تحریر: محمد علی حفیظ
کراچی میں بے شمار فلاحی تنظیمیں کام کررہی ہیں ۔ اس میں سے ایک نئی و غیر معروف فلاحی تنظیم نے شہر کی معروف شاہراہ آئی آئی چندریگر روڈ کے اطراف اس مقام پر جہاں ہر طرف مزدور طبقے کے لوگ رہائش پزیر ہیں ایک کلینک قائم کیا اس کلینک کا بنیادی مقصد مفت میں لوگوں کا علاج اور دوا دینا تھا ۔اس کلینک کے اطراف پوری میڈیا انڈسٹری موجود ہے ۔ اربوں روپے رکھنے والے مالکان کا گذر ہوتا ہے ۔ لیکن شاید اس کلینک کی اہمیت وہ ہی جان سکتا تھا جس نے غربت کا سفر طے کیا ہو اور انسانیت کی خدمت کرنا اس کا مشن ہو ۔ایک دن دوپہر میں ایک صاحب اس کلینک میں داخل ہوئے اور اپنا چیک اپ کروایا ۔ دراصل یہ صاحب اس کلینک کا جائزہ لے رہے تھے کہ آیا یہاں غربیوں کو مفت دوا و علاج کی سہولت بھی ہے یا صرف باتیں ہی ہیں ۔۔ان صاحب نے یہ سوچا کے مزید چیک کرتے ہیں ۔ پھر اگلے روز ایک نوجوان اس کلینک پر گیا اور اس نے ڈاکٹر کو چیک آپ کروایا وہاں موجود بیماروں کو دیکھا انہیں فری میں دوا مل رہی تھی ۔ پھر یہ نوجوان کلینک سے سیدھے اپنے باس کے پاس گیا اور بتایا کہ اس کلینک میں واقعی غربیوں کا علاج ہورہا ہے ۔اس کے بعد اچانک اس کلینک کے چلانے والے افراد کو سامنے ہی قائم ایک میڈیا ہائوس کے دفتر بلوایاگیا ۔
کلینک چلانے والے پریشان آخر کیا مسئلہ ہوگیا کہ میڈیا کے آفس میں بلوایا گیا ہے ؟؟ ۔۔ خیر ان کلینک والوں کی ملاقات شروع ہوئی ایک میڈیا نیٹ ورک کے مالک سے ۔جی جناب آپ لوگ کہاں رہتے ہیں کب یہ این جی او قائم کی ۔۔ ؟؟؟؟سامنے سے جواب آیا سر ہم یہاں قریب ہی واقع سرکاری کمپائونڈ میں رہائش رکھتے ہیں بس انسانیت کی خدمت کے تحت اس کام کا آغاز کیا ہے ۔پھر میڈیا نیٹ ورک کے مالک نے فرمایا ۔۔۔۔آپ کو معلوم ہے کہ میں آپ کے کلینک آیا تھا اور پھر میں اپنے ادارے سے ایک فرد کو بھیج کر چیک کروایا کہ یہ کلینک غربیوں کی خدمت کر بھی رہا ہے یا نہیں ۔۔ جس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ یہ کلینک اس علاقے اور ہر آنے والے شخص کی خدمت کررہا ہے ۔میرے دفتر کے سامنے یہ کلینک ہے لہذا اب میری زمہ داری بنتی ہے کہ میں بھی اس خدمت کے مشن میں آپ کا ساتھ دوں ۔ آپ مجھے بتائیں کہ میں آپ کی کیا مدد اور تعاون کرسکتا ہوں ؟؟؟اب کلینک چلانے والے افراد نے کہا کہ سر آپ نے ہمیں عزت دی ہمارے کلینک کے بارے میں یہ کلمات ادا کیئے یہ ہی ہمارے لیئے باعث فخر ہے ہم میں اب کام کا جذبہ اور بڑھ گیا ہے ۔۔ ہمیں آپ سے کچھ نہیں چائیے ۔۔۔میڈیا نیٹ ورک کے مالک نے کہا کہ نہیں نہیں یہ میری زمہ داری ہے کہ میں اس کلینک میں آپ کا ساتھ دوں ۔جس کے بعد میڈیا نیٹ ورک کے مالک نے اپنے شعبہ اکاؤنٹس کے ایک ملازم کو بلوایا اور کہا کہ اب ہر مہینے سامنے والے کلینک میں ادویات وہ بھیجوائیں گے۔۔جی ہاں یہ غربیوں کی مدد کرنے والی شخصیت تھی ۔
“الیاس شاکرصاحب “
پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اور یہاں کی طاقت ور میڈیا انڈسٹری میں نمایاں مقام رکھنے والوں میں سے ایک نام “الیاس شاکر صاحب ” کا ہے ۔۔ کراچی میں ہزاروں صحافی ہیں لیکن کراچی والوں کے حقوق کی بات اور ان کے مسائل پر ہمیشہ آواز بلند کرنے والے صحافی تھے ” الیاس شاکر صاحب ” ۔۔۔
رپورٹر بنے نام بنایا۔۔محنت کی اور پھر شام کا نمبر ون اخبار نکالا۔۔قومی اخبار کے بانی و ایڈیٹر کے طور الیاس شاکر صاحب نے وہ پہچان بنائی جس کو شاید ہی اب کوئی ختم کرسکے۔۔الیاس شاکر صاحب نے صبح شائع ہونے والے روز نامہ ریاست کھیلوں کے ہفتے وار شمارے قومی اسپورٹس اور دھوم ٹی وی کی بنیاد بھی رکھی۔۔کراچی میں کوئی صحافی کسی ادارے سے نوکری چھوڑ دے تو اس کا مالک اس سے منہ پھیر لیتا ہے۔۔لیکن الیاس شاکر صاحب واحد مالک تھے جو اپنے ادارے کے ہر جانے والے ملازم کیلئے نہ صرف دروازے کھلے رکھتے تھے بلکہ اگر جانے والے صحافی نے کوئی نمایاں کام کیا ہے تو اس کے اعزاز میں دعوت بھی کرتے تھےاور تو اور ان صحافیوں کے زندگی میں غم ہو یا خوشی الیاس شاکر صاحب ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔۔ایک خاصہ الیاس شاکر صاحب کا یہ بھی تھا کہ وہ ہر صحافی کی شادی بیاہ کی تقریبات کی تصاویر کو قومی اخبار میں نمایاں جگہ دیتے تھے۔۔
الیاس شاکر صاحب اپنے ادارے سے وابستہ ہر صحافی کو ہیرو بناتے تھے۔۔یہاں تک ادارے سے جانے والے صحافی کی تحریروں کو بھرپور جگہ دیتے تھے۔۔کراچی میں الیاس شاکر صاحب واحد میڈیا ہائوس کے مالک تھے جو ہر صحافی کو آسانی سے ملاقات کیلئے دستیاب رہتے تھے۔۔الیاس شاکر صاحب نے قومی اخبار کو ایک ایسا تربیتی ادارہ بنایا جہاں سے تربیت کے بعد ہر کسی نے آگے کا سفر طے کیا اور خوب نام کمایا۔۔پاکستان خصوصا کراچی میں کوئی ایسا ٹی وی چینل یا اخبار نہیں جہاں پر قومی اخبار سے تعلق رکھنے والے صحافی اپنی خدمات نہ دے رہے ہوں۔۔الیاس شاکر صاحب ایک کامیاب صحافی اور غربیوں کی مدد کرنے والی شخصیت تھے۔۔الیاس شاکر صاحب کے شاگرد آج ہر جگہ اپنے کام اور کارکردگی سے ان کا نام روشن کررہے ہیں۔۔
الیاس شاکر صاحب اپنی منفرد تحریروں کے زریعے مسائل اور حالات خوب بیان کرتے تھے۔۔الیاس شاکر صاحب کے پاس سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملا۔۔جب بھی الیاس شاکر صاحب سے ملاقات ہوتی یہ ہی سبق ملتا تھا کہ محنت کرو تو عزت و مقام ضرور ملے گا۔۔الیاس شاکر صاحب اس دنیا سے چلے گئے۔ لیکن ان کی باتیں اور محبت آج بھی دل میں زندہ ہیں۔۔رب العزت الیاس شاکر صاحب کی مغفرت فرمائیں آمین ثم آمین(محمدعلی حفیظ)۔۔