تحریر: ایاز امیر۔۔
کہنے کو کچھ اور رہا نہیں تولندن میں بیٹھے ہمارے انقلابی راہنما قوم کو کنفیوز کرنے کی ایک اور کوشش کررہے ہیں۔اُنہوں نے اعلان فرمایا ہے کہ جنابِ قمرجاوید باجوہ اورجنابِ فیض حمید کو کٹہرے میں لانا چاہئے کیونکہ موصوف کی حکومت ہٹا کر اُنہوں نے قتل سے بڑا جرم کیا تھا۔ پوچھنے کی بات البتہ یہ بنتی ہے کہ باجوہ صاحب نے اتنا بڑا جرم کیا تھا تواُن کی توسیع کے قانون میں (ن) لیگ نے کیوں حصہ ڈالا؟اصولی بات تو یہ بنتی تھی کہ (ن) لیگ ڈٹ جاتی اوراُس قانون کی پرزورمخالفت کرتی۔ ایسا نہیں کیا اور جہاں دوسری جماعتوں بشمول پی ٹی آئی نے اُس قانون کا جھنڈا بلند کیا (ن) لیگ بھی اس فعل میں برابر کی شریک ہوئی۔میاں صاحب تو پہلے ہٹائے جا چکے تھے‘ یعنی جسے وہ بڑا جرم کہتے ہیں وہ تو سرزد ہوچکا تھا‘ تو پھر باجوہ صاحب کی توسیع کے قانون کی حمایت (ن) لیگ نے کیوں کی؟ اگر اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جرم ہوا بھی تو نئی مصلحتوں کے تحت اسے معاف کردیا گیا‘ توپھرگڑے مردوں کو قبر سے نکالنے کا جواز کیا بنتا ہے؟
رانا ثناء اللہ دبنگ آدمی ہیں‘ اُن کے منہ سے سچی بات نکل جاتی ہے۔ اپنے ایک بیان میں اُنہوں نے فرمایا ہے کہ عمران خان سے نمٹنے کے لیے (ن) لیگ نے کڑوی گولی کھائی اور توسیع کے قانون کی حمایت کی۔ باالفاظ دیگر وہ اعتراف کرتے ہیں کہ (ن) لیگ طاقتور حلقوں سے مل کر اُس نیک کام میں شامل ہوئی جس کے نتیجے میں تحریک عدمِ اعتماد کے ذریعے خان صاحب کی حکومت کو چلتا کیا گیا۔جب یہ سب کچھ ہو گیا ہے اور رجیم چینج کے نتیجے میں ملک کا ستیاناس کرنے کا پورا بندوبست بھی کرلیاگیا توپھر ماضی کی ان تلخ یادو ں کو بھلائیں اورآگے کی طرف دیکھیں۔ رجیم چینج کے جو بھی محرک تھے اُن کی مہربانیوں سے قوم اور ملک اس حالت میں ہیں جسے ہم بھگت رہے ہیں۔ جیسے بھی تھا ملک چل رہا تھا لیکن رجیم چینج کی مہربانی فرماکر ملک کو ایک بحران میں دھکیل دیا گیا‘ ایسا بحران جس سے نکلنے کی کوئی سعی نظر نہیں آرہی۔
چلیں جو ہوا سو ہوا‘ بار بار اس کہانی کو دہرانے کا فائدہ کیا۔ اب تو بات ہونی چاہئے ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی۔ باقی چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ پکڑدھکڑ کا سلسلہ جاری ہے‘ ضرور جاری رہے لیکن کوئی اتنا تو بتلائے کہ اس سے حاصل کیا کرنا ہے؟ چودھری پرویز الٰہی اندر ہیں‘ تیرہ مرتبہ اُن پر ایک نیا مقدمہ قائم ہوا ہے تاکہ ایک مقدمے سے رہا ہوں تو دوسرے میں فوراً بند کر دیئے جائیں۔اس لاحاصل مشق سے کیا حاصل کرنا ہے؟ چودھری پرویز الٰہی کو اندر رکھنے سے ملکی حالات بہتر ہو جائیں گے ؟ ملک میں استحکام آ جائے گا؟ بے یقینی کے بادل چھٹ جائیں گے؟ چودھری صاحب کا نام اصطلاحاً لیا جا رہا ہے حالانکہ جو باقی پکڑے ہوئے ہیں اُن کا نام بھی لیاجاسکتا ہے اوراُن کی گرفتاری کے ضمن میں بھی یہی سوال پوچھے جا سکتے ہیں۔دو تین روز ہوئے صنم جاوید کو کوٹ لکھپت جیل سے رہا کیا گیا‘ پھر اطلاع آئی کہ ایک نئے کیس میں دھر لی گئی ہیں۔ پھر وہی سوال کہ صنم جاوید اور دیگر خواتین کو اندررکھ کر ہم نے کیا حاصل کرنا ہے؟ کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو مقدمہ چلنا چاہئے اور مقدمے کے جو بھی منطقی نتائج ہوں اُن پہ کوئی کیا اعتراض کرسکتا ہے؟ لیکن یہ جو ایک خاص ماحول پیدا کرنا ہے اس سے ملک و قوم کی کیا بہتری ہوسکتی ہے؟
زیادہ تشویشناک بات تو یہ ہے کہ ہماری دھرتی میں ایک نئی چیز پیدا ہوگئی ہے۔ چلتے چلتے اوراپنے پورے ہوش و حواس میں لوگ غائب ہو جاتے ہیں۔ عمران ریاض خان کو دیکھ لیجئے‘ چارماہ تک غائب رہا۔ اُس کی چالاکی اور ہنرمندی کی داد دینی پڑتی ہے کہ اتنا عرصہ غائب رہا اور ہمیں کچھ خبر نہ ہوئی۔پنجاب کے فرض شناس اور متحرک آئی جی ڈاکٹر عثمان انوراس عرصہ انتہا کی پریشانی میں مبتلارہے۔لاہور ہائیکورٹ کے بار بار کے استفسار پر آئی جی صاحب یقین دلاتے رہے کہ عمران ریاض کی بازیابی کی کوششیں جاری ہیں۔ چار ماہ آئی جی صاحب یہی فرماتے رہے حتیٰ کہ آخرکار ہائیکورٹ بھی بلبلا اٹھی کہ ہماراصبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ کمال کی سراغ رسانی پنجاب پولیس نے کی ہوگی کیونکہ آخرکارعمران ریاض بازیاب ہوہی گئے ہیں‘ لیکن چار ماہ وہ غائب کہاں رہے؟ وہ کون سی اونچی پہاڑی یا گہری وادی تھی جہاں وہ چھپے رہے اور ہمیں پتا نہ چل سکا؟ اور بھی بہت سے ہیں‘کن کن کا نام لیا جائے؟ مسئلہ یہاں تک پہنچا ہوا ہے کہ نام لینے پر مہربان خفا ہوجاتے ہیں۔روسی اورچینی انقلاب کے حوالے سے ہم پڑھتے تھے کہ دشوار حالات میں کارکن انڈرگراؤنڈ چلے جاتے ہیں۔ یہاں خواہ مخواہ بغیرکسی انقلاب آنے پر لوگ انڈرگراؤنڈہو رہے ہیں‘ کچھ اپنی عافیت کیلئے اور کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر۔
ہماری سمجھ میں تواتنی بات آتی ہے کہ جو کرنا ہے کریں لیکن کچھ مقصد تو ہونا چاہئے۔ بے مقصد کی بھاگ دوڑ کا فائدہ کیا؟ جماعتوں اور تحریکوں پر کریک ڈاؤن ہوتے ہیں‘ کوئی نئی بات نہیں لیکن مقصد توہونا چاہئے۔ موجودہ کریک ڈاؤن جو جاری ہے اُس سے کیا نتیجہ حاصل کرنا ہے؟مرضی کے انتخابات کرانے ہیں؟ایسے انتخابات کے کرانے میں آپ کامیاب ہو بھی جائیں تو کیا ملک میں استحکام آ جائے گا؟جو لکیریں لوگوں کے دلوں میں پڑ چکی ہیں کیا وہ مٹ جائیں گی؟ جن کہانیوں کو سچ کا مقام دیا جا رہا ہے کیا اُن کہانیوں کو لوگ بھی مان لیں گے کہ یہ حقیقت کا مقام رکھتی ہیں؟ توپھر اس تگ و دو کا مقصد کیا ہے؟ کیا ایک نئی سیاست کی بنیاد ڈالنی ہے؟ کیا چلے ہوئے کارتوسوں سے یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے؟
کسی پر خواہ مخواہ کی تنقید مقصود نہیں لیکن اتنا تو دیکھنا چاہئے کہ جن پرانے مسیحوں کو نئی پالش اوروارنش کے ساتھ قوم کے سامنے پھر سے مسیحا کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے چالیس پینتالیس سال سے اس سرزمین پر سیاست اور سرمائے کا کھیل رچا چکے ہیں۔ آج کے بیشتر نوجوان پیدا نہیں ہوئے تھے جب شریف خاندان کو انگلیاں پکڑ کر سیاسی اکھاڑے میں اتارا گیا تھا۔باجوہ تو آج کے دور کی پیداوار ہیں‘ شریف خاندان کے گاڈفادر تو مرحوم ضیاالحق تھے جن کو گئے تقریباً پینتیس برس ہوچکے ہیں۔ان چلی ہوئی توپوں کے پاس اب کچھ نہیں رہا‘ کہنے کو کچھ نہیں۔ یہ ماضی کے کھلاڑی ہیں اورآج کے حالات اِس ملک سے تقاضا کررہے ہیں کہ خدارا کچھ نئی سوچ پیداکی جائے۔ آئن سٹائن کے کسی فارمولے کی یہاں ضرورت نہیں‘ ضرورت بس اس امر کی ہے کہ یہ نارمل ملک بنے۔ہمارے جیسے ملکوں میں لوٹ مار تو چلتی ہے لیکن اتنی بے دریغ لوٹ مار تو نہ ہو۔ کچھ چیک اینڈ بیلنس ہو اور کچھ قانون کی پاسداری ہو۔
آئین موجود ہے‘ قوانین موجود ہیں لیکن جتنی آئین اور قانون کی یہاں عزت کی جا رہی ہے لگتا ہے کہ آئین سازی کرکے ہمارے پیشروؤں نے ایک جھک ہی ماری تھی۔ تب کے گورنرمغربی پاکستان نواب کالاباغ بڑے سخت ایڈمنسٹریٹر سمجھے جاتے تھے لیکن اُن کے زمانے میں بھی یہ کچھ نہیں ہوتا تھا جس کے ہم عادی ہوتے جا رہے ہیں۔بس اتنا ہی کہیں گے‘فضول کے ناٹک بہت ہوچکے‘اب آگے کی سوچئے۔(بشکریہ دنیانیوز)