hujoom mein ali hassn zardari

عمران خان کی چھہ نشستوں پر کامیابی

تحریر: علی حسن

اپنی مقبولیت کے سفر پر گامزن پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی سیاسی مخالفین، ملک کے مقتدر حلقے اور بین القوامی معاملات پر دست ترس رکھنے والی قوتوں کو حیران کردیا کہ وہ تمام مخالفتوں اور رکاوٹوں اور ذہنی دباﺅ کے باوجود قومی ا سمبلی کی چھہ نشستوں پر ضمنی انتخابات میں بیک وقت کامیاب ہو گئے۔ عوام کی طاقت کا مظاہرہ اور کامیابی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب عمران خان انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا بار بار مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن حکومت میں شامل جماعتوں کا حال ہے کہ وقت کو کھینچنا چاہتی ہیں اور ان کے مطا لبے کر نظر انداز کر رہی ہیں۔ کل کیا ہوگا کسے علم، لیکن آج کی صورت حال کی وجہ سے آنے والے کل کو گرفت میں لے لینا چاہئے۔ عمران خان بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ انہیںا نتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنا ہے۔ باپ رے باپ ، دو تہا ئی اکثیریت میں تو آئین کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ عمران مخالفین پر مشتمل حکومت نے تو معمول اکثریت کی بنیاد پر نیب کے قوانین کو ہی تبدیل کر دیا تاکہ وہ جواب دہی کے عمل سے محفوظ رہ سکیں۔ کیا عمران خان وہ سب کچھ پلٹ تو نہیں دیں گے؟ صورت حال کچھ ایسی ہوتی نظر آتی ہے کہ ایک طر ف ن لیگ، پی پی، پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں اور دیگر مخالفین کے کارکنوں اور حامیوں کا مورال متاثر ہو رہا ہے، دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو کامیابی کی امید میں جیتنے والے گھوڑے پر رقم لگا نے کی شہرت رکھتے ہیں لیکن ضمنی انتخابات میں بیک وقت کامیابیوں کے بعد وہ لوگ بھی بار بار اپنی تجوری کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ ہاتھ بڑھاتے ہیں کہ پیسہ داﺅ پر لگایا جائے لیکن ہاتھ کھینچ لیتے ہیں کہ ابھی نہیں۔ وہ بھی اس وقت کو گزار دینا چاہتے ہیں۔ ہندو دھرم ماننے والوں میں” چنچر“ ہوجانے کو نحوست کی نشانی تصور کیا جاتا ہے۔ وہ اسے گرہن کہتے ہیں۔ اس کی مدت کبھی سات سال، کبھی ساڑھے چار سال ہوتی ہے، اس مدت میں جو کام بھی کیا جائے گا اس میں نقصان ہی کے امکانات رہتے ہیں۔ عمران مخالف سیاستدانوں اور قوتوں کو ”چنچر‘تو نہیں ہوگیاہے کہ وہ ملک کے سیاسی ، معاشی اور سماجی حالات کو اپنے قریب بھٹکنے ہی نہیں دے رہے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی صلاحیت کا مظاہرہ ہی نہیں کر رہے ہیں۔ موجودہ حکومت میں شامل عناصر کو اپنے لئے کسی بہتر وقت کاا نتظارمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے ۔ ان کے لئے مستقبل میں ا چھا وقت آسکتا ہے لیکن ابھی نہیں۔ وقت تیزی سے اسی طرح نکل رہا ہے جیسے مٹھی میں سے ریت نکلتی ہے۔ ابھی تو عمران خان صرف انتخابات کی تاریخ کا مطالہ کر رہے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہوگا کہ عمران خان کو ایسا ہی ” گھسہ“ دیا جا سکے جو سابق مشرقی پاکستان میں 1970 میں کرائے گئے عام انتخابات کے بہت بھاری اکثریت ( ۲۶۱ میں سے ۰۶۱ نشستوں پر کامیابی ) سے کامیاب ہونے والے سیاست دان شیخ مجیب الرحمان کو دیا گیا تھا۔ کتنے بڑے پیمانے پر خون زیری کے بعد ملک دو لخط ہو گیا تھا۔ یہ سب کے سوچنے کی بات ہے کہ موجودہ پاکستان میں کسی خانہ جنگی کو دعوت دینا اس ملک کے مستقبل کے لئے کتنا سود مند یا خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کیا گلی گلی میں مزاحمت ہمارے مفاد میں ہو گی؟

ملتان سے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی موسیٰ گیلانی کی کامیابی اور وائس چیئرمین تحریک انصاف شاہ محمود قریشی کی صاحب زادی مہربانو قریشی کو شکست شاہ محمود قریشی کی سیاسی بصیرت پر سوالات اٹھاتی ہے۔ اپنی بیٹی کی شکست کی بظاہر ذمہ داری شاہ محمود پر جاتی ہے کیوں کہ وہ اپنی بیٹی کو متعارف کرانے میں دلچسپی رکھتے تھے ۔ عمران خان کیوں نہیں شاہ محمود کو قائل کر سکے کہ تحریک انصاف مورثی سیاست کے خلاف موقف رکھتی ہے ۔ سیاست اور ذاتی جائداد میں فرق کو تسلیم اور محسوس کیا جانا چاہئے۔ تحریک انصاف کو اپنے موقف پر ڈٹ جانا چاہئے۔ الیکٹ ایبلس ( انتخابات میں کامیابہ حاصل کرنے والوں ) کی منحوس روایت سے باہر نکلنا ہی صرف سیاست کے حق میں بہتر نہیں ہوگا بلکہ اس ملک کے مستقبل کے لئے بھی نیک شگون ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے علی موسی گیلانی 79 ہزار سے ووٹ لیتے ہیں تو مہربانو قریشی ساٹھ ہزار ووٹ لیتی ہیں۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ سے بندھا ہوا کوئی بھی امید وار اتنے ووٹ تو حاصل کر ہی سکتا تھا۔ پشاور سے غلام احمد بلور، چار سدہ سے باچا خان کو پڑ پوتہ، ولی خان کا پوتہ، افسند یار ولی کا بیٹا انتخاب کیوں ہار جاتا ہے۔ مردان سے جمیعت علماء اسلام کے محمد قاسم سے کیوں ہار گئے۔ ووٹر کو علم ہے کہ جس امیدوار (عمران خان) کو ووٹ دے رہے ہیں اسے اسمبلی میں جانا ہی نہیں ہے پھر بھی انہوں نے اسے ہی ووٹ دیا۔

پشاور میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 31 میں عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار غلام احمد بلور نے حلقے میں ضمنی انتخابات کے نتائج کے بعد شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔غلام احمد بلور نے اپنے بیان میں کہا کہ ضمنی انتخابات میں شکست تسلیم نہیں کرتا، صوبائی حکومت نے انتخابات میں مداخلت کر کے نتائج تبدیل کیے۔انہوں نے کہا کہ تمام انتخابی عملہ صوبائی حکومت کے زیرِ اثر تھا، انتخابی نتائج کے خلاف عدالت سے رجوع کے لیے مشاورت کروں گا، ضمنی انتخابات میں عمران خان کی مقبولیت میں بھی کمی آئی ہے۔این اے 31 کے تمام 265 پولنگ اسٹیشنوں کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان 59 ہزار 972 ووٹ لے کر کامیاب جبکہ غلام احمد بلور 34 ہزار 724 ووٹ لے سکے۔ فیصل آباد میں این اے108 پر مسلم لیگ ن کے امیدوار عابد شیرعلی نے اپنی شکست کو عوام کا فیصلہ قرار دے دیا اور کہا کہ مہنگائی اور بجلی کے بلزکو اپنی ہار کی وجہ قراریا ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 99841 ووٹ لے کر کامیاب ہوگئے، مسلم لیگ ن کے عابد شیر علی 75266 ووٹ حاصل کر کے دوسرے نمبر پر رہے۔عمران خان نے اپنے سیاسی حریف کو 24575 کے بھاری مارجن سے شکست دی۔ 2018 میں ہونے والے کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے پاکستان تحریک انصاف کے فرخ حبیب کامیاب ہوئے تھے ۔ انہوں نے ایک لاکھ 12 ہزار 740 ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ ن لیگ کے عابد شیر علی ایک لاکھ 11 ہزار 529 ووٹ حاصل کرنے کے بعد بھی ناکام رہے تھے ۔ ضمنی الیکشن میں کراچی میں ایم کیو ایم کو دوسری بار بھی جھٹکا لگ گیا ہے ۔ دوسری بار یہ نظر آیا ہے کہ ایم کیو ایم کی مقبولیت میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔ پہلی بار اس سے قبل حلقہ ۵۴۲ میں ہونے والے ضمنی انےتخابات میں نظر آیا تھا۔ کا بڑا ثبوت بھی مل گیا ہے۔ کراچی کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدارایم کیو ایم کو کراچی کے عوام نے دونوں سیٹوں پر مسترد کر دیا۔عمران خان 50 ہزار 14 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں جب کہ ایم کیو ایم کے امیدوار نیئر رضا 18 ہزار 116 ووٹ حاصل کر سکے ۔ ووٹ کا یہ فرق ایم کیو ایم کو ایک بار پھر دعوت دیتا ہے کہ وہ اپنی خامیوں ، کوتا ہیوں، کمزوریوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔ کراچی کے سیاسی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ایم کیو ایم لندن غیر سرگرم عمل ہونا بھی ایم کیو ایم پاکستان کی ناکامی کی وجہ ہو سکتی ہے۔ کراچی کے حلقہ این اے 237 ملیر میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو شکست دینے والے پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالحکیم بلوچ ہیں۔ حکیم بلوچ پی پی اور ن لیگ میں آتے جاتے رہے ہیں۔ نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے عبدالحکیم بلوچ 32 ہزار567 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں جبکہ عمران خان 22 ہزار 493 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے ۔ دونوں میدواروں کے ووٹر اور حامی ووٹ ڈالنے ہی نہیں آئے۔ پی پی اور پی ٹی آئی والے انتخابی کام کرنے ہی نہیں نکلے۔ (علی حسن)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں