تحریر: جاوید چودھری۔۔
میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس اسٹڈیز آپ کے سامنے رکھتا ہوں‘ گوہر اعجاز ایک بزنس مین ہیں‘ یہ 14سال سے اپٹما کے پیٹرن انچیف ہیں اور لاہور میں لیک سٹی کے نام سے ہاؤسنگ اسکیم چلا رہے ہیں‘ یہ چودہ سال قبل دو بینکوں کے مقروض تھے‘ قرض ادا کرنے کا وقت آیا تو ان کے پاس پیسے نہیں تھے‘ ٹینشن کی وجہ سے انھیں ہارٹ اٹیک ہو گیا۔
یہ اسپتال میں پڑے تھے کہ دونوں بینکوں کے صدر آئے اور انھیں یہ بتا کر چلے گئے آپ نے فلاں تاریخ تک ہمارا سارا قرض ادا کرنا ہے ورنہ ہم آپ کی تمام جائیداد ضبط کر لیں گے‘ یہ دونوں صدور ان کے ذاتی دوست بھی تھے‘ گوہر اعجاز کو اسپتال کے بیڈ پر لیٹے لیٹے محسوس ہوا میری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ قرض ہے اور میں نے ہر صورت اس سے جان چھڑانی ہے۔قصہ مختصر یہ بیڈ سے اٹھے اور ان کے پاس جو کچھ تھا انھوں نے بیچ کر اپنا سارا قرضہ ادا کر دیا اور اس کے بعد سود کو اپنی زندگی سے مکمل طور پر خارج کر دیا‘ ان کا اگلا فیصلہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے کاروبار میں شامل کرنا تھا‘ گوہر اعجاز نے اﷲ تعالیٰ کو اپنے کاروبار میں 50 فیصد کا شریک بنا لیا‘ یہ اپنی آمدنی کا آدھا حصہ اﷲکی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں‘ مجھے پتا چلا پچھلے سال انھوں نے اپنا سو فیصد منافع اﷲ کی راہ میں دے دیا تھا۔یہ روز لاہور کے مختلف حصوں میں 30 ہزار کھانے دیتے ہیں اور ان کی کام یابی کا تیسرا اصول تجارت ہے‘ یہ بزنس کرتے ہیں اور اس بزنس میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل رکھتے ہیں‘ ان کا اپناکنسورشیم ہے‘اس میں ملک کے دس بڑے بزنس مین شامل ہیں‘ مجھے ان لوگوں کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزارنے کا موقع ملا‘ ان سب کا فارمولہ ایک ہی تھا‘ قرض نہیں لینا‘ سود نہیں دینا‘ اﷲ کو بزنس میں شریک رکھنا ہے اور صرف اور صرف بزنس کرنا ہے لہٰذا یہ لوگ اس وقت پورے ملک کی اکانومی چلا رہے ہیں۔
گوہر اعجاز نگران حکومت میں شامل ہوئے‘ ان کے پاس پانچ پورٹ فولیو تھے‘ ان چھ ماہ میں اس اکیلے شخص نے ملکی معیشت میں ایک اعشاریہ ایک بلین ڈالر کا ماہانہ اضافہ کر دیا‘ یہ سالانہ 13 بلین ڈالر بنتے ہیں‘ گوہر صاحب ملک کے 24 بزنس مینوں کو چین‘ مصر اور سعودی عرب لے گئے اور ان ملکوں کے ساتھ پاکستان کے تجارتی راستے کھول دیے‘ یہ اس وقت سعودی عرب میں ہیں‘ ان کے ساتھ 21 بڑے بزنس میں ہیں‘ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان 20 بلین ڈالر کا تجارتی گیپ ہے‘ سعودی عرب ہم سے 20 بلین ڈالر زیادہ کماتا ہے۔
ہم اگر صرف یہ گیپ پورا کر لیں تو ہم منافع میں چلے جائیں گے اور یہ 21بزنس مین بڑی آسانی سے یہ کام کر سکتے ہیں‘ افریقہ بھی بہت بڑی مارکیٹ ہے اور چین بھی‘ گوہر اعجاز نے بڑی حد تک یہ گیپ ختم کر دیا اور اس کے عوض حکومت پاکستان سے ایک روپیہ چارج نہیں کیا‘ یہ دفتر میں کافی تک اپنی جیب سے پیتے تھے اور ذاتی جہاز پر اسلام آباد آتے اور جاتے تھے‘ ان کے ساتھی بھی اپنے خرچ پر ان کے ساتھ دوسرے ملکوں میں ڈیل کے لیے جاتے تھے‘ اب سوال یہ ہے گوہر اعجاز نے چھ ماہ میں سب کچھ کیسے کر دیا؟
اس کی دو وجوہات ہیں‘ یہ خود کاروباری ہیں‘ یہ کاروبار کی نزاکتیں اور بزنس ڈیلز جانتے ہیں چناں چہ انھوں نے بڑی آسانی سے یہ کام کر دیا‘ دوسرا یہ جانتے ہیں کوئی شخص ہو‘ کمپنی ہو یا ملک ہو وہ قرضوں اور سود سے ترقی نہیں کر سکتا‘ ترقی کا صرف ایک ہی نسخہ ہے اور وہ ہے بزنس اور اس نسخے سے اگر گوہر اعجاز اور ان کے ساتھی بزنس مین ترقی کر سکتے ہیں‘ یہ ہارٹ اٹیک کے بعد بیڈ سے اتر کر خود کو سود کے شکنجے سے نکال سکتے ہیں تو ملک کیوں نہیں نکل سکتا؟۔
ہماری دوسری مثال محسن نقوی ہیں‘ یہ14 ماہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ رہے‘ اس شخص نے مختصر سے وقت میں پنجاب میں گورننس اور ڈویلپمنٹ کا نیا معیار طے کر دیا‘ یہ خود سویا اور نہ کسی دوسرے کو سونے دیا‘ پنجاب عثمان بزدار کے ہاتھوں تباہ ہو چکا تھا‘ محسن نقوی آیا اور اس نے نہ صرف پنجاب کے بزداری زخم مندمل کر دیے بلکہ شہباز اسپیڈ کو بھی مات دے دی اور یہ تمام تر کام اس شخص نے پنجاب کی اسی روایتی بیوروکریسی سے کرایا جسے دنیا میں سستی کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا جا سکتا ہے۔
محسن نقوی پر ان 14ماہ میں کرپشن کا ایک الزام بھی نہیں لگا چناں چہ اب مریم نواز کا مقابلہ میاں شہباز شریف سے نہیں بلکہ محسن نقوی کے 14ماہ سے ہو گا اور انھیں ان کے برابر آنے کے لیے ٹھیک ٹھاک محنت کرنی پڑے گی‘ یہ صرف مریم اورنگزیب کی ٹویٹس سے محسن نقوی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی، سوال پھر وہی ہے محسن نقوی جیسے نان الیکٹڈ شخص نے یہ سب کچھ کیسے کر دیا؟
اس کی بھی دو وجوہات ہیں‘ یہ مینجمنٹ کا ایکسپرٹ ہے‘ اس نے چند ادارے بنائے اور انھیں باقاعدہ اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا‘ اسے پنجاب ملا تو اس نے اپنا تجربہ پورے صوبے پر دہرا دیا اور نتیجہ وہی نکلا جو گوہر اعجاز کی کیس اسٹڈی کا تھا‘ دوسرا یہ شخص کام کرنا چاہتا تھا اور اس نے کر دکھایا‘ ہم ان دونوں کیس اسٹڈی سے یہ نتائج اخذ کر سکتے ہیں‘ ملک کو اب سیاست دان نہیں ایکسپرٹ چاہئیں اور ایکسپرٹس بھی وہ جنھوں نے باقاعدہ ادارے چلائے ہوں‘ سائنس ٹیچر اور سائنس دان میں تجربے کا فرق ہوتا ہے۔
استاد دہائیوں تک طالب علموں کو سائنس پڑھاتا ہے لیکن یہ خود آئن اسٹائن نہیں بن سکتا‘ آئن اسٹائن کو آئن اسٹائن اس کا تجربہ بناتا ہے اور اصل ایکسپرٹس وہ ہوتے ہیں جو وقت اور زمانے کی بھٹی سے پک کر تیار ہو کر نکلتے ہیں‘ جو رائیٹ برادرز کی طرح سائیکل کو جہاز میں تبدیل کردیتے ہیں اور ہمارے ملک کو اب ایسے تجربہ کار ایکسپرٹس چاہئیں۔
سونیا گاندھی نے 2004میں من موہن سنگھ کو وزیراعظم بنا کر بھارت کو ایک ایسا تحفہ دیا تھا جس نے آج انڈیا کو ورلڈ پاور بنا دیا‘ بھارت ہر سال صرف مقبوضہ کشمیر میں 14 اشاریہ چھ بلین ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ ہماری پوری فوج کا بجٹ اس سے کم ہے اور یہ سارا کمال من موہن سنگھ کا تھا‘ یہ ٹیکنوکریٹ بھی تھے اور تجربہ کار بھی چناں چہ انھوں نے غربت میں ڈوبے بھارت کو شائننگ انڈیا بنا دیا اور نریندر مودی نے اسے نقطہ کمال تک پہنچا دیا‘ ہم یہ کیوں نہیں کرتے؟
ہم اب تک ناتجربہ کار‘ ان پڑھ اور کرپٹ روایتی سیاست دانوں میں کیوں گھرے ہوئے ہیں؟ ہم نے اپنا سارا سسٹم الیکٹیبلز کے ہاتھوں میں کیوں دے رکھا ہے؟ ہمارا نظام اس قدر کم زور ہے کہ اس میں سے کوئی شخص اٹھتا ہے‘ وہ حلقے کی برادریوں کو اپنے ساتھ ملاتا ہے‘ تھانے اور کچہری کی سیاست کرتا ہے‘ کسی کو حوالات میں ڈلواتا اور کسی کونکلواتا ہے‘ دس پندرہ بدمعاش رکھتا ہے‘ قبضے چھڑاتا اور چوکوں میں جوتے مارتا ہے اور پھر پورے سسٹم کو بلیک میل کر لیتا ہے اور یوں یہ پارٹیوں کی مجبوری بھی بن جاتا ہے اور حکومت کی بھی‘ یہ شخص جب وزیر بنتا ہے تو اس کے بعد ملک مزید دس بیس قدم پیچھے چلا جاتا ہے‘ ہم آخر کب تک یہ تجربہ کرتے رہیں گے؟ ہمیں اس پر غور بھی کرنا ہو گا اور کوئی عملی قدم بھی اٹھانا ہو گا‘ میاں نواز شریف کو یہ نقطہ بھی سمجھنا ہو گا۔
ہمارے ملک کا دوسرا بڑا اور اہم ایشو سوشل میڈیا ہے‘ یہ حقیقتاً ایک انقلاب ہے اور اس انقلاب کے بغیر اب کوئی سیاسی جماعت چل سکتی ہے اور نہ ملک‘ عمران خان کی ساری طاقت اور ملک کی ساری کم زوری سوشل میڈیا ہے اور ہم اب تک اس کا کوئی توڑ نہیں نکال سکے‘ اس کا توڑ ممکن بھی نہیں‘ آپ ٹویٹر بند کر کے اب ملک نہیں چلا سکتے اور اگر آپ یہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو پورے ملک کی بجلی بند کر کے 25 کروڑ لوگوں کو غار کی زندگی میں لے جانا ہوگا جو ظاہر ہے ممکن نہیں۔
اب سوال یہ ہے پھر اس کا حل کیا ہے؟ ایک ہی حل ہے تمام سیاسی جماعتوں اور ریاست کو اس انقلاب کو سمجھ کر اس کا مثبت استعمال سیکھنا ہو گا‘ سوشل میڈیا روایتی صحافت کو نگل چکا ہے‘ اس نے آج اپنے ہیرو‘ اپنے اینکرز اور اپنے ولن تخلیق کر لیے ہیں اور یہ صرف عوام کے ذہنوں میں نہیں بلکہ ذہنوں کی نسوں میں بھی اتر چکا ہے‘ اس کا اگلا قدم آن لائین سیاسی جماعتیں یا پریشر گروپس ہو گا‘ اس نے جس دن آن لائین سیاسی جماعتیں بنانا شروع کر دیں یا مختلف ایشوز پر پریشر گروپس بنا لیے تو یہ ہمارے کم زور سسٹم کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکے گا۔
ہم ابھی ملک میں روایتی الیکشن کراتے ہیں جس دن یہ آن لائین یا مشینی ہو گئے اس دن ملک کی ساری روایتی سیاسی جماعتیں دم توڑ جائیں گی چناں چہ اب اگر سیاسی جماعتوں نے سیاست کرنی ہے تو پھر انھیں سوشل میڈیا کالج بھی بنانا ہوں گے اور سائبر یونٹس بھی‘ ریاست کو بھی روایتی فوج کے ساتھ ساتھ ’’سائبر آرمی‘‘ بنانی چاہیے‘ چین میں اس وقت 7 لاکھ سائبر آرمی ہے‘ یہ جوان دن رات اپنی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔
آپ چین میں کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ملکی سلامتی کے خلاف کوئی پیج کھول کر دکھا دیں‘ آپ کی آنکھوں کے سامنے وہ پیج غائب ہو جائے گا‘ آپ ملک کے خلاف کوئی پوسٹ بھی کر کے دیکھیں‘ وہ پوسٹ ہی غائب ہو جائے گی جب کہ ہم نے پورا ملک سائبر یلغار کے لیے کھلا چھوڑ رکھا ہے‘ ہمارے الیکشن پر پوری دنیا تبصرے کر رہی ہے اور ہم انھیں روک نہیں پا رہے‘ ہمارے پاس اس کا صرف ایک ہی آپشن ہے۔
ہم عمران ریاض اور اسد طور کو گرفتار کر لیتے ہیں‘ کیا یہ واحد حل ہے؟ جی نہیں‘ ہمیں اپنی سائبر آرمی بنانا ہو گی اور اس کے ذریعے ریاست مخالف بیانیہ روکنا ہوگا ‘دوسری صورت میں آپ کتنے لوگوں کو گرفتار کر لیں گے اور سوشل میڈیا کو کتنا عرصہ بند رکھ لیں گے چناں چہ ریاست اور سیاسی جماعتوں کو اس پر بھی توجہ دینا ہو گی ورنہ ریاست اور سیاسی جماعتیں دونوں فارغ ہو جائیں گی۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔