تحریر: ایاز امیر
کسی کو کوئی سمجھ ہے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ کوئی بتا سکتا ہے کہ حالات کس کی گرفت میں ہیں؟ زیادہ شاعری نہیں کرنی چاہیے لیکن بات تو مرزا غالب والی ہے ‘نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں‘۔ ڈار صاحب کہتے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کو ہینڈل کرنا جانتے ہیں۔ پلے دمڑی نہیں لیکن اکڑ ہماری کے کیا کہنے۔ کریڈٹ ریٹنگ فرم موڈیز ہماری بین الاقوامی ریٹنگ گرا دیتی ہے اور ڈار صاحب کہتے ہیں کہ اُسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اور بہرحال اگلے ہفتے موڈیز کو وہ موزوں جواب دیں گے۔ کیا بات ہے ہماری! خالی کشکول لیے پھریں لیکن گردن کے بل سیدھے نہ ہوں۔ اوپر سے خان صاحب اسلام آباد پر ایک اور چڑھائی کی بات کر رہے ہیں۔ چڑھائی کا بنے گا کیا‘ یہ نہیں پتا لیکن چڑھائی کرنی ہے۔ اور اسلام آباد کا وہ جواب ہے جو ایسی صورتحال میں ہمیشہ ہوا کرتا ہے کہ سڑک پر کنٹینر لگا دو۔ کوئی اور اسلام آباد کو محاصرے میں لے سکے یا نہیں ہم نے محاصرے میں دارالحکومت کو لے لینا ہے۔
یہاں پہنچے ہم کیسے؟ قوموں میں نکما پن تو ہوتا ہے لیکن ہمارا اجتماعی نکما پن انوکھا اور نرالا ہے۔ اس بات پر غور تو کیا جائے کہ جن لوگوں نے پچیس تیس سال اس ملک پر حکمرانی کی اور اس کا بیڑہ غرق کر دیا وہی دوبارہ سے نجات دہندہ سمجھے جا رہے ہیں۔ جنابِ ڈار وغیرہ چلے ہوئے کارتوس ہیں‘ آزمائی ہوئی توپیں۔ لیکن اس ملک کا قحط الرجال ملاحظہ تو ہو کہ چلے ہوئے کارتوسوں پر پھر سے بھروسا کیا جا رہا ہے۔ ڈار صاحب کی تنقید مقصود نہیں‘ یقینا بڑی خوبیوں کے مالک ہیں لیکن وہ اپنا عرصہ گزار چکے ہیں۔ وہ گزرے ہوئے دنوں کے نمائندہ ہیں۔ اب حالات نئے ہیں‘ قومی تباہی بڑھ چکی ہے‘ پتا نہیں کس دہانے پر ہم کھڑے ہیں لیکن پھر وہی پرانے طبیب وہی پرانی باتیں۔ کچھ تو بدلے اس ملک میں‘ ہم روتے روتے تھک گئے لیکن کچھ بات بنی نہیں۔ اور بنتی دکھائی بھی نہیں دے رہی۔
چلائی ہوئی توپوں کے مقابلے میں یہ جو انصافیے ہیں‘ان کی بھی کم ہی بات سمجھ میں آتی ہے۔ غصہ ان کا سمجھ میں آتا ہے لیکن ان کی حکمت عملیاں پریشانی کا سامان رکھتی ہیں۔ عوامی طاقت کے مظاہرے یہ برپا کر سکتے ہیں لیکن اس سے آگے کیا کرنا ہے یا کیا کر سکتے ہیں وہ واضح دکھائی نہیں دیتا۔ 23تھانوں کی حکومت کا مقابلہ یہ کر سکتے ہیں لیکن اس پریشان سلطنت کو گرا نہیں سکتے۔ انتخابات کی باتیں کر سکتے ہیں لیکن اس بات پر حکومت کو مجبور نہیں کر سکتے۔ تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام آباد پر جس چڑھائی کی باتیں کی جا رہی ہیں اُس کا مقصد کیا ہوگا۔ چڑھائی سے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ ان کی صفوں میں سے کوئی اس نکتے پر ہمیں سمجھا نہیں سکا۔ چڑھائی کے احکامات دیے جاتے ہیں تو ہم جیسے بھی جوش میں آجائیں گے لیکن ساری کارروائی کا مقصد کیا ہوگا؟
اور جو سب سے طاقتور سمجھے جاتے ہیں وہ کیا کررہے ہیں‘ کیا سوچ رہے ہیں؟ کوئی گیم پلان ہے اُن کے پاس؟ ان میں اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن میں ایک بات یکساں ہے۔ ہمارے طاقتور عمران خان کی حکومت کے ہٹانے میں معاون تو ثابت ہوئے لیکن اُس کے بعد کیا کرنا ہے اُس پر زیادہ غور نہ کر سکے۔ جس کی وجہ سے قوم موجودہ دلدل میں پھنسی ہوئی ہے۔ ولادیمیر پوتن نے یوکرین پر حملہ تو کردیا لیکن پورے اہداف حاصل نہ کر سکے اور روسی فوج ایک حد تک ہی جا سکی ہے لیکن وہاں پہنچ کر اُسے رکنا پڑا ہے۔ پنگا لینا آسان ہوتا ہے‘ منطقی انجام تک پہنچانا ذرا مشکل۔
چلیں‘ ہمارے ہاں جو ہونا تھا ہوگیا۔ بات تو یہ ہے کہ اب کیا کرنا ہے۔ پاکستانی افلاطونیت کا اندازہ تو لگائیے کہ پہلے تکیہ کیا جا رہا تھا شہباز شریف پر اور وہ جب ناکام نکلے تو ساری امیدیں اسحاق ڈار پر ہیں۔ ہنسی آتی ہے‘ اگر سوچ کا دائرہ اتنا ہی وسیع ہے تو پھر افلاطونیت کو چھوڑ ہی دیں‘ شاید اسی میں قوم کی بہتری ہو۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ آپ کی سوچ کے دائرے محدود ہی رہیں گے لیکن اپنی بات پر آپ ڈٹے رہیں گے۔ جیسے دیکھے ہوں گے وہ میکینک جو سمجھتے نہیں کہ کار کے انجن کو ہوا کیا ہے لیکن ہتھوڑے ماری جاتے ہیں۔
جہاں تک ہماری ذاتی سوچ کا تعلق ہے وہ ختم ہو چکی ہے۔ ہماری عمر کے لوگوں نے خوب تماشے دیکھے ہیں لیکن کسی سے بھی پوچھئے کہ کیا ہو رہا ہے ڈھنگ کا جواب آپ کو نہیں ملے گا۔ اسی لیے اس نکتے پر پہنچے ہیں کہ تماشا دیکھتے جائیے اور حسبِ استطاعت مزے لیتے جائیے۔ اس ضمن میں زیادہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے کیونکہ اپنے بیٹے کے واقعے کے بعد لوگ پھبتی کسیں گے کہ اپنے بیٹے کی تربیت تو کر نہیں سکا‘ قوم کو بھاشن دیتا پھرتا ہے۔ راحتِ شب کی باتیں کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے کیونکہ ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کہیں گے باز نہیں آیا‘ شرم نہیں آتی‘ وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال کہنے کا مقصد یہ کہ جو پاکستان میں ہو رہا ہے انسان ماتم کر سکتا ہے یا کرسی پر بیٹھے انگڑائی لے سکتا ہے۔
سنہ 47ء سے پہلے مسلمانانِ ہند کو ایک سیاسی مسئلہ درپیش تھا کہ اُن کی پہچان کیا ہے اور اُن مخصوص حالات میں اُنہیں کرنا کیا چاہیے۔ قائداعظم نے پاکستان کے نام سے اس مسئلے کا حل پیش کیا اور مسلمانانِ ہند نے لبیک کہا اور اُن کے پرچم تلے ایک سیاسی جدوجہد کیلئے تیار ہو گئے۔ جو پاکستان اُن کاوشوں سے معرضِ وجود میں آیا اُسے بہت سے تجربات سے گزرنا پڑا‘ آدھا ملک ہم گنوا بیٹھے لیکن آج پاکستان کو اپنے وجود کا خطرہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ کوئی مسیحا نہیں جو مرض کی تشخیص کرے اور یہ کہے کہ تم نے یہ کرنا ہے۔ جو نام نہاد مسیحا ہیں اُن کے کرتب دیکھیں تو جی چاہتا ہے کہ اُن کے ساتھ وہ کیا جائے جو ہمارے تھانوں میں عموماً کیا جاتا ہے۔ ایک کسر رہ گئی ہے کہ قائدِ انقلاب حال مقیم لندن واپس ملک لوٹیں۔ ایسا ہوا تو نونیے اپنے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ جائیں گے۔ انصافیے اپنے ٹرک کی بتی کے پیچھے پہلے سے ہی لگے ہوئے ہیں۔
چلیں‘ گزر ہی رہی ہے‘ یہ بھی گزر جائے گی۔ البتہ ایک بات ماننی پڑے گی کہ یہ ملک بڑا ڈھیٹ ہے۔ اتنا کچومر کسی اور ملک کا نکالا جاتا تو بکھر جاتا۔ ہمارے سامنے مثالیں ہیں‘ سوویت یونین کی‘ یوگوسلاویہ کی۔ یہ ملک پھر بھی قائم ہے‘ کچھ تو پھر اس میں ہوگا۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ پاکستانی عوام سے مایوسی نہیں ہوتی۔ تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود یہ جی دار قوم ہے۔ مذاق کرنے اور اپنے آپ پر ہنسنے کی صلاحیت یہ قوم رکھتی ہے جو بہت بڑی خوبی ہے۔ مایوسی کے سائے گہرے ہوتے ہیں جب اس قوم کے نام نہاد لیڈروں کو دیکھا جائے۔ اتنا نکھٹو حکمران طبقہ‘ یہ ہم نے کیسے پیدا کیا؟ ایک سے ایک بڑا رنگساز‘ ہاتھ کی صفائی دکھانے میں ان سے بڑا ماہر کوئی نہ ہوگا۔ اور دہائیوں سے یہی لوگ ہمارے اوپر بیٹھے ہیں‘ جانے کا نام نہیں لیتے۔ حضور! آپ نے بہت کچھ بنا لیا اب تو جانے دیجئے لیکن نہیں۔ علاج باہر‘ بچوں کی پرورش باہر‘ دولت کے انبار باہر چھپائے ہوئے‘ لیکن حکمرانی کا چسکا پورا کرنا پاکستان میں۔
سچ بھی یہی ہے‘ حکمرانی کا مزہ یہیں ہے۔ اتنے بڑے قافلے‘ اتنا پروٹوکول‘ ایسا پروٹوکول لندن میں کہاں ملے۔ اور عوام ایسے کہ اپنی تمام تر جی داری کےباوجود آپ کو برداشت کیے ہوئے۔ ایسے مزے اور کہاں نصیب ہوں گے۔(بشکریہ دنیانیوز)