تحریر: عزیز اللہ خان۔۔
یوٹیوبر اور اینکر پرسن عمران ریاض کی گمشدگی کو لگ بھگ ڈیڑھ ماہ ہو گیا ہے لیکن پاکستان میں اعلیٰ حکام اور تفتیشی اداروں کو اب تک ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہیں؟
تاہم پولیس حکام نے ان کی لوکیشن کے حوالے سے افغان موبائل سموں کے استعمال ہونے کا ذکر کیا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس عثمان انور نے عمران ریاض کی گمشدگی سے متعلق عدالت میں کہا تھا کہ عمران ریاض کی گمشدگی میں بھی افغانستان کے موبائل فون نمبر استعمال ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
چند روز پہلے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے بھی صحافی عادل شاہ زیب کے پروگرام میں بتایا تھا کہ انھیں عمران ریاض کے بارے میں اب تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں ہیں تاہم اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔
عمران ریاض کو 11 مئی کو پولیس نے گرفتار کیا تھا اور پھر پولیس کے مطابق انھیں 16 مئی کو جیل سے اس یقین دہانی پر رہا کر دیا گیا تھا کہ وہ آئندہ اچھا رویّہ رکھیں گے۔
اس کے بعد سے وہ تاحال لاپتا ہیں اور پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے بعد سے ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے کہ وہ کہاں ہیں۔
عمران ریاض کی گمشدگی سے متعلق کیس کی سماعت میں انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب عثمان انور نے عدالت میں کہا تھا کہ عمران ریاض کی لوکیشن کے بارے میں اب تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا لیکن جو جیو فینسنگ کی گئی ہے اس میں افغانستان کے موبائل فون استعمال ہونے کا علم ہوا ہے لیکن ان کے پاس افغانستان کی موبائل فون سم ٹریس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس لیے ان کی لوکیشن کا علم نہیں ہو سکا۔
لاہور ہائی کورٹ نے 26 مئی کو حکم دیا تھا کہ عمران ریاض کو تلاش کرکے 30 مئی تک عدالت میں پیش کیا جائے لیکن اب تک انھیں پیش نہیں کیا جا سکا۔
آئی جی پنجاب کا یہ بیان غیر واضح اس لیے بھی ہے کہ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیا افغانستان کی موبائل فون سمز پاکستان میں استعمال ہو رہی ہیں یا عمران ریاض افغانستان چلے گئے ہیں اور وہاں افغان موبائل فون نمبرز ان کے ساتھ رابطے میں ہیں یا ان کا رابطہ افغانستان کے موبائل فون نمبر استعمال کرنے والے کسی شخص سے ہوا ہے۔
موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جب صوبہ پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس عثمان انور سے پوچھا گیا کہ افغان سمز کہاں استعمال ہو رہی ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوشش ہے کہ انھیں افغان سمز کا ڈیٹا فراہم کیا جائے جو پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام ڈیٹا دیا جائے جو مختلف صوبوں میں ان جگہوں پر استعمال ہوا جہاں جہاں ان (عمران ریاض) کی لوکیشن آتی رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ ان تمام ٹیلیفون کالز اور انٹرنیٹ کے استعمال کا ڈیٹا مل جائے جو پہلے ان کے ٹوئٹر ہنیڈل کے ذریعے استعمال ہوتی رہی ہیں۔ اس کے لیے وزارت دفاع نے ہائی کورٹ کے حکم پر مدد کا وعدہ کیا ہے اور وہ اس ڈیٹا کے حصول کے لیے اسلام آباد بھی گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ورکنگ گروپ کے اجلاس ہوئے اور پولیس کی کوشش ہے کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ عمران ریاض کہاں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’وہ یہ نہیں کہہ رہے کہ افغان سمز پاکستان میں استعمال ہو رہی ہیں یا نہیں، ہمیں ان نمبروں سے پاکستان میں جو کالیں ہو رہی ہیں ان کا ریکارڈ چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ عمران ریاض افغانستان میں ہیں، میں صرف انٹرنیشنل گیٹ وے سے ریکارڈ چاہتا ہوں۔‘
کیا پاکستان میں افغانستان کے موبائل فون نمبر استعمال ہو رہے ہیں یا نہیں اور کیا افغان سموں کے نمبر یہاں مقامی انٹرنیٹ سروس کے ساتھ استعمال ہو رہے ہیں اور یا یہ سمیں افغانستان میں ہی استعمال ہو رہی ہیں اور یہاں ان کے سہولت کار موجود ہیں؟
اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ سمیں صرف واٹس ایپ پر ہی استعمال ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے کچھ کاروباری حلقے بھی یہ افغان سمیں استعمال کرتے رہے ہیں لیکن اب یہ تاجر اپنے اپنے ممالک کی فون نیٹ ورک سے کام لیتے ہیں اور یہ کام اب وٹس ایپ کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔
خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر محمد اسحاق نے بی بی سی کو بتایا کہ بہت پہلے دونوں ممالک میں بعض علاقوں میں اس کی کوریج کسی حد تک تھی لیکن جب یہ سم غیر قانونی کاموں میں استعمال ہوئیں تو ان کا کوریج ایریا محدود کر دیا گیا تھا اور یہ صرف پاک افغان سرحد تک ہی محدود ہو گئی ہے اس لیے تاجر انٹرنیٹ کے ذریعے واٹس استعمال کرتے ہیں اور اس کے لیے اب تاجر اپنے اپنے ممالک کے سم کارڈز اور نیٹ ورک استعمال کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب دونوں ممالک کے تاجر یا دنیا میں کہیں بھی تجارت کے لیے رابطے ہوتے ہیں وہ واٹس ایپ پر ہی ہو رہے ہیں سم کالز کم ہی ہوتی ہیں یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پاکستان میں بھتّہ خوری، دہشت گردی یا اغوا برائے تاوان کے واقعات کا ذکر ہو تو اس میں افغانستان کے موبائل فون نمبر یا سم استعمال ہونے کی خبریں آتی رہی ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق جرائم پیشہ افراد بھی ان سمّوں کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر جرائم کی تفتیش کرنے والے افسران بھتّہ خوری، دہشت گردی یا اغوا برائے تاوان کے واقعات کے بارے میں بتاتے ہیں کہ زیادہ تر ایسے معاملات میں افغانستان کے موبائل فون نمبرز استعمال ہوتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں کسی حد تک جہاں موبائل فون کے ٹاورز نصب ہیں وہاں تو یہ موبائل فون سم کام کرتی ہیں لیکن پاکستان کے دیگر علاقوں میں یہ سم کیسے کام کر سکتی ہیں۔
کالعدم تنظیم تحریک پاکستان کے رابطہ کار بھی عام طور پر افغانستان کے موبائل فون نمبرز کی سم استعمال کرتے ہیں۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا معظّم جاہ انصاری نے اس سال جنوری میں کچھ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا ’بھتّے کے لیے پاکستان میں موصول ہونے والی زیادہ تر فون کالز میں افغان سمز استعمال ہوتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سم افغانستان کی سر زمین سے استعمال ہوتی ہیں۔‘
انھوں نے بتایا تھا کہ اس معاملے کو وفاقی حکومت کے سامنے بھی رکھا گیا تھا تاکہ افغان حکام سے اس کی روک تھام کے لیے بات چیت کی جائے۔
ان واقعات کی تفتیش کرنے والے ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نے کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سرحدی علاقوں میں تو افغانستان کے موبائل فون کی سم کسی حد تک کام کرتی ہے لیکن ملک کے دیگر علاقوں میں پھر کسی بھی اور ملک کی سم پھر موبائل فون کمپنیز کے ساتھ اشتراک پر رومنگ سروس کے طور پر کام کرتی ہیں لیکن اس کے لیے مقامی موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنی یا آئی پی ایڈریس سے ہی ایسا ہوتا ہے۔‘
خیبر پختونخوا کے سابق سینیئر پولیس افسر اختر علی شاہ نے بی بی سی کو بتایا ’افغان سم ایک عرصے سے یہاں استعمال ہو رہی ہیں اور اس معاملے پر مرکزی حکومتوں اور صوبائی سطح پر بات چیت ہوئی کہ کیسے اس کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جرائم کی تفتیش کے دوران اگر کسی قسم کی کوئی سم استعمال ہوتی ہے تو عام طور پر سم استعمال کرنے والے کے سہولت کار تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ اگر افغان سم کہیں سرحد سے استعمال ہو رہی ہوتی ہے تو ان کے سہولت کار پاکستان میں کہیں ضرور ہوتے ہیں اس لیے ان لنکس کے ذریعے ملزمان تک پہنچا جاتا ہے۔
تفتیشی افسران اور موبائل فون سروس فراہم کرنے والی کمپنیوں کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ یہ سم دو طرح سے استعمال ہوتی ہیں ایک تو براہ راست موبائل فون کے سم نمبر سے کال کی جاتی ہے لیکن اس کو ٹریس کرنا افغانستان میں مشکل ہوتا ہے۔
اس کے لیے سرورز ڈھونڈے جاتے ہیں جو خفیہ طور پر سی ڈی آر فراہم کرتے ہیں اور اس سی ڈی آر سے اس موبائل فون سم کی لوکیشن معلوم کی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ افغان یا کسی دوسرے ملک کے موبائل فون سم نمبر پر واٹس ایپ استعمال کیا جاتا ہے اور اس کو بھی ٹریس کرنا مشکل اس لیے ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں سی ڈی آر کال ڈیٹیل ریکارڈ کی جگہ پر آئی پی جنریٹ ہوتا ہے جیسے آئی پی نمبرز ہوتے ہیں۔
یہ آئی پی ایڈریس کسی ایک لوکیشن کے بارے میں بتا دیتے ہیں کہ یہ کس علاقے یا کس کمرے میں کسی وائی فائی نیٹ ورک سے استعمال ہو رہی ہے لیکن اگر وٹس ایپ نمبر کسی موبائل فون کمپنی کے ذریعے استعمال ہو رہا ہے تو لوکیشن ڈھونڈنا اس لیے مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ موبائل ٹاورز تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
افغان موبائل فون سروس کے لیے استعمال ہونے والی سم کے پاکستان میں استعمال کے بارے میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی سے رابطہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا افغان سم پاکستان میں استعمال ہو رہی ہیں تو پی ٹی کے حکام کا جواب واضح تھا کہ ’نہیں استمعال ہو رہیں۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ سال 2013 میں پشاور ہائی کورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 40000 افغان موبائل فون سمیں ملک میں استعمال ہو رہی ہیں تو اس بارے میں پی ٹی اے کا جواب تھا کہ یہ ان کے ’علم میں نہیں ہے۔‘
پھر ان سے پوچھا کہ کیا افغان موبائل فون کی سم کی رومنگ پاکستان میں اجازت ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں سال 2014 سے افغان سموں کی بین الاقوامی رومنگ پر پابندی ہے۔‘
پی ٹی اے حکام سے جب پوچھا گیا کہ پاکستان میں کن شہروں میں افغان سمز زیادہ استعمال ہو رہی ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں تو بتایا گیا کہ پاکستان میں افغان سموں کی بین الاقوامی رومنگ 2014 سے بند کر دی گئی ہے۔ مزید برآں سرحدی علاقوں میں افغان نیٹ ورکس پر پاکستانی سمز کے استعمال کی روک تھام کے لیے فروری 2023 سے افغان نیٹ ورکس پر پاکستانی سموں کی بین الاقوامی رومنگ بند کر دی گئی ہے۔
ایک موبائل فون کمپنی میں کام کرنے والے اہلکار نے بتایا کہ افغانستان یا کسی دوسرے ملک میں اگر ایک کمپنی کام کر رہی ہے تو اس کمپنی کا اشتراک یہاں پاکستان میں کسی ایک کمپنی کے ساتھ ہوتا ہے اور اس طرح یہ دونوں کمپناں اپنے اپنے ممالک میں ایک دوسرے کی فون سم کو سپورٹ کرتی ہیں لیکن پاکستان میں افغان سمز کے غلط استعمال کی وجہ سے اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
ایک ملک کی سم دوسرے ملک میں استعمال ہو اور پتہ بھی نہ چلے؟ٹیکنالوجی میں جس طرح تبدیلیاں آ رہی ہیں اور جس حد تک موبائل فون اور اس کی ایپلیکیشنز میں تبدیلیاں آ رہی ہیں ان کی روک تھام کے لیے اقدامات بھی مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں۔ جدید موبائل فون سیٹس میں اب ای سمز کی سہولت بھی مل رہی ہے۔
موجودہ صورتحال میں تو حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان میں افغانستان کی موبائل فون کمپنیوں کی سمیں استعمال نہیں ہو رہیں جن سے وائس کالز یا میسجز ہو رہے ہیں لیکن 2013 میں پشاور ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو کے حکام نے بتایا تھا کہ پاکستان میں افغانستان کی موبائل فون کمپنیز کی 40000 سمز کارڈز کام کر رہی ہیں۔
روزنامہ ڈان میں 24 اکتوبر 2013 کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق نیب نے عدالت میں بتایا تھا کہ پاکستان میں لگ بھگ 40000 افغان موبائل فون کمنیز کی سمیں استعمال ہو رہی ہیں۔ عدالت میں یہ سماعت پاکستان میں استعمال ہونے والی غیر رجسٹرڈ موبائل فون سموں کے بارے میں ہو رہی تھی۔
صوبہ پنجاب میں سینئیر پولیس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پنجاب میں افغان سم کے استعمال کے شواہد نہ ہونے کے برابر ہیں اور جو تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ اگر افغان سم سے کوئی کال موصول ہوئی ہے تو اس کا مرکز افغانستان ہوتا ہے یا وہ پاک افغان سرحد کے قریب سے کہیں کال کی گئی ہوتی ہے یہ سمیں پنجاب میں استعمال نہیں ہو رہیں۔
دنیا میں موبائل فون کا نظام اتنی وسعت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سم دراصل سبسکرائبر آئڈینٹٹی ماڈیول ہوتا ہے اور ان کی ایک شناخت ہوتی ہے جو سے دوسرے موبائل فون پر رابطے کے دوران ظاہر ہوتی ہے لیکن اب یہ شناخت چھپائی بھی جا سکتی ہے۔
اس کو ٹریس کرنے کے لیے یہ معلوم کیا جا سکتا کہ یہ سم کس علاقے میں ہے کس ٹاور سے منسلک ہے اور کس بی ٹی ایس کے مقام سے کی گئی ہے۔ٹیلی کمیونیکشن کے ماہر ایک اسسٹنٹ پروفیسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس کے خاص مقام کا تعیّن کرنے کے لیے موبائل فون کے جی پی ایس سسٹم کے ذریعے 40 میٹر کے احاطے کا تعیّن کیا جا سکتا ہے۔
اب بیشتر لوگ کسی بھی ملک کے سم کارڈ کو واٹس ایپ پر استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے لیے انٹرنیٹ کی فراہمی اس ملک کی ہو گی جہاں وہ فون استعمال کیا جا رہا ہے اور وٹس ایپ کے لیے اس ملک کے انٹرنیٹ کی آئی پی ایڈریس سے اس کی نشاندہی ہو سکتی ہے کہ یہ فون کہاں ہے لیکن اس میں کیا بات چیت ہو رہی اس کے بارے میں جاننا مشکل ہوتا ہے۔
اسٹسنٹ پروفیسر نے بتایا کہ وائس کال کے لیے یا میسجز کے لیے کسی افغانستان کے سم کارڈز پر پابندی ہے لیکن سرحدی علاقوں میں جہاں افغانستان کے ٹاور کے سنگنلز اگر آرہے ہیں تو وہاں یہ سم استعمال ہو سکتی ہے۔
تحقیقاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب افغانستان کی سرحد کے ساتھ علاقوں میں بھی اب افغانستان کے موبائل فون کے سگنل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ماہرین نے بتایا کہ افغانستان کے موبائل فون کمپنیز کو پاکستان میں وائس یا میسج کے لیے رومنگ کی اجازت نہیں ہے۔
اسسٹنٹ پروفیسر نے بتایا کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی لوکیشن خفیہ رکھنے کے لیے اب ایپلیکیشن بھی استعمال ہوتی ہیں جسے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک یعنی وی پی این کہا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ منسلک تو پاکستان کے نیٹ ورک کے ساتھ ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی لوکیشن خفیہ رکھتے ہیں اور یہ وی پی این آسانی سے مل جاتے ہیں بعض کو خریدا جاتا ہے اور بعض مفت مل جاتے ہیں۔ اس کی روک تھام کے لیے پاکستان میں ادارے کام کرتے ہیں اور ان وی پی این کو بلاک کر دیا جاتا ہے لیکن لوگ پیسے کمانے کے لیے اس طرح کے مختلف وی پی این بنا لیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق بعض لوگ اپنا نجی گیٹ وے قائم کر لیتے ہیں اور وہ لوگ دنیا کے دیگر ممالک کے وی پی این کے ذریعے منسلک ہو جاتے ہیں جو خفیہ رکھے جاتے ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے اکثر اس طرح کے گیٹ ویز کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔
اب جہاں تک بات عمران ریاض کی لوکیش کی ہے تو وہ اب بھی ابہام کا شکار ہے کیونکہ پولیس حکام نے اب تک یہ واضح نہیں کیا کہ افغانستان کے موبائل نمبرز کیسے کہاں اور کیوں کر استعمال ہو رہے ہیں اور عمران ریاض کی لوکیشن کے بارے میں جیو فینسنگ اور تحقیقاتی ادارے اب تک یہ واضح نہیں کر پائے کہ یہ افغان موبائل فون سمز کس طرح استعمال ہو رہے تھے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)