تحریر: جاوید چودھری۔۔
ہمارے ایک بزرگ صحافی تھے ارشاد احمد حقانی‘ پاکستان میں آج تک کوئی صحافی ان سے اچھا سیاسی کالم نہیں لکھ سکا‘ حقانی صاحب نے طویل عمر پائی‘ یہ 81سال کی عمر میں2010ء میں انتقال فرما گئے‘ مرحوم بے شمار خوبیوں کے مالک تھے بس ان میں ایک خامی تھی‘ یہ عمر کے آخری حصے میں نرگسیت کا شکار ہو گئے تھے اور یہ اپنے کالم میں اپنے پرانے کالموں کے ٹکڑے جوڑ کر بار بار لکھتے رہتے تھے ’’یہ دیکھ لیجیے میں نے فلاں تاریخ کو کیا لکھا تھا‘‘ یہ ’’حرکت‘‘ اگر کبھی کبھار ہو تویہ بری نہیں لگتی لیکن یہ اگر مسلسل ہونے لگے تو پڑھنے والے بور ہو جاتے ہیں۔
چناں چہ حقانی صاحب کے قارئین بور ہو گئے اور یہ بڑی تیزی سے پس منظر میں غائب ہوتے چلے گئے‘ میں نے ان کا حشر دیکھ کر فیصلہ کیا تھا میں کبھی ’’میں نہ کہتا تھا‘‘ نہیں لکھوں گا مگر کل میرے ایک ریڈر نے میرا 2011 کا ایک سیاسی کالم مجھے بھجوایا اور حکم دیا آپ یہ کالم ضرور دوبارہ شایع کریں۔ تاکہ لوگوں کو علم ہو سکے آپ نے آج سے 8 سال پہلے جو کہا تھا وہ وقت کے ساتھ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا‘ میں نے اپنا پرانا کالم پڑھا اور میں بھی نرگسیت کا شکار ہو گیا اور میں نے سوچا ایک آدھ بار ارشاد احمد حقانی بننے میں کوئی حرج نہیں چناں چہ میں اپنا 15 نومبر 2011ء کا یہ کالم ’’ری پرنٹ‘‘ کر رہا ہوں‘ یہ کالم عمران خان کے 30 اکتوبر 2011ء کے مشہور جلسے کے صرف 16دن بعد شایع ہوا تھا‘ مجھے یقین ہے آپ یہ پڑھ کر جان لیں گے عمران خان کے بارے میں میری رائے آج نہیں بنی‘ یہ آٹھ دس سال پرانی ہے‘ یہ تسلسل کے ساتھ چل رہی ہے اور نتائج بھی توقع کے مطابق نکل رہے ہیں۔
کالم کا عنوان ’’عمران خان کے ہاتھی‘‘ تھا اور میں نے اس میں عرض کیا تھا ’’میں عمران خان کی تین خوبیوں کے باعث ان کا مداح تھا اور شاید اب تک ہوں‘ عمران خان کی پہلی خوبی مستقل مزاجی ہے‘ یہ ڈٹ جاتے ہیں‘ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں یہ ’’ گیو اپ‘‘ نہیں کرتے‘ یہ منا بھائی کی طرح لگے رہتے ہیں‘ یہ کرکٹر تھے تو یہ اس وقت تک کھیلتے رہے جب تک پاکستان ورلڈ چیمپیئن نہیں بن گیا‘ شوکت خانم کینسر اسپتال شروع کیا تو اسے مکمل کر کے دم لیا اور یہ سیاست میں آئے تو یہ 15 سال سے وکٹ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
س دوران پاکستان مسلم لیگ ن سے لے کر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی سے لے کر پاکستان مسلم لیگ ق‘ ایم کیو ایم اور جنرل پرویز مشرف تک تمام سیاسی قوتوں نے عمران خان کو کلین بولڈ کرنے کی کوشش کی لیکن عمران خان پچ پر ڈٹے رہے‘ مخالفین نے ان 15 سالوں میں عمران خان پر کردار کشی کے کئی باؤنسر بھی پھینکے لیکن سیتا وائٹ ہو یا پھر یہودی خاندان میں شادی کا ایشو ہو عمران خان نے کسی پروپیگنڈے کا اثر نہیں لیا‘ یہ سیاست کی پر خار وادی میں تنہا لڑتے رہے‘ عمران خان کی دوسری خوبی حوصلہ ہے‘ یہ بڑے سے بڑا جذباتی وار سہہ جاتے ہیں۔
انسان مالی‘ جسمانی اور سماجی حادثے برداشت کر لیتا ہے لیکن جذباتی حادثے برداشت کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی‘ لوگ قریبی دوستوں کی بے وفائی‘ محبت کرنے والی ہستیوں کی جدائی اور بیویوں اور خاوندوں کی علیحدگی برداشت نہیں کر پاتے‘ میں نے بڑے بڑے لوگوں کو جذباتی حادثوں میں ٹوٹتے اور ٹوٹ کر بکھرتے دیکھا ہے‘ قائد اعظم کے دوستوں نے انھیں کبھی روتے نہیں دیکھا تھا لیکن جب1927ء میں ان کی اہلیہ رتی جناح ان سے الگ ہوئیں اور بعد ازاں 1929ء میں ان کا انتقال ہوا توقائداعظم جیسا شخص بھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا‘ عمران خان میں جذباتی حادثے سہنے کا حوصلہ بھی ہے۔
یہ دوستوں کی بے وفائی اور جمائمہ خان سے علیحدگی کے بعد بھی اپنی بنیادوں پر کھڑے رہے‘ میں اس حوصلے کی وجہ سے بھی ان کی عزت کرتا ہوں اور عمران خان کی تیسری خوبی ان کا پر امید ہونا ہے‘ یہ مایوس نہیں ہوتے‘ ورلڈ چیمپیئن بننا‘ کینسر اسپتال اور سیاست تینوں ناممکن کام تھے لیکن یہ عمران خان کی امید تھی جس کی وجہ سے یہ ان تینوں ناممکن کاموں میں کام یاب ہوتے چلے گئے‘ انھوں نے اس وقت بھی امید کا دامن نہیں چھوڑا جب پوری دنیا کے مبصرین کہہ رہے تھے پاکستان سیمی فائنل سے باہر ہو جائے گا۔
نھوں نے اس وقت بھی امید کا ساتھ نہ چھوڑا جب دنیا جہاں کے ڈاکٹروں کا خیال تھا پاکستان میں کینسر اسپتال نہیں بن سکتا اور یہ اس وقت بھی پر امید رہے جب لوگوں کا خیال تھا تحریک انصاف ایک سے زیادہ سیٹ حاصل نہیں کر سکے گی۔میں ان تینوں خوبیوں کی وجہ سے عمران خان کا مداح تھا اور شاید اب بھی ہوں لیکن ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ عمران خان میں چند ایسی خامیاں بھی ہیں جن کی وجہ سے عمران خان سیاست میں آج تک کام یاب نہیں ہو سکے اور اگر پاکستانی اور انٹرنیشنل سیٹلمنٹ نے کھل کر ان کا ساتھ نہ دیا تو شاید یہ ان خامیوں کی وجہ سے کبھی کام یاب نہ ہو سکیں۔
ان کی پہلی خامی غلط لوگوں کا انتخاب ہے‘ یہ ہمیشہ غلط لوگوں کو منتخب کرتے ہیں‘ یہ غلط لوگ بہت جلد ان کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں اور ان لوگوں کی وجہ سے اچھے لوگ عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں‘ ان کی دوسری خامی غرور یا ایروگینس ہے‘ عمران خان میں عاجزی نہیں ‘ یہ لوگوں سے فاصلے پر رہتے ہیں‘ یہ ان میں گھلتے ملتے نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ مغرور سمجھے جاتے ہیں اور ان کی تیسری خامی مینجمنٹ کی کمی ہے‘ یہ اچھے منیجر نہیں ہیں‘ آپ صرف شوکت خانم کینسر اسپتال کو لے لیجیے۔
یہ اسپتال 29دسمبر 1994ء کو بنا‘ عمران خان آج تک اس کے لیے چندہ جمع کر رہے ہیں‘ یہ اگر اچھے منیجر ہوتے تو انھیں 17 سال بعد اسپتال کے لیے چندہ جمع نہ کرنا پڑتا‘ یہ اسپتال مریضوں کا مفت علاج بھی کرتا اور اپنا مالی بوجھ بھی خود اٹھا لیتا‘ دنیا میں ایسی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں‘ لوگ اسپتال‘ ڈسپنسریاں اور تعلیمی ادارے بناتے ہیں‘ ان کو چلانے کے لیے ٹرسٹ بناتے ہیں‘ یہ ٹرسٹ کاروباری ادارے بناتے ہیں اور ان اداروں کی آمدنی سے فلاح و بہبود کے یہ ادارے چلتے ہیں‘ میرے ایک دوست کہا کرتے ہیں عمران خان نے جس دن چندے کے بغیر اسپتال چلا لیا میں اس دن سمجھ لوں گا یہ پورا ملک چلا سکتے ہیں۔
عمران خان کی چوتھی خامی ان کا سطحی علم ہے‘ ان میں گہرائی نہیں‘ ان کی سیاست چند فقروں اور چند نعروں پر چل رہی ہے‘ یہ گہرائی میں جا کر مسائل کا تجزیہ کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کا حل تلاش کرسکتے ہیں چناںچہ مجھے خطرہ ہے یہ اگر اقتدار میں آ گئے تو یہ اپنا سارا وقت مسائل کا حل تلاش کرنے میں ضایع کر دیں گے اور ان کی پانچویں خامی خوش فہمی ہے‘ یہ بہت جلد خوش فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں‘ یہ 25 اپریل 1996ء کو سیاست میں آنے کے دن سے خود کو وزیراعظم سمجھ رہے ہیں اور یہ رویہ غلط ہے‘‘۔
میں نے مزید عرض کیا ’’ مگر میں ان تمام خامیوں کے باوجود عمران خان کا مداح ہوں اور میں سمجھتا ہوں عمران خان اس ملک میں تبدیلی لا سکتے ہیں‘ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ تبدیلی کی خواہش ہے‘ عوام موجودہ سیاسی جماعتوں اور سیاسی قیادتوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔
یہ اب کسی تیسرے آپشن کی تلاش میں ہیں اور عمران خان تیسرا آپشن بن سکتے ہیں‘ دوسری وجہ یوتھ کا عمران خان پر اعتماد ہے‘ اس ملک کی 35 فیصد آبادی جوانوں پر مشتمل ہے اور ہم اگر چالیس سال تک کے لوگوں کو بھی ان میں شامل کر لیں تو نوجوان آبادی کا 65 فیصد حصہ بن جاتے ہیں‘ یہ65 فیصد نوجوان عمران خان کو پسند کرتے ہیں‘ 30 اکتوبر2011ء کے جلسے میں ان لوگوں نے عمران خان پر اعتماد کا اظہار بھی کیا لہٰذا عمران خان کی شکل میں تبدیلی کا امکان موجود ہے لیکن مجھے اس جلسے کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت میں ایک منفی رجحان دکھائی دے رہا ہے اور مجھے خطرہ ہے اگر عمران خان فوراً نہ سنبھلے تو شاید ان کی منزل مزید دور ہو جائے‘ عمران خان کی 90 فیصد سیاست میڈیا پر بیس کرتی ہے‘ پارلیمنٹ میں عمران خان کا ایک بھی نمایندہ نہیں۔
ان کے تمام امیدوار ضمنی الیکشنز میں بھی ہار گئے لیکن اس کے باوجود میڈیا عمران خان اور ان کی جماعت کو سپورٹ کررہا ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان ٹی وی پروگراموں میں عمران خان کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے مگر میڈیا اس کے باوجود عمران خان کو فوقیت دیتا رہا لیکن30 اکتوبر2011ء کے بعد اسی میڈیا کے ساتھ تحریک انصاف کا رویہ تبدیل ہو گیا‘ عمران خان کا فون بند رہتا ہے اور ان کے میڈیا منیجرز صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں۔
مجھے یوں محسوس ہوتا ہے عمران خان ناسمجھ اور بے وقوف لوگوں میں پھنس چکے ہیں یا پھر عمران خان کے مخالفین نے اپنے لوگ ان کی جماعت میں داخل کر دیے ہیں‘ عمران خان ان لوگوں کے گھیرے میں آ گئے ہیں اور یہ لوگ جان بوجھ کر میڈیا کو عمران خان کے خلاف کر رہے ہیں تا کہ عمران خان میڈیا کی سپورٹ سے محروم ہو جائیں‘ عمران خان کو اپنے اور اپنے ساتھیوں کے اس رویے پر فوراً توجہ دینی چاہیے کیوںکہ کہیں ایسا نہ ہو جائے یہ چند بے وقوف ہاتھی عمران خان کے اپنے لشکر کو روند ڈالیں چناںچہ عمران خان اور ان کی جماعت کو جلد سے جلد بے وقوفوں کی جنت سے باہر آ جانا چاہیے ورنہ خان صاحب ایک اور گریٹ ٹریجڈی کا شکار ہو جائیں گے‘‘کالم ختم۔
یہ کالم آٹھ سال پرانا ہے‘ آپ ملاحظہ کیجیے کیا آٹھ برسوں نے میری رائے سچ ثابت نہیں کر دی؟ جواب ہاں ہے یا ناں میں یہ فیصلہ بہرحال آپ پر چھوڑتا ہوں۔(بشکریہ ایکسپریس)