خصوصی رپورٹ۔۔
وفاقی دارلحکومت میں صحافی اسد علی طور پر تشدد کے واقعہ کے بعد مغربی میڈیا نے پاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے سوالات اٹھائے تو وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے ان سوالات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ پاکستان میں میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے پروگرام ’ہارڈ ٹاک‘ کے میزبان سٹیفن سیکر نے صحافیوں پر ہونے والے حملوں کو ریاستی اداروں سے جوڑنے کی کوشش کی اورسوال اٹھایا کہ پاکستان میں اصل طاقت کس کے پاس ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’عمران خان 2018ءسے حکومت چلارہے ہیں، اگر پاکستان میں جمہوریت ہے تو اختیار کس کے پاس ہے؟عمران خان کے گورننس کو صاف اور شفاف بنانے کے وعدے کا کیا ہوا؟ کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے جو جمہوری ہونے کا دعویٰ کرے کہ وہ آزادی اظہار رائے اور آزادی صحافت کی حفاظت کرتی ہے لیکن پاکستان میں آئے روز صحافیوں پر حملے ہورہے ہیں، اظہاررائے کو تحفظ نہیں مل رہا۔
سٹیفن سیکر کے سوالات پر فواد چودھری نے بتایاکہ ’ بالکل، یہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 19کے تحت حق ہے۔ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے تو پاکستان ان ممالک میں سے ہے جہاں سب سے زیادہ آزادی ہے۔ پاکستان میں بی بی سی سمیت 43انٹرنیشنل چینل کام کررہے ہیں، 100 سے زائد نجی چینلز ہیں، 258ایف ایم چینلز ہیں، 1569اخبارات و جرائد ہیں، میڈیا اداروں کی وسعت ہی آپ کے دعوے کی تردید کرتی ہے۔
سٹیفن سیکر کا مزید کہناتھاکہ’ گزشتہ دنوں ایک صحافی اسد علی طورپر حملے کی خبر بھی ملی ، آپ جانتے ہیں کہ مسلح افراد اس کے گھر میں داخل ہوئے، اسے دھمکیاں دیں اور تشدد کا نشانہ بنایا، اور یہ سب کچھ آئی ایس آئی ( انٹر سروسز انٹیلی جنس) کے نام پر کیا۔‘ فواد چودھری نے اس بات پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ’ ایسا واقعہ ہوا ہے ، میں نے اس کا نوٹس لیا ہے میں نے کیس کی تفتیش کے لیے سینئر پولیس افسر کو بھیجا ، ہمیں سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی ملی ہیں،لوگ گرفتار ہوں گے لیکن مغربی میڈیا کے لیے یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتو آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ مجھے انٹیلی جنس ایجنسیز کا نام لینے والے لوگوں کی بھی ہسٹری معلوم ہے، امیگریشن کے حصول کے لیے بھی لوگ نام استعمال کرتے ہیں، یہ ایک مسئلہ ہے جس کا ہم سامنا کررہے ہیں۔
بطور وزیراطلاعات اقدامات اور پاکستان کے صحافیوں کے لیے خطرناک ملک ہونے کے بارے میں سوال پر فوادچودھری کاکہناتھاکہ’ ایسے انفرادی واقعات دنیا میں ہر جگہ ہوتے ہیں۔میں پھر آپ سے اختلاف کروں گا، یہ سوال پس منظر سے ہٹ کر ہے، پاکستان میں صورتحال صرف صحافیوں کیلئے خطرناک نہیں ، ماضی میں صورتحال ہرشہری کے لیے خطرناک رہی، ہم دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑرہے تھے، فیلڈ میں کام کرنیوالے صحافی مارے گئے، کئی سویلیز نے بھی جانیں قربان کیں۔ یہ صرف صحافیوں تک محدود نہیں، حتیٰ کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو بھی دہشتگردی کے حملے میں شہید ہوگئیں، یہ بالکل ہٹ کر صورتحال ہے۔(خصوصی رپورٹ)۔۔