bol ne pemra ke ehkamaat hawa mein uradiye

عمران خان سے بدتمیزی، بول نیوزکا رپورٹر معطل، انکوائری شروع۔۔

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ و بلوچستان کے ایک سینئر وکیل، عبدالرزاق شر کے بہیمانہ قتل کے مقدمہ کے نامزد ملزم عمران خان کی سپریم کورٹ میں آمد پر ایک صحافی کی جانب سے ان سے سخت سوال کی پاداش میں سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہوجانے کے بعد بول نیوز نے انتظامیہ نے اپنے رپورٹر طیب بلوچ کو معطل کرتے ہوئے انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا اور معاملہ کی انکوائری شروع کردی ہے۔۔صحافی نے عمران سے سوال کیا تھا کہ سانحہ نو مئی پر کبھی آپ کو شرم محسوس ہوئی ہے؟عمران نے کندھے اچکا کر کہا کہ ’’نہیں‘‘ رپورٹر نے کہا کہ آپ تو بڑے ڈھیٹ ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں حاضری کے موقع پر کمرہ عدالت میں صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نگران وزیراعظم بنانے سے متعلق ایک  سوال پر کہا کہ اس سے بڑا مذاق ہوہی نہیں سکتا۔ایک صحافی نے ان سے سوال کیا آپ نامزد جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کتنے پر امید ہیں؟ تو انہوں نے کچھ لمحوں کے توقف کے بعد بس اتنا کہا کہ ’’دیکھیں کیا ہوتا ہے‘‘ ایک صحافی نے کہا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق واضح موقف رکھتے ہیں تو چیئرمین پی ٹی آئی نے خاموش رہتے ہوئے محض اثبات میں سر ہلا دیا۔ابھی سوال و جواب کا سلسلہ جاری تھا کہ پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ کے صدر، اور نجی ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے سینئر رپورٹر طیب بلوچ نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے اب تک جو حرکات کی ہیں (سانحہ نو مئی) ان پر کبھی آپ کو شرم محسوس ہوئی ہے؟ تو انہوں نے کندھے اچکا کر کہا کہ ’’نہیں‘‘ جس پر طیب بلوچ نے کہا کہ آپ تو بڑے ڈھیٹ ہیں، جس پر شور مچ گیا اور ساتھ کھڑے صحافیوں نے بازو سے کھینچ کر طیب کو پیچھے ہٹادیا۔بعد ازاں پریس روم میں طیب بلوچ کو ساتھی صحافیوں کی جانب سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ  بول نیوز کی  انتظامیہ کی جانب سے کی گئی ایک ٹویٹ کے مطابق طیب بلوچ کو معطل کرتے ہوئے انہیں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کردیا گیا اور معاملہ کی انکوائری شروع کردی گئی ہے۔دوسری جانب میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے طیب بلوچ نے کہا کہ  سوال میر ا اپنا تھا، کسی کا ایجنڈا نہیں تھا، صحافی ہوں، صحافی کو حق ہوتا ہے کہ وہ کسی سے کوئی بھی سوال کرسکتا ہے۔ طیب بلوچ نے کہا کہ وہ شہبازشریف، نوازشریف اور دیگر رہنماؤں سے بھی ایسے ہی سوالات کرسکتے ہیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں