تحریر: علی حسن۔۔
چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے حال ہی میںپاکستان کی سیاسی قیادت اور اداروں کو مشورہ دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ مستحکم ترقی کے لیے پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے۔ سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی استحکام لائیں تاکہ پاکستان معاشی اور داخلی سطح پر ہمارے ساتھ آگے بڑھ سکے۔ چینی وزیر خارجہ نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ہم ہر معاملے میں آپ کی مدد کرتے رہیں گے،عالمی اقتصادی دباﺅ کم کرنے کیلئے اسلام آباد سے تعاون کریں گے اور سی پیک کے تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ دیں گے کیونکہ اس کا تعلق پاکستان کی ترقی عوام کی خوشحالی سے ہے۔ ایسا کیا ہوا کہ خصوصا حکمرانوں میں سے کسی نے اس مخلصانہ مشورے کو در خو ر اعتنا ہی تصور نہیں کیا اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کو ایک معاملہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں سے حراست میں لیا۔ انہیں حراست میں لینے کی جو وڈیو سوشل میڈیا پر لوگوں نے دیکھی وہ اشتعال میں آگئے کہ عمران خان کو گر یبان اور بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا جا رہا تھا۔ حکومت میں شامل وہ کون سے عناصر ہیں جنہوں نے وزیر آعظم کی غیر موجودگی میں یہ غیر دانشمندانہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا جب پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہے اور پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ ۴۱ مئی مقرر ہے۔ یہ تاریخ سپریم کورٹ نے دی ہے۔ حکومت اس تاریخ پر پہلے روز سے عمل کرنے کی خوہاں ہی نہیں تھی کہ ۹ مئی بروز منگل گرفتار کر لیا۔ اور سیاسی صورت حال کو اپنے لئے اور ملک کے لئے گھمبیر بنا دیا۔ چین جیسے دوست کو اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ چین ہو یا کوئی اور ملک جس کے مفادات پاکستان سے وابستہ ہوں، اسے سیاست میں کشیدگی پسند نہیں آتی ہے۔
عمران خان کی گرفتاری کے رد عمل میں جو کچھ ہوا وہ باعث تشویش اور ناقابل برداشت تھا۔ عرب اسپرنگ کی ایک جھلک نظر آئی۔ جی ہاں، دوہزار دس میں عرب اسپرنگ ایک ایسی پر تشدد بغاوت کی سیاسی لہر تھی جب دنیا کے بیشتر عرب ممالک ہل کر رہ گئے تھے۔ تیونس سے اس لہر کا آغاز ہوا تھا۔ تیونس کے ایک بے روز گار نوجوان جو کرایہ کے ٹھیلے پر سبزیاں فروخت کرتا تھا کو پولس نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور وہ ۹۱ روز بعد ہلاک ہو گیا تھا۔ اس نوجوان کی وڈیو کا وائرل ہونا تھا کہ ملک پر ۳۲ سالوں سے حکمرانی کرنے والے صدر کو چند روز کے اندر ہی سعودی عرب فرار ہونا پڑا تھا۔ اس واقعہ کے بعد پورا عرب ریجن طولی احتجاج اور ہنگاموں کو شکار ہو گیا تھا۔ کئی ممالک اس کی زد میں آگئے تھے ۔عرب دنیا کے سالوں سے محکوم مسائل میں پسے ہوئے عوام جب اپنی پر آئے تو کیسے سربراہوں کے تاج اچھالے گئے۔ پاکستان میں کیوں کسی کے ذہن میں نہیں آیا کہ پاکستان کے عوام مہنگائی اور حالات کے خلاف شدت سے بد ظن ہیں اور کہیں بھی کوئی بھی چنگاری بھڑک جائے گی اور پھر شعلے شعلے ہیں ہوں گے۔
نو مئی جسے فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے نے کہا ہے کہ ” 9 مئی کا دن ایک سیاہ باب کی طرح یاد رکھا جائے گا، عمران خان کی گرفتاری کے بعد فوج مخالف نعرے بازی کرائی گئی۔عمران خان کو قانون کے مطابق حراست میں لیا گیا، گرفتاری کے بعد منظم طریقے سے ا?رمی املاک اور تنصیاب پر حملے کرائے گئے۔ شر پسند عناصر عوامی جذبات کو محدود اور خود غرض مقاصد کی تکمیل کے لیے ابھارتے رہے ۔ آئی ایس پی آر اعلامیے میں کہا گیا کہ دشمن جو 75 سال میں نہ کرسکا وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک سیاسی لبادہ اوڑھے گروہ نے کر دکھایا۔اعلامیے میں کہا گیا کہ جو سہولت کار، منصوبہ ساز اور سیاسی بلوائی ان کاروائیوں میں ملوث ہیں ان کی شناخت کر لی گئی ہے“۔
سوال یہ ہے کہ یہ کیا ہوا تھا کہ بیک وقت لاہور، پشاور، راولپنڈی اور بعض اور شہروں میں ایسی آگ بھڑکی جس کے شعلے ملک بھر میں سوشل میڈیا پر دیکھے گئے اور اس کی تپش سب نے ہی محسوس کی ۔ کسی بھی مقام پر پر تششد مشتعل لوگوں کو روکنے یا ان کی جلاﺅ گھیرﺅ کی غیر قانونی، غیر انسانی کارروائیوں کو روکنے والا کوئی کیوں نہیں تھا۔ ڈھاٹے باندھے ہوئے لوگ کون تھے۔ وہ گاڑیوں کے شیشے کیوں توڑ رہے تھے۔ وہ عمارتو ںکو آگ کیوں لگا رہے تھے ؟ لوٹ مار کیوں کر رہے تھے ؟ جب ہجوم مکانات اور دفاتر پر حملہ آور تھا تو نہ کہیں چوکیدار تھا نہ ہی کوئی روکنے اور ٹوکنے والا تھا۔ بظاہر شدت پسند مظاہرین کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا کیوں نہیں کرنا پڑا؟ بعض مناظر تو ایسے تھے کہ مرحومہ بے نظیر کی شہادت والے روز سندھ کے اکثر شہروں میں جیسا ہوا تھا۔ غم زدہ لوگوں میں سے بہت سارے لوگ لوٹ مار میں بھی شریک تھے۔ لاڑکانہ جیسے شہر میں لوٹ مار کی گئی تھی۔ یہ تو الگ بحث ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے لئے ۴۱ مئی سے قبل ۹ مئی کیوں چنی گئی۔ کیا کچھ روز انتظار سے فرق پڑ جاتا۔ ہائی کورٹ کی عمارت کے اندر سے حراست میں لیا گیا، چیف جسٹس عامر فاروق بہت برہم تھے۔ انہوں نے ۵۱ منت میں وزیر داخلہ اور دیگر حکام کو طلب کر لیا تھا۔ بعد میں فیصلہ محفوظ کر لیا تھا ، جب فیصلہ آیا تو لوگ پھر بھڑک اٹھے کہ فیصلہ میں عدالت کے احاطے سے حراست کو قانون کے مطابق قرار دیا گیا تھا۔ بعض وکلاءکا کہنا ہے کہ یہ ایک ایس نظیر بن گئی ہے کہ اب پولس اور رینجرس جسے چاہے گی حراست میں لے لیا کرے گی۔ احتساب عدالت نے عمران خان کو آٹھ دن کے جسمانی ریمانڈ پر بھی دے دیا۔ احتساب عدالت نے عمران خان کو اٹھ دن کے جسمانی ریمانڈ پر بھی دے دیا۔ جمعرات کے روز سپریم کورٹ نے ان کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا، انہیں ہدایت کی کہ وہ اسلام ہائی کورٹ میں پیش ہوں جہاں سے انہیں گرفتاری سے دو ہفتے کی ضمانت مل گئی۔ قومی احتساب بیورو کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (رٹائرڈ) نذیر بٹ جنہیں حال ہی میں مقرر کیا گیا تھا ، ہٹا دئے گئے اور ان کی جگہ وقار چوہان کو مقرر کر دیا گیا۔
عمران خان کی گرفتاری سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ تمام کارروائی ان کے مخالفین کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچانے کے لئے کی گئی ہے۔ مخالفین یہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ قومی احتساب بیورو نے عمران خان کے دور حکومت میں جو کچھ کیا تھا وہ عمران خان کی ذاتی عداوت کا نتیجہ تھا۔ایسی آڈیو بھی لیک ہوگئی ہیں جن کے مطابق تحریک انصاف کے رہنماءلوگوں کو اکسا رہے ہیں یا اشتعال دلا ر ہے ہیں اور جلاﺅ گھیراﺅ کی ہدایات دے رہے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری آئی ایم ایف کے ساتھب ہونے والے معاہدہ پر اثر انداز نہیں ہوگی ؟
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر سے تحریک انصاف کے رہنماﺅں کی گرفتاریں شروع ہو گئی۔ دوسرے روز بدھ کو جب تحریک انصاف کے صف اول کے رہنماءعمران خان کی عدالت میں پیشی کے موقع پر گئے تو اسد عمر کو گرفتار کر لیا گیا۔ شاہ محمود قریشی ، شیرین مزاری ، یاسمین راشد وغیرہ سمیت سینکڑوں کارکن حراست میں لے لئے گئے۔ لوگوں خصوصا خواتین میں پایا جانے والے اشتعال دیدنی تھا۔ جھنڈے لہراتی ہو ئی خواتین سرخوں پر عمران خان کی حق میں نعرے لگا رہی تھیں۔ بعض غیر جانبدار سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد مشتعل لوگوں کو دانستہ ڈھیل دی گئی۔ کیوں ؟ ان کا خیال ہے کہ اس طرح تحریک انصاف پرد ہشت گرد تنظیم کا الزام لگانا آسان ہوگا۔ پاکستان میں دہشت گردی، ملک دشمنی، غداری کے الزامات لگنے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ ان ہی مبصرین کا قیاس ہے کہ اس الزام کے بعد حکومت تحریک انصاف پر پابندی عائد کر دے گی اور عمران خان سمیت کئی رہنماﺅں کو دہشت گردی کے الزام میں مقدمات کا سامنا کرنے پر مجبور کر دے گی۔ موجودہ مخلوط حکومت میں شامل پیپلز پارٹی کے رہنماء بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے یہ بات سامنے ٓئی ہے کہ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں تحریک انصاف پر وزیر دفاع خواجہ ٓصف کی پابندی لگانے کی تجویز کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کابینہ اجلاس میں ایم کیو ایم نے بھی پابندی عائد کرنے کی تجویز کی حمایت نہیں کی۔ اگر تحریک انصاف پر پابندی لگا نے کی تجویز منظور ہو جاتی تو انتخابی کھیل سے تحریک انصاف باہر ہو تی اور اس کے مخالفین آسانی سے گول پر گول کر سکتے لیکن پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا کیا کیا جاتا۔ حکومت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کو مزید انتشار اور تباہی سے بچانے کی خاطر جماعتی سیاست سے بالا تر ہو کر فیصلے کرے۔ پی ڈی ایم کا پیر کے روز سپریم کورٹ کے باہر ڈھرنا لگانے کا فیصلہ غیر دانشمندانہ قدم ہوگا۔ کیا کابینہ میں اور انفرادی طور پر وزراءکے سپریم کورٹ کے خلاف بیانات پی ڈی ایم کی جماعتوں کے مفاد میں جا سکیں گے ؟ (علی حسن)