تحریر: عرفان اطہرقاضی۔۔
الیکٹرونک میڈیا کا ایڈورٹائزنگ بجٹ پیمرا کے ماتحت کرنا مناسب اور انتظامی لحاظ سے بہتر اقدام ثابت ہو سکتا ہے۔ خیال رہے سوشل میڈیا ایک نئی میڈیا جہت ہے اور غیرسنجیدہ میڈیا کی کیٹیگری میں آتا ہے اور اس کی اہمیت قطعی طور پر مسلمہ نہیں۔سوشل میڈیا صارف کی ترجیح اشتہارات نہیں وقتی غیرمستند معلومات ہیں جبکہ الیکٹرونک میڈیا کی مسلمہ حیثیت بھی گنتی کے چند میڈیا گرو پس تک ہی محدود ہے باقی سب بھان متی کا کنبہ ہے۔
پرنٹ میڈیا خصوصاً روزانہ شائع ہونے والے قومی و علاقائی اخبارات کی تعداد اگرچہ ہزاروں میں ہے لیکن تاریخی اور معیاری حوالے سے یہ تعداد چند سو بھی نہیں ہوگی۔ اکثریت غیرمعیاری اور بےقاعدہ (ڈمی) اخبارات پر مشتمل ہے۔حکومتی پالیسی سازوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ چند قومی اخبارات کے ساتھ ساتھ معیاری علاقائی اخبارات کی اپنی ایک تاریخ ہے اور اُن کی اہمیت اور تعداد کہیں زیادہ ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ اہمیت مزید بڑھ رہی ہے۔ان علاقائی اخبارات کو کسی بھی صورت نظرانداز کرنا کسی بھی حکومت کے لئے مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ یہ وہ اکثریتی علاقائی اخبارات ہیں جو براہِ راست علاقائی سطح پر سیاسی، سماجی، معاشی، ثقافتی حوالوں سے قومی اخبارات سے کہیں زیادہ موثر کردار ادا کررہے ہیں۔
ان اخبارات کا براہِ راست حکومتی پالیسیوں سے کوئی ٹکرائو بھی نہیں اور یہ اخبارات مقامی سطح پر ہمیشہ رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ان اخبارات کا خود احتسابی کا اپنا ایک نظام ہے جس کی وجہ سے مقامی انتظامیہ، سیاسی قیادتیں ہمیشہ متحرک رہتی ہیں اور براہِ راست عوام کو جواب دہ بھی۔ علاقائی اخبارات کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ تقریباً تمام بڑے قومی اخباری گروپس نے اپنے علاقائی ایڈیشن شائع کرنا شروع کئے اور علاقائی اخبارات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔آج تمام ایسے اخبارات کے علاقائی ایڈیشن بوجوہ بند ہو چکے ہیں لیکن مستند علاقائی اخبارات تمام تر مالی مشکلات کے باوجود آج بھی زندہ ہیں اور ان کی سرکولیشن مستحکم ہے۔علاقائی اخبارات کو زندہ رکھنا ریاستی و حکومتی اداروں کی ذمے داری ہے۔ ان اخبارات کو مالی طور پر مضبوط کرنا، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا، مستقبل کے روشن پاکستان کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
گزشتہ حکومتوں میں ایسی تجاویز پر غور کیا جارہا تھا کہ علاقائی اخبارات کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنے کے لئے بلاسود آسان شرائط پر قرضے فراہم کئے جائیں گے اور ایسی مراعا ت دی جائیں گی کہ وہ دنیا بھر کے علاقائی اخبارات کے معیار کا مقابلہ کر سکیں لیکن یہ تمام تجاویز حالات کی ستم ظریفی، حکومتوں کے آنے جانے کی نذر ہو گئیں۔اب حالات ماضی کے مقابلے میں انتہائی مایوس کن نظر آنے لگے ہیں۔ آج پاکستان کا پرنٹ میڈیا کنٹرولڈ ایڈورٹائزنگ پالیسی کی شکل میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے۔
ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے ایک طرف تو ایڈورٹائزنگ بجٹ 90فیصد سے زائد کم کر دیا گیا اور جو دس فیصد باقی بچا اس کا 80فیصد سے زائد الیکٹرونک میڈیا کو منتقل کر دیا گیا۔ دوسری طرف اخبارات کو بقایا جات کی ادائیگی روک دی گئی، تیسری طرف پاکستان کے چند بڑی میڈیا ایڈورٹائزنگ ایجنسیاں حکومت سے پیسہ وصول کرکے ہڑپ کر گئیں۔بیشتر ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے نادہندہ مالکان پیسہ سمیٹ کر بیرونِ ملک بھاگ گئے۔ بربادی صرف اسی وجہ سے ہوئی کہ وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات نے اے پی این ایس کو اعتماد میں لئے بغیر ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کو ادائیگیاں کر دیں اور ان کا بزنس بھی نہ روکا۔ اس وقت اخبارات کی مالی صورت حال انتہائی سنگین ہو چکی ہے۔وفاق اور سندھ کے ذمے پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے اربوں روپے کی ادائیگیاں زیرِ التوا ہیں۔ اخباری مالکان عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ نہ حکومت ساتھ دیتی ہے نہ عدلیہ کوئی راہ نکالتی ہے، نتیجہ مرے کو مارے شاہ مدار۔ کئی علاقائی اخبارات اپنی موت آپ مر گئے۔بڑے بڑے قومی اخبارات مالی بحران کا شکار ہوگئے۔ کارکن بے روزگار ہوکر سڑکوں پر آگئے۔ ستم بالائے ستم وفاقی و صوبائی سطح پر اخبارات کی مشکیں کسنے کے لئے ایسے غیر اہم سیاسی لوگ حکومتی میڈیا پالیسی کو کنٹرول کرنے کے لئے مسلط کردیئے گئے جن کا میڈیا سے کچھ لینا دینانہیں۔ انہیں میڈیا حکومت ریلیشن شپ سے کوئی سروکار نہیں،
یہ وہ لوگ ہیں جو صرف اپنی سیاسی چوہدراہٹ دکھانے کی خاطر وفاقی وزرات اطلاعات ونشریات، صوبائی محکمہ تعلقات عامہ کو آزادانہ طور پر کام نہیں کرنے دے رہے۔جس کا کام اسی کو ساجھے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے افسران نے اپنی زندگی اسی دشت کی سیاحی میں گزار دی لیکن اب یہ افسران بے بس نظر آتے ہیں اور تاریخی حوالے سے مستند معیاری اخبارات سے رابطہ کاری میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں جبکہ غیر اہم سیاسی لوگ اشتہارات کو کنٹرول کرکے نامعلوم اخبارات کی شاید اس سوچ کے ساتھ سرپرستی کررہے ہیں کہ اس سے کوئی نئی میڈیا پاور جنم لے سکتی ہے جو موجودہ حکومت کی سوچ کے ساتھ چل سکے۔ تجربہ یہی کہتا ہے ایسی سوچ حکومتی بجٹ ضائع کرنے اور بے سود کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
ناتجربہ کار، اناڑی، حالات کے پیداوار لوگ کبھی بھی کسی بھی شعبے میں پائیدار ترقی کا زینہ نہیں بن سکتے۔ بہتر یہی ہے کہ جب ہم میڈیا کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو وہاں سرکاری افسران کو کھل کر کام کرنے کی آزادی بھی مانگتے ہیں۔مسابقت کے اس دور میں جہاں کاروبار کو وسعت دینے کے لئے ہر میڈیا ہائوس سرکاری کلائنٹس سے میرٹ کی بنیاد پر اشتہارات حاصل کرسکتا تھا اس پر پابندی، وفاقی حکومت کی سنٹرلائزڈ میڈیا پالیسی نے بھی پرنٹ میڈیا کی سانسیں بند کر دیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔۔