ایف آئی اے عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔بی بی سی کے مطابق سول مجسٹریٹ اٹک نے کیس پر مختصر کارروائی کے بعد فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کیس ان کی عدالت کے دائرہ اختیار میں نہیں، جس کے بعد متعلقہ حکام کی جانب سے عمران ریاض کا کیس ایف آئی اے کورٹ میں بھیج دیا گیا۔عمران ریاض کو آج راولپنڈی ایف آئی اے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ ملزم کے وکیل عامر حسنین نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالت کا کہنا تھا کہ چونکہ ملزم کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے جو کہ ان کے دائرہ سماعت میں نہیں آتا۔وکیل عامر حسنین کے مطابق بدھ کے روز ضلع چکوال کی پولیس بھی عمران ریاض کو گرفتار کرنے اٹک آئی تھی جس کا مطلب ہے کہ اُن کے موکل کے خلاف ایک اور مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اینکر عمران ریاض کو منگل کی شب ضلع اٹک کی پولیس نے گرفتار کیا تھا جس فوراً بعد ان کے وکلا نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرتے ہوئے متعلقہ حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے کی استدعا کی تھی۔ وکلا کا موقف تھا کہ عمران ریاض نے اسلام آباد ہائیکورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری لے رکھی تھی تاہم اس کے باوجود انھیں اسلام آباد کی حدود سے گرفتار کر لیا گیا۔توہین عدالت کی اس درخواست پر سماعت بدھ کے روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کی۔ چیف جسٹس کی جانب سے اس درخواست کو نمٹاتے ہوئے قرار دیا گیا تھا کہ چونکہ عمران ریاض کی گرفتاری صوبہ پنجاب کی حدود میں ہوئی ہے لہذا لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے تھے کہ ہر عدالت کا اپنا دائرہ اختیار ہے اور لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے۔
اٹک کے مقامی صحافی ندیم رضا کے مطابق بدھ کی صبح ملزم عمران ریاض خان کو ہتکھڑیاں لگا کر اٹک کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا تاہم ملزم کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ سینئیر وکیل اس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ میں مصروف ہیں لہذا اس مقدمے کی سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی جائے۔عدالت نے یہ استدعا منظور کرتے ہوئے پولیس کو حکم دیا ہے کہ ملزم عمران ریاض کو دوپہر دو بجے دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے۔اور پھر دو بجے ہونے والی سماعت نے اس معاملے کو اپنے دائرہ اختیار سے باہر قرار دے دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والی سماعت کا احوال:دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ رات کو رپورٹ آئی تھی کہ عمران ریاض کو پنجاب سے گرفتار کیا گیا ہے، جس پر عمران ریاض کے وکیل نے کہا کہ ’عمران ریاض نے مجھے فون پر بتایا کہ وہ اسلام آباد ٹول پلازہ پر ہیں۔ لہذا ان کی گرفتاری اسلام آباد کی حدود سے ہوئی۔سماعت کے دوران اینکر و صحافی عمران خان ریاض کے وکیل کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے واضح احکامات دیے تھے، جن کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔عدالت نے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے عمران ریاض خان کی گرفتاری نہیں کی بلکہ پنجاب پولیس نے انھیں گرفتار کیا۔جس پر اینکر عمران ریاض خان کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ اسلام آباد پولیس کہہ رہی ہے گرفتاری پنجاب سے ہوئی، ہم کہہ رہے ہیں اسلام آباد سے ہوئی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ کہے کہ اسلام آباد سے گرفتاری ہوئی تو وہ آرڈر اس عدالت کے سامنے لے آئیے گا، ہم اس کیس میں کوئی آبزرویشن نہیں دے رہے۔صحافی و اینکر عمران ریاض خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں الگ سے توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی ہے۔انھوں نے عدالت میں کہا کہ ’لاہور ہائی کورٹ کو رات کی ایف آئی آر سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا اور وہ چھپائی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ میں پولیس نے 17 مقدمات درج ہونے کی رپورٹ دی تھی۔واضح رہے کہ وزیرِ قانون پنجاب ملک احمد خان نے عمران ریاض کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں پنجاب میں درج متعدد مقدمات کی بنیاد پر پنجاب کی حدود سے گرفتار کیا گیا۔یاد رہے کہ عمران ریاض خان نے کچھ عرصہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر کے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی تھی۔
بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عمران ریاض خان جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے آئے تھے تو انھوں نے اٹک میں درج مقدمات کا ذکر کیا تھا جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ ’اٹک اس عدالت (اسلام آباد ہائیکورٹ) کے دائرہ سماعت میں نہیں اس لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا جائے۔نامہ نگار کے مطابق منگل کی شب عمران ریاض کی گرفتاری کے بعد بھی ان کے وکلا کی جانب سے رات گئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا اور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی گئی جس میں پنجاب اور اسلام آباد پولیس کے سربراہوں کو فریق بنایا گیا ہے۔عمران ریاض نے گرفتاری دینے سے قبل گاڑی میں بیٹھ کر ایک ویڈیو ریکارڈ کروائی ہے جس میں انھوں نے بتایا کہ ’میں اپنی ضمانت کے لیے اسلام آباد آ رہا تھا اور یہ بالکل اسلام آباد کی حدود ہیں جہاں سے مجھے گرفتار کیا جا رہا ہے۔اس ویڈیو میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’(چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ) اطہر من اللہ نے مجھے ضمانت دے رکھی ہے اور ایسی صورتحال میں مجھے گرفتار کرنا غلط ہے۔ کل صبح مجھے اُن ہی کی عدالت میں پیش ہونا تھا اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے اپنی ضمانت میں توسیع حاصل کرنی تھی۔عمران ریاض کا مزید کہنا تھا کہ ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ مجھے اندر بند کر دیں، جان سے مار دیں، یہ کچھ بھی کر دیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا میرے خیال میں ہمیں اپنا کام کرنا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ’جو صحافی باہر ہیں ان سب سے میری گزارش ہے کہ آواز اٹھائیں، بات کریں اور اپنا کام کرتے رہیں، کام نہیں چھوڑنا آپ نے، میں جرات کے ساتھ گرفتاری دینے جا رہا ہوں۔ یہ پیچھے پڑ گئے ہیں بلاوجہ بولنے ہی نہیں دے رہے۔ان کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والی پہلے سے ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں عمران ریاض خان کہتے ہیں کہ ’اگر اب سے پانچ گھنٹے کے بعد انھوں نے مجھے نہ چھوڑا تو میرے چینل پر ایک ایسی ویڈیو اپ لوڈ ہو گی کہ تہلکہ مچ جائے گا۔ان کو پتا چل جائے گا جنھوں نے میرے خلاف کارروائی کی ہے، سب کا نام لوں گا۔ ان ایجنسیوں کا بھی، ان اداروں کا بھی اور ان بندوں کا بھی جنھوں نے یہ سب کیا ہے۔خیال رہے کہ منگل کی صبح ہی لاہور میں عدالت نے عمران ریاض کے اسلحہ لائسنس منسوخ کرنے اور انھیں بلٹ پروف گاڑی رکھنے کے اجازت واپس لینے کے احکامات بھی معطل کیے تھے۔
عمران ریاض تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اس جماعت کے بیانیے کے بڑے حامی اینکر کے طور پر سامنے آئے تھے اور ان کے ذاتی یو ٹیوب چینل کی ویڈیوز کی بنیاد پر ملک کے مختلف شہروں میں ان کے خلاف ’اداروں کے خلاف تضحیک آمیز زبان استعمال کرنے‘ اور ’عوام کو افواج پاکستان کے خلاف اکسانے‘ جیسے الزامات کے تحت متعدد مقدمات درج ہوئے ہیں۔ملک احمد خان کے مطابق ضلع اٹک کے دو تھانوں میں بھی اُن کے خلاف مقدمات درج ہیں اور انھی کی بنیاد پر اٹک پولیس ان کی گرفتاری عمل میں لائی ہے۔یاد رہے کہ اینکر عمران ریاض پر اٹک کے علاوہ لاہور، بہاولپور، مظفر گڑھ، بھکر، سرگودھا، کالا باغ، گوجرانوالہ، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور متعدد دیگر شہروں میں ایف آئی آرز درج ہیں۔عمران ریاض کی گرفتاری کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خاصا ردِ عمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس حوالے سے مختلف ٹرینڈ بھی چل رہے ہیں۔اس بارے میں ردِ عمل دیتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ پنجاب پولیس کے ہاتھوں عمران ریاض کی بلاجواز گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’قوم کو امپورٹڈحکومت کے سامنے جھکانے کے لیے ملک فسطائیت کے سپردکیا جارہا ہے اور یہی وقت ہےکہ ہر شخص خصوصاً میڈیا یکجا ہو کر اس فسطائیت کے خلاف کھڑے ہوں‘۔سابق وزیرِ اطلاعات اور پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ’آج ہی (سابق وزیر اعظم) عمران خان نے پاکستان میں صحافیوں پر پابندیوں کے حوالے سے تفصیلی بات کی تھی اور کہا تھا کہ ملک میں فاشسٹ حکومت اپنے خلاف تنقیدی آوازوں کو دبانے کے لیے تیسرے درجے کے ہتھکنڈے استعمال کرے گی۔۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔