تحریر: خورشید ندیم۔۔
عمران خان صاحب نے سلمان رشدی کے دفاع میں ایک لفظ نہیں کہا۔ پھر وہ دفاعی حالت میں کیوں ہیں؟ وہ اُس بات کی تردید کیوں کر رہے ہیں جس میں کچھ قابلِ تردید نہیں؟ اس سوال کا جواب سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان‘ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ کے ایک تبصرے میں موجود ہے جو انہوں نے توہینِ مذہب کے ایک ملزم کی ضمانت قبول کرتے ہوئے کیا۔
خان صاحب نے ایک برطانوی اخبار کو انٹرویو دیا۔ اُن سے سلمان رشدی پر حملے کے بارے میں سوال کیا گیا۔ خان صاحب نے جو جواب دیا‘ وہ اسی حملے کے واقعے پر تھا۔ اس میں سلمان رشدی کی وکالت کی گئی نہ اسے حق بجانب قرار دیا گیا۔ کوئی معقول آدمی اس شخص کی اس نازیبا حرکت کی تائید نہیں کر سکتا۔ عمران خان صاحب نے بھی کبھی نہیں کی۔ اس کے باوجود‘ خان صاحب پر اتنا دباؤ پڑا کہ انہوں نے اخبار میں بیان کی گئی بات کو رد کرنا ضروری سمجھا۔ جب انہوں نے ایسی بات کہی ہی نہیں تو انہیں اس کی تردید کیوں کرنا پڑی؟ اسی کا جواب معزز جج صاحبان دیتے ہیں۔
یہ توہینِ مذہب کے الزام میں ضمانت کا مقدمہ ہے۔ فاضل عدالت نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ”توہینِ مذہب سے متعلق مقدمات میں ریاست کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہاں پر ہر دوسرا آدمی اُٹھ کر توہینِ مذہب کا الزام لگا دیتا ہے۔ توہینِ مذہب کوئی چھوٹا جرم نہیں۔ اس کی سزا موت ہے۔ توہین ایک شخص کرتا ہے اور ہم بتا بتا کر ساری دنیا میں مشہور کر دیتے ہیں‘‘۔
عدالت میں معزز جج اور وکیل کے درمیان دلچسپ سوال جواب ہوئے۔ جج صاحب نے پوچھا: پاکستان کیوں بنایا گیا؟ وکیل صاحب نے کہا: ”قائداعظم کے مطابق پاکستان اسلام کی تجربہ گاہ ہے‘‘۔ اس پرجج صاحب کا سوال تھا: قائداعظم نے ایسا کب کہا؟ اس کا کوئی جواب وکیل صاحب کے پاس نہیں تھا۔ معزز جج صاحب نے اس پر تبصرہ کیا کہ لوگ قائداعظم سے ایسی باتیں منسوب کرتے رہتے ہیں جو انہوں نے نہیں کہیں۔ آپ وکیل ہیں۔ آپ ایسا نہ کریں۔ انہوں نے قائداعظم کی 11اگست کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ”مذہب کے نام پر بہت تفریق ہوچکی۔ مزید تفریق پیدا نہ کریں‘‘۔
عدالت کی کارروائی ایک آئینہ ہے جس میں ہمیں اپنے معاشرے کی صورت دکھائی دے رہی ہے۔ عمران خان اسی معاشرے میں رہتے ہیں۔ ان کے بیان کو مولانا فضل الرحمن جیسے ذمہ دار آدمی نے جیسے سلمان رشدی کی وکالت قرار دیا‘ وہ قابلِ صد افسوس ہے۔ مخالف کے بیانیات سے‘ سیاسی مفادات کشید کرنے کی روش نئی نہیں۔ لیکن ایک شخصیت جس کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاست میں اسلام کی نمائندہ ہے‘ ہم اس سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرے گی۔ اسلام دوسروں کے بارے میں حسنِ ظن کا مطالبہ کرتا ہے۔ کوئی اس کا لحاظ نہیں رکھ سکتا تو ایک قدم آگے بڑھ کر تہمت بھی نہ لگائے۔
اگر مولانا جیسی سنجیدہ شخصیت کا حال یہ ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام آدمی کا معاملہ کیا ہوگا۔ یہ ہے وہ معاشرتی صورتحال جس کا تذکرہ سپریم کورٹ کے فاضل جج کر رہے ہیں اور جس کی وجہ سے عمران خان ایک ایسی بات کی تردید پر مجبور ہوئے جو کسی طرح توہینِ مذہب کے ذیل میں نہیں آتی۔ عمران خان صاحب نے ہمیشہ سلمان رشدی کی مذمت کی اوراس کے ساتھ بیٹھنے سے بھی انکار کیا۔
یہ ایک تشویش ناک صورتحال کا بیان ہے۔ پاکستان میں مذہب کو سیاست میں جس طرح استعمال کیا گیا‘ اس سے لوگوں کی جان و مال کو خطرات لاحق ہوئے۔ مولانا فضل الرحمن پر تین قاتلانہ حملے ہوئے اور یہ مذہبی بنیاد پر ہوئے۔ حملہ آور ان کے ہم مسلک تھے‘ جن کی تعبیرِ جہاد سے مولانا نے اختلاف کیا تھا۔ مولانا سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ یہ اس پروپیگنڈے کا اثر تھا جس نے‘ ان پر حملہ کرنے والوں کی نظر میں‘ انہیں طاغوت کے ساتھیوں میں شامل کر دیا تھا۔ ان کے معاملے میں دونوں طرف اہلِ مذہب تھے۔ اس کے باوجود حملے کیوں ہوئے؟ سپریم کورٹ اسی کا سبب بیان کر رہی ہے۔
احسن اقبال صاحب پر حملہ بھی اسی لیے ہوا۔ نواز شریف صاحب پر بھی لاہور کے ایک مدرسے میں اسی لیے جوتی پھینکی گئی۔ یہ اسلام کے بارے میں ہمارے رویے کا اظہار ہے جو نظرِ ثانی کا محتاج ہے۔ اسلام اور سیاست کے باہمی تعلق کا مطلب یہ ہے کہ سیاست ان اخلاقیات کے تابع ہو جائے جو مذہب سکھاتاہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ لوگوں کو مذہب دشمن ثابت کر تے ہوئے‘ ان کی جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرات میں ڈال دیا جائے۔
مذہبی معاملات میں پُر جوش بعض صحافی حضرات نے بھی عمران خان کو اس انٹرویو پر مطعون کیا۔ عمران خان اس دباؤ کا سامنا نہ کر سکے اور انہوں نے ایک روایتی بیان جاری کر دیا کہ ”ان کے موقف کو غلط طور پر پیش کیا گیا‘‘۔ اس معاشرتی صورتحال کے پیشِ نظر ان کو یہی مشورہ دیا گیا ہوگا کہ وہ اس معاملے سے جان چھڑا ئیں ورنہ خود ان کی جان خطرات میں گھر جائے گی۔
مسلمان کا مسلمان پر یہ حق ہے کہ وہ اس کے بارے میں خوش گمان رہے الّا یہ کہ دوسری رائے کے لیے اس کے پاس کو ئی دلیل موجود ہو۔ دینی معاملات میں تو بطورِ خاص اس کے اہتمام کی ضرورت ہے۔ اُم المومنین سیدہ عائشہ ؓ پر جب تہمت لگی تو اس پر قرآن مجید کا تبصرہ یہ ہے کہ اس کو سن کر مسلمانوں نے یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ تو بہتانِ عظیم ہے۔ گویا ام المومنین کے بارے میں حسنِ ظن کا یہ تقاضا تھا کہ ایسی افواہوں پر کان ہی نہ دھرا جائے جو ایسی عظیم الشان ہستی کے مقام سے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں۔ ایک مسلمان کے بارے میں یہ کبھی گمان نہیں کرنا چاہیے کہ وہ مذہب یا کسی محترم مذہبی شخصیت کے احترام کے بارے میں حساس نہیں ہوگا۔ غیرمسلم کے بارے میں بھی تحقیق لازم ہے۔ سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر ہم کوئی الزام نہیں دھر سکتے۔
پاکستان کو مذہبی طور پر ایک روادار معاشرہ بنانا ہے تو توہینِ مذہب کے نام پر سیاست ہونی چاہیے نہ سماج ہی میں ایسے رویوں کی تائید کرنی چاہیے۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں‘ پیپلز پارٹی اور نون لیگ اس باب میں محتاط ہیں۔ عمران خان صاحب البتہ تواتر کے ساتھ مذہبی کارڈ استعمال کر رہے ہیں اور مولانا فضل الرحمن بھی۔ مولانا کی مجبوری ہے کہ ان کے پاس یہی کارڈ ہے؛ تاہم ان سے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ کم ازکم اس کے سوئے استعمال سے گریز کریں گے۔ عمران خان کی سیاست پر کہنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ ان پر کم ازکم یہ تہمت نہیں لگانی چاہیے۔
عمران خان صاحب کو بھی مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ خود کو خدا کا نمائندہ بنا کر نہ پیش کریں جس کا ساتھ دینا عوام کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں جس کسی نے مذہبی کارڈ استعمال کیا ہے‘ ایک دن وہ خود اس کا ہدف بنا ہے۔ سیدنا محمدﷺ اس زمین پر خدا کے آخری نمائندے تھے۔ ان کے بعد کوئی یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اس بنیاد پر لوگوں سے اپنی حمایت کا تقاضا کرے کہ وہ کوئی مبعوث من اللہ شخصیت ہے۔ ان رویوں کا خاتمہ اسی دن ہوگا جب ہم مذہب کے نام پر سیاست سے توبہ کریں گے۔ مذہبی سیاست اور مذہب کے نام پر سیاست کا فرق میں واضح کر چکا۔(بشکریہ دنیانیوز)