تحریر: علی حسن ۔۔
عمران خان حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی متنازعہ کامیابی کے بعد تحریک انصاف نے اپنے آراکین قومی اسمبلی سے احتجاج میں استعفی دلا دئے تھے ۔ نئی حکومت کے قائد ایوان شہباز شریف مقرر ہوئے اور قومی اسمبلی کے اسپیکر پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف مقرر کئے گئے۔ اسپیکر اور حکومت نے استعفی منظور کرنے میں تاخیری حربے استعمال کئے اور دو ماہ بعد صرف نو اراکین کے استعفی منظور کئے گئے۔ صوبائی اسمبلی پنجاب کے لئے ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار وں کی کامیابی کے بعد تحریک انصاف کا حوصلہ بلند ہوا اور گیارہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کا حوصلہ پست ہوا تھا ۔ لیکن پی ڈی ایم حکومت میں ہے اس لئے اس کے اختیارات میں بہت ساری چیزیں ہیں۔ جن نشستوں پر تحر یک انصاف کے آراکین کے استعفی منظور ہوئے اور الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا تو عمران خان کا اعلان اچانک سامنے آیا کہ وہ بذات خود نو کی نو نشستوں پر انتخاب لڑیں گے۔ یہ ایک طرح سے ایسا چیلنج ہے جس نے سیاسی حلقوں میں بھونچال پیدا کر دیا ہے۔ خود عمران خان کے حامی بھی ملی جلی کیفیت کا شکار ہیں۔ کوئی اسے ان کی جانب سے بڑا جوا قرار دیتا ہے، کوئی اسے اعتماد کی بلند کیفیت قرار دیتا ہے۔ عمران خان ان کے خلاف تمام حربوں اور پروپگنڈہ کے بعد مقبولیت کے گھوڑے پر اونچی اڑان آڑ رہے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں ہے کہ انہیں امیدوار دست یاب نہیں ہیں اور یقیننا اپنے کوورنگ امیدوار بھی نامزد کریں گے ۔ انہوں نے ان کے مخالفین کو ایسا چلینج دیا ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے مخالفین کو کئی بار سوچنا ہوگا۔ عمران خان مخالف جو بھی امیدوار ان کے مقابلہ میں کامیاب ہوگا وہ حکومتی حلقوں میں ”فاتح عمران خان “ کہلائے گا۔ صوبہ کے پی کے ہو یا پنجاب، یا سندھ نو نشستیں ان ہی صوبوں میں ہیں۔ جہاں ضمنی انتخابات اعلان شدہ شیڈول کے مطابق آئندہ ماہ 25 ستمبر کو ہونا ہیں۔ یہ بھی قیاس ہے کہ عمران خان الیکشن کمیشن کا ردعمل بھی دکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ بھی دیکھنا چاہتے ہوں گے کہ تمام نو کے نو حلقوں میں ان کی کامیابی کے بعد حکومت کس حد تک دباﺅ میں آتی ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کرتی ہے یا نہیں؟
قومی اسمبلی کے جن 9 حلقوں میں 25 ستمبر کو ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں، جن پر زیادہ سے زیادہ 90 کروڑ کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے ۔ عمران 9 حلقوں سے الیکشن جیتے تو 8 پر دوبارہ ضمنی انتخابات میں 50 سے 90 کروڑ کے اخراجات آئینگے۔عمران خان کی کامیابی کی صورت میں ان حلقوں میں دوبارہ ضمنی الیکشن ہوگا۔ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی ایک حلقے میں الیکشن کے اخراجات کا کم از کم تخمینہ 5سے 10 کروڑ روپے ہے، اس طرح 9 حلقوں پر 50سے 90 کروڑ روپے خرچ ہوسکتے ہیں۔ عمران خان کے تمام 9حلقوں سے کامیابی کی صورت میں انہیں 8حلقوں کو چھوڑ کر ایک کا انتخاب کرنا ہوگا جبکہ وہ میانوالی کی نشست سے پہلے ہی رکن قومی اسمبلی تھے جس سے انہوں نے استعفی دے دیا ہے جو قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں پڑا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن کا اندازہ ہے کہ عمران خان کے الیکشن جیتنے کی صورت میں قومی اسمبلی 9حلقوں پر دوبارہ ضمنی الیکشن کرانے ہوں گے اور اس صورت میں ایک مرتبہ پھر الیکشن پر اخراجات کو تخمینہ 50 سے 90کروڑ روپے تک ہوں گے۔
سن ستر میں کرائے جانے والے عام انتخابات میں اس وقت کے سابق مغربی پاکستان میں پی پی کے رہنماءذوالفقار علی بھٹو نے مجبوری میں پانچ حلقوں سے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ ان حلقوں میں لاڑکانہ، بدین، ٹھٹہ، لاہور، اور ڈیرہ اسماعیل خان شامل تھے۔ مجبوری یہ تھی کہ پی پی کو مقابلہ کرنے والے امیدوار نہیں مل رہے تھے ۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں مفتی محمود کا مقابلہ کرنا بظاہر مشکل تھا۔ کوئی تیار نہیں تھا اس لئے بھٹو خود امیدوار بنے تھے اور وہ واحد حلقہ تھا جہاں سے انہیں ناکامی ہوئی تھی۔ ایسے ہی حالات ٹھٹہ، بدین اور لاہور میں تھے ۔ محمود علی قصوری جیسے زیرک سیاست دان کو یقین ہی نہیں تھا کہ پیپلز پارٹی انتخابات میں بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کر سکے گی۔ اس کے برعکس سابق مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان نے صرف ایک ہی حلقہ سے انتخاب میں حصہ لیا تھا ۔ انہیں اپنی مقبولیت کا اندازہ تھا اور ان کے پاس امیدوار بھی تھوک کے حوالے سے موجود تھے۔
سندھ میں بھی 1988میں ایسا موقع آیا تھا کہ جب پی پی کی سربراہ مرحومہ بے نظیر بھٹو عام انتخابات میں کتنے ہی حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیتیں تو کامیابی ان کے قدم چومتی۔ اسی طرح ایم کی ایم کے قائد الطاف حسین بھی کراچی اور ان کے زیر اثر علاقوں میں کہیں سے بھی یا تمام حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیتے تو کامیاب ہو جاتے۔ لیکن الطاف حسین نے یہ فیصلہ کیا ہوا تھا کہ وہ انتخابات میں بذات خود حصہ نہیں لیں گے اور انہوں نے کسی بھی انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔ ان کی جماعت ایم کیوایم نے یہ کرشمہ البتہ ضرور دکھایا تھا کہ کراچی، حیدرآباد یا دیگر علاقوں میں ایسے امیدواروں کو نامزد کیا گیا تھا جن کی مالی حالت غیر مستحکم تھی اور وہ کسی طور پر بھی عوام میں مقبول نہیں کہلائے جا سکتے تھے۔ وہ تو صرف انتخابی نشان پتنگ کی بنیاد پر انتخابات میں حصہ لے کر کامیاب ہو ئے تھے۔
سیاست میں بظاہر انتخابات ہی ایک ایسا پیمانہ تصور کئے جاتے ہیں کہ امیدوار یا اسے نامزد کرنے والی سیاسی جماعت کس حد تک مقبول ہے۔ ملک میں ایسے بھی سیاسی رہنماﺅں کی مقبولیت کا خال ہے۔ بظاہر 1988 کے بعد عمران خان پہلے سیاست داں ابھرے ہیں جنہیں مقبولیت حاصل رہی اور ان کے حکومت کے خاتمہ کے بعد اس میں اضافہ ہی ہوا۔ عام لوگ اپنے مسائل کی وجہ سے اس حد تک بےزار ہو گئے ہیں کہ انہیں جس طرف سے بھی امید کی کرن نظر آتی ہے وہ اسی طرف چل نکلتے ہیں۔ عوام کی اکثریت سیاست دانوں کے ہاتھوں بے حال ہو گئے ہیں۔ جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاءکے دور میں جماعت اسلامی سے جو سیاسی غلطی ہوئی تھی کہ اس نے ان کی اعلان کردی کابینہ میں شمولیےت اختیار کر لی تھی، لیکن اس کے بعد جماعت کی سیاست گہنا سی گئی اور وہ اب تک پنپ نہیں سکی ہے۔ ہر جتن کے باوجود کسی بھی انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ ایسا ہی کچھ پی ڈی ایم کی جماعتوں خصوصا ن لیگ کے ساتھ پنجاب میں ہوتا نظر آتا ہے۔ ن لیگ کو عمران خان کی حکومت کے دوران خاصی مقبولیت حاصل ہوئی تھی، خصوصا مریم نواز کے جارحانہ سیاسی بیانات نے ن لیگ کو پنجاب کے عوام میں مقبولیت کا درجہ سے دے دیا تھا اور بقول شخصے کھمبے کو بھی منتخب کرایا جا سکتا تھا لیکن عمران حکومت کے خاتمہ کے بعد حکومت میں ن لیگ کی شمولیت کی وجہ سے اس کی مقبولیت کو دھچکا پہنچا ہے۔ کس کی غلطی ہے یا کسی کی سیاسی چال ، اس پر تو مولانا فضل الرحمان، نواز شریف اور آصف علی زرداری ہی روشنی ڈال سکتے ہیں۔ (علی حسن)