imran khan ka naam channels par nashar karne par koi pabandi nahi

عمران خان نے کئی صحافیوں کی فائلیں کھلوائیں۔۔

خصوصی رپورٹ۔۔

جیو نیوز کے پروگرام جرگہ میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے میزبان سلیم صافی نےکہا ہے کہ ریاست کیلئے ضروری ہے کہ ایک معتبر میڈیا ہو، میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں طلعت حسین، عاصمہ شیرازی، فہد حسین اور شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ عمران پیسے لینے والے میڈیا ہائوسز کے نام سامنے لائیں، الزام لگانے کی روش تحریک انصاف کی نئی نہیں ، عمران خان جانتے ہیں انہیں میڈیا کو کس طرح بدنام کرنا ہے۔۔انہوں نے تحقیقات کیں بشمول ہم چاروں کے لمبی لسٹ ہے انہیں کچھ نہیں ملا اور یہ جانتے ہیں حقائق کیا ہیں صدر پی ایف یو جے شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ ہم نے تین رکنی کمیٹی بنا دی ہے مہربانی کرکے جو ثبوت ان کے پاس ہیں لے آئیں۔پروگرام کے آغاز میں میزبان سلیم صافی نے کہا کہ عمران خان کے حامی اور مخالف سب اس بات پر متفق تھے کہ اگر کسی لیڈر کو لیڈر بنانے اور وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچانے میں میڈیا نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے تو وہ خود عمران خان تھے اور وزیراعظم بننے سے پہلے وہ میڈیا کی تعریفیں کرتے تھے لیکن پھر تبدیلی آئی اور عمران خان کی میڈیا سے متعلق سوچ بدل گئی اور میری صحافتی زندگی میں میڈیا کیلئے مشکل ترین دور عمران خان کا تھا۔اس دوران صحافت کے جو معتبر اور بڑے نام تھے ان کو اسکرین اور اخبار کے صفحات سے آؤٹ کرنے کی کوشش کی گئی جو اسکرین پر موجود رہے ان پر بھی قدغن لگائی گئی اور پھر پیکا جیسے بدنام زمانہ قوانین کے ذریعے بھی صحافیوں کی زباں بندی کی کوشش کی گئی۔

 اس دوران میڈیا پر اگر کسی حکومت نے یا کسی پارٹی نے سب سے زیادہ پیسہ خرچ کیا وہ اعزاز بھی پی ٹی آئی کو جاتا ہے جب وہ اقتدار سے محروم ہوئے تو میڈیا سے متعلق ایک نیا موقف اپنانا شروع کیا۔ کسی سے پیسہ لینا صحافی کیلئے بے شرمی، بے غیرتی اور پیشہ ورانہ بددیانتی ہے لیکن یہاں پر الزام اُس سے بھی سنگین ہوگیا ہے کہ بیرون ملک سے پیسہ لے رہے ہیں اور ظاہر ہے یہ ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے اب جو بھی اس جرم کا مرتکب ہوا ہو وہ سنگین سزا کا مرتکب ہے، عمران خان آرگنائزیشن کا نام بتا رہے ہیں نہ افراد کا۔میڈیا میں کالی بھیڑیں بھی ہیں چینلز پوری طرح استعمال ہوتے ہیں مخصوص مقاصد کیلئے، اداروں کیلئے پارٹیوں کیلئے پھر ہمارے ہاں ایسے اینکرز اور لوگ بھی ہیں جو دنوں کے اندر ارب پتی کھرب پتی بن گئے ہیں سوسائٹی کی نظروں میں بھی وہ ساکھ میڈیا کی نہیں رہی ہے، میڈیا کے اندر گڑ بڑ تو ہے تب ہی عمران خان الزام لگا رہے ہیں۔ریاست کیلئے ضروری ہے کہ ایک معتبر میڈیا ہو اور عوام کو سچ جھوٹ جاننے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ تو ہو۔ تجزیہ کار طلعت حسین کا کہنا تھا کہ میڈیا ہاؤسز کو پیسے دے کر خریدنا یا صحافیوں کو پیسے پر رکھنا یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔

میڈیا ہاؤسز کے پراجیکٹ چل سکتے ہیں جس کے اندر فارن فنڈنگ ہوسکتی ہے اور اس میں باقاعدہ اسکروٹنی ہوتی ہے اور وہ ایک نظام سے اپروو ہوکر ہوتی ہے دوسرا یہ کہ جو مالکان ہیں ان کے ساتھ بھی تعلق بنا سکتے ہیں ان کے خاندان کو پیسہ جائیدادیں دے سکتے ہیں اس کے تعین کرنے کا آسان طریقہ ہے آپ ٹیکس ریٹرن دیکھ لیں اثاثوں کو دیکھ لیں یہ ایف بی آر کا کیس ہے۔ایف بی آر حقائق پر مبنی تحقیق کرانی چاہئے لیکن چونکہ اس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے اور وہ جان بوجھ کر نام نہیں لیتے اُن کا کام ہے تہمت تراشنا اور یہ ان کا طریقہ صرف میڈیا سے متعلق نہیں ہے بلکہ تمام وہ لوگ جو ان کے مفادات کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں ان پر وہ یہی قدغن اور تہمت لگاتے ہیں۔اگر کسی کے پاس نام ہیں تو اجرا کرے اور اگر میڈیا ہاؤسز پیسے لے رہے ہیں تو نام سامنے لے کر آئیں لیکن ایسا ہوگا نہیں۔ ایک چھپی ہوئی اسٹوری میں لکھا ہوا واضح اشارے موجود ہیں کہ کن کن صحافیوں کی انہوں نے تحقیقات کیں بشمول ہم چاروں کے لمبی لسٹ ہے انہیں کچھ نہیں ملا اور یہ جانتے ہیں حقائق کیا ہیں۔

عمران خان سینٹر آف گریوٹی کو ہٹ کرتے ہیں میڈیا کو ہٹ کرنا ہے تو آٹھ دس جو سینٹر آف گریوٹی ہیں ان کو ڈی مولیش کردیں تو سارا میڈیا دھڑام سے گر جائے گا۔یہ جتنا بیانیہ وہ جس انداز سے چلا رہے ہیں اس کی 2014 سے ریاست کے اداروں نے اُن کی تربیت کی ہے ریاست کے اداروں سے انہوں نے سیکھا ہے وہ لوگ ابھی بھی موجود ہیں کچھ ریٹائر ہوگئے ہیں اس سوال پر کہ ریاست کے لئے ضروری ہے کہ ایک معتبر میڈیا ہو اور عوام کو سچ جھوٹ جاننے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ تو ہو اس کے جواب میں طلعت حسین نے کہا کہ میڈیا میں جو خرابی ہے وہ صرف پاکستان میں نہیں ہے دنیا بھر میں آپ کو بہت سنجیدہ میڈیا بھی ملے گا اور انہی ممالک میں ایسا میڈیا بھی ملے گا جس کو دیکھ کر وہاں کے لوگ بھی شرمندہ ہوجائیں لیکن وہاں پر ریاست کے والے کھڑے ہو کر یہ نہیں کہتے کہ انہیں الٹا لٹکا دو یہ باہر سے آئے ہیں۔ یہاں انہوں نے یہ کیا ہے کہ گند اور بالائی کو اتنا مکس کر دیا جائے کہ لوگ تفریق نہ کر پائیں۔

 ایک حل یہ ہے کہ عمران خان اس طرح کا بولنا چھوڑ دیں یا دوسرا حل یہ ہے کہ عمران خان ان تمام صحافیوں کے ساتھ ون آن ون انٹرویو کرلیں جن کے اوپر ان کو حتمی طور پر یقین ہے کہ یہ پیسے لیتے ہیں وہ تیاری کرکے آجائیں لائیو ڈبیٹ کریں ہم بھی تیاری کرکے آجائیں اور ون آن ون انٹرویوز کی ایک سیریز چلائیں عمران خان کو میرا خیال ہے اسٹوڈیو سے بھاگنے کا راستہ نہیں ملے گا۔ تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ جھوٹ کے جواب دینے کی تربیت ہماری نہیں ہے۔امریکن ایمبیسی کی جو بات کی گئی صحافی سب سے ملتے ہیں ملنا چاہئے یہ ہمارا کام ہے کسی جگہ پر دہشت گردوں کے بھی انٹرویو کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک چینل کے ذریعے سے ہماری تصاویر چلوائی گئیں آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن ہوتا ہے جس میں خواتین کو بلایا جاتا ہے مختلف سفارتخانے یہ کرتے ہیں۔میں اس سال نہیں گئی لیکن پھر بھی میری تصویر نہ صرف چلائی گئی بلکہ بہت زیادہ بہتان اور الزام بھی لگائے گئے اور اگر میں جاتی بھی تو میرا یہ کام ہے میں لوگوں سے ملتی ہوں مجھے خبر چاہئے اگر عمران خان بھی بلائیں گے تو ضرور جاؤں گی ویسے وہ مجھے انٹرویو دیں گے نہیں، آپ نے بھی درخواست دی ہے میں نے بھی دی ہے۔الزام لگانے کی روش تحریک انصاف کی نئی نہیں ہے۔ میں آپ کو یہ اطلاع دے رہی ہوں کہ انہوں نے تحقیقات کیں مجھ سمیت جتنے بھی لوگ نظر آرہے ہیں سب کی تحقیقات کی ہیں۔

 ایف آئی اے میں الگ الگ ہمارے ڈیسک بنائے گئے تھے ایف بی آر کے اندر ایک ایک چیز کی تحقیقات کیں ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ عمران خان کہہ رہے ہیں میں وزیراعظم تھا ایک صحافی نے انہیں آکر بتایا وہ وزیراعظم تھے اتنی بڑی سازش ہو رہی تھی اتنے صحافی اس کے اندر شامل تھے تو آپ ان کی تحقیقات کرتے متعلقہ فورمز پر لے کر جاتے لیکن تحقیقات اب ہوں گی ہمارے پاس پورا حق ہے کہ ایکسیز کی انفارمیشن کو آزمائیں اور ہم جائیں کہ ان کے دور حکومت میں کس کس صحافی کو کتنا نوازا گیا صحافی کہنا تو شاید غلط بات ہوگی جو ان کے ترجمان یا ان کے پسندیدہ ہیں۔منظم انداز میں میڈیا کو بدنام کرنے کی مہم کا آغاز اب سے نہیں کچھ سال پہلے ہوا پھر پی ٹی آئی کو اس کے اندر لایا گیا ایک پورا سین کریٹ کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ آپ کے اندر اس کا یہ کردار ہے اس میں جو بولنے والے چند شرپسند تھے ان کو بدنام کرنے کی مہم چلائی اور چلوائی گئی جو سچ کی آواز ہوتی ہے اس کو جتنا مرضی بدنام کر دیں اسے فرق نہیں پڑتا۔اُن پر پورا خول چڑھایا گیا اور لوگ انہیں کتنا سنتے ہیں اور کتنی اُن کی آواز میں جان ہے سب کا آڈٹ کریں بتائیں اور یہ کام ہماری تنظیموں کو کرنا چاہئے تھا اور کرنا چاہئے آج بھی جب ایسی چیزیں سامنے آتی ہیں آزادی صحافت کے لئے تو ہماری تنظیمیں اُن کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہیں جبکہ وہ خود ہمارے ہی صحافیوں کے خلاف جو صحیح کام کرتے رہے ہیں اُن کے خلاف وہ استعمال ہوتے رہے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کسی حل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ جتنا عمران خان بولتے رہیں گے اُن کا جھوٹ واضح ہوتا چلا جائے گا، کیا ضیاء الحق کا جھوٹ باقی رہا۔ ہمیں ہر حکومت اور ہر جھوٹے کو آئینہ دکھانا چاہئے کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔

تجزیہ کار فہد حسین نے کہا کہ عمران خان جانتے ہیں انہیں میڈیا کو کس طرح بدنام کرنا ہے اگر بدنام نہ کرنا ہوتا اور واقعی احتساب کرنا ہوتا تو بہت آسانی سے چھان بین ہوسکتی ہے اور اگر آپ نے صرف الزام لگانا ہے اور چھوڑ دینا ہے اور اس میں خطرناک بات یہ ہے کہ اگر انہوں نے کوئی بات کر دی ہے تو سب کو لائن دے کر کھلی چھٹی دے دی جو مرضی کرتے پھریں اس سے ممکن ہے کہ عمران خان کو سیاسی فائدہ ملتا ہو لیکن اس سے جو نقصان ہو رہا ہے میڈیا کی ساکھ کو، وہ میڈیا کی ساکھ کو نقصان نہیں ہے بلکہ وہ اس نظام کو ہے جس میں میڈیا بھی ایک حصہ ہے یہ بہت خطرناک حکمت عملی ہے اس سے پورے ملک کو نقصان ہوگا۔میڈیا میں مسائل ہیں کرپشن ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا یہ کہنا کہ وہ میڈیا کو کمزور کر رہے ہیں مجموعی طور پر یہ درست نہیں ہے ان کا واضح ٹارگٹ ہے کہ وہ کس طرح کے میڈیا کوبدنام کرنا ہے یہ جو الزام لگایا گیا کہ یہ جو سازش ہوئی ہے میڈیا اس کا حصہ ہیں یہ بڑا گھناؤنا الزام ہے اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔عمران خان یہ سمجھتے ہیں اور کچھ حد تک ان کی بات درست بھی ہے کہ اب مین اسٹریم میڈیا کی وہ اہمیت نہیں رہ گئی ہے جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہے وہ ہمیں بائی پاس کر رہے ہیں وہ چھلانگ مار کر سوشل میڈیا سے اپنے لوگوں تک جارہے ہیں کچھ حد تک یہ بات درست بھی ہے شاید ہمیں بری لگے، ہو یہ رہا ہے کہ انہیں اعتماد مل گیا ہے کیونکہ اب ہمیں ان کی اتنی ضرورت نہیں ہے ٹھیک ہے جو مرضی ہم ان کے ساتھ کرتے رہیں اگر میڈیا انڈسٹری تباہ ہوتی اس کی کردار کشی کے ذریعے میڈیا کو نقصان پہنچتا ہے پہنچے یہ چیلنج انہوں نے اس طرح سے قبول کیا ہے کہ انہیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی میڈیا کی اس طرح سے ضرورت نہیں ہے جو ماضی میں ہم سمجھتے تھے اپوزیشن میں لوگوں کو ہوتی ہے۔

صدر پی ایف یو جے شہزادہ ذوالفقار نے کہا کہ ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ثبوت دیں اس پر ہم نے احتجاج بھی کیا تھا اور میں نے اعلان کیا کہ ہم نے تین رکنی کمیٹی بنا دی ہے مہربانی کرکے جو ثبوت ان کے پاس ہیں لے آئیں ہم اپنے طور پر تمام لوگوں سے بات کریں گے اگر آپ کا الزام صحیح ثابت ہو تو کم از کم ہم اُن سے لاتعلقی کا اظہار کرسکتے ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے کوئی رابطہ نہیں کیا نہ ہی کوئی ثبوت مہیا کیا۔آپ بہت بڑے عہدے پر ہیں صحافی سے آپ کا کیا لڑنا ہے صحافی کا کام ہے سچ کو سامنے لانا ہے جب تک ان لوگوں کو ہماری چیز پسند آتی ہے تو بہت اچھے ہیں اور اگر کسی نے سوال پوچھ لیا تو پھر وہ سمجھتے ہیں اس نے پیسہ لیا ہوا ہے اور الزام لگانا آسان ہے۔ پہلے ہم نے صرف اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا اب ہم پورے ملک میں احتجاج کی کال دیں گے تاکہ سب کو پتہ چل جائے صحافی متحد ہیں اور ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کسی پر الزام لگادیں۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں