تحریر: سید رضوان عالم، رپورٹر سما ٹی وی۔۔
ایک پروگرام میں خاتون میزبان نے مہمان سے پوچھا کہ اگر ایک پنجرے میں آپ کے ساتھ شیر کو بند کردیا جائے تو آپ کیا کریں گے ؟ مہمان نے تھوڑی دیر کیلئے میزبان کی طرف دیکھا اور کہا !! جو کرے گا شیر کرے گا میں کیا کرسکتا ہوں۔۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ملکی معیشت تاریخ کے اس نازک موڑ پر آچکی تھی کہ جو کرنا تھا آئی ایم ایف نے ہی کرنا تھا۔۔عوام تو ایک عرصے سے مجبور ہیں لیکن اس بار اسحاق ڈار بھی آئی ایم ایف کے آگے بے بس ہوگئے تاہم یہ ضرور ہے کہ حکومت کو معیشت آئی سی یو سے نکال کر وارڈ میں شفٹ کرنے کا موقع مل گیا ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس موقع سے کتنا فائدہ اٹھا پاتی ہے ۔۔
اسی دوران آئی ایم ایف سے معاہدے کا پہلا سرکاری نتیجہ آگیا ہے۔۔پیٹرول کی ایکس ریفائنری قیمت میں 7.5 روپےکی کمی کےباوجود حکومت نے عوام کیلئے پیٹرول سستا نہیں کیا کیوں ؟ اس لئے کہ آئی ایم ایف کو قرض اور سود لوٹانا ہے اور اس کے لئے ہر وہ حکومت جو آئی ایم ایف سے معاہدہ کرتی ہے اس کے سامنے عوام پر مالی بوجھ ڈالنا ہی سب سے آسان طریقہ ہوتا ہے۔ پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کے خوشنما نام سے پیٹرول پر لگا ٹیکس 50 روپے سے بڑھاکر 55 روپے فی لیٹر کردیا گیا ہے جبکہ ڈھائی روپے فی لیٹر ان لینڈ ایکوالائزیشن فریٹ مارجن (IEFM ) کی مد میں بڑھائے گئے ہیں جس سے پیٹرول پر فی لیٹر ساڑھے سات روپے کمی کا فائدہ عوام تک نہ پہنچ سکا جبکہ پیٹرول پر پی ڈی ایل ٹیکس تاریخ کی بلندترین سطح 55 روپے فی لیٹر پر پہنچ چکا ہے۔۔
عوام کی آزمائش یہاں پر ختم نہیں ہوتی آئی ایم ایف سے ہوئے نئے معاہدے کے تحت حکومت آئندہ تین ماہ کے اندر پیٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی بتدریج بڑھاکر 60 روپے فی لیٹر کرنے کی پابند ہے۔۔حکومت کو اس سے اربوں روپے کی آمدنی متوقع پر اور یہ سارا مالی بوجھ اور اس سے پیدا ہونے والی مہنگائی کا بوجھ بھی عوام کو ہی اٹھانا ہے۔۔
اس کے علاوہ نئے معاہدے کے تحت بجلی اور گیس مزید مہنگی کرنا ہوں گی جو مہنگائی کی پہلے ہی بڑھکتی آگ پر مزید تیل چھڑکنے کے مترادف ہوگا۔۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کے مرکزی بینک کو اس بات کا پابند کیا ہے کہ وہ کرنسی مارکیٹ میں کسی قسم کی مداخلت سے باز رہے گا اور بازار میں روپے کی قدر مارکیٹ فورسز طے کریں گی۔۔ درآمدات پر سے ہر قسم کی پابندیاں اسٹیٹ بینک پہلے ہی اٹھا چکا ہے جبکہ درآمدات کیلئے ڈالر آئیں گے کہاں سے اس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔۔
اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی بھی آئی ایم ایف کے زیر اثر رہے گی اور شرح سود میں کمی کا تو امکان نا ہونے کے برابر ہے البتہ شرح سود میں اضافے کا خطرہ سروں پرمنڈلاتا رہے گا جس کا مظاہرہ اسٹیٹ بینک کی حالیہ مانیٹری پالیسی میں ہم دیکھ بھی چکے ہیں جب حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کیلئے تاجر برادری کے شرح سود کم کرنے کے مطالبے کو نظرانداز کردیا اور اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس بلاکر اچانک شرح سود 21 فیصد سے بڑھاکر 22 فیصد کردی۔۔بقول شاعر ۔۔۔۔عشق کے امتحان ابھی اور بھی ہیں۔ (سید رضوان عالم)۔۔