تحریر: محمد احمد شمسی۔۔
گزارش یہ ہے کہ کراچی میں اسٹریٹ کراٸم کسی طرح قابو میں نہیں أرہا بلکہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ موباٸل اسنیچنگ کراچی میں سب سے زیادہ عام ہے ساتھ میں رقم اور قیمتی چیزیں۔شناختی کارڈ۔ڈراٸیونگ لاٸسنس۔بینک کار۔گاڑی یا موٹر ساٸیکل کے کاغزات۔خواتین سے اسنیچنگ ہو تو جیولری وغیرہ بھی۔ یاد رہے کہ اسٹریٹ کراٸمز میں تھانوں کے رویہ اور کارکردگی کو دیکھتے ہوۓ بمشکل 10 فیصد لوگ کمپلین کرتے ہیں باقی نوے فیصد اسے وقت کا ضیاع اور بے نتیجہ سمجھتے ہیں۔جو دس فیصد پولیس سے رجوع کرتے ہیں انھیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ شناختی کارڈ وغیرہ کی گمشدگی لکھوالو fir نہیں درج کی جاتی۔ (اس کا پروف موجود ہے) اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جرم کس خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے جو رپورٹڈ نہیں ہے۔
میرے ساتھ بروز اتوار 19 فروری 2023 نارتھ کراچی (تھانہ نیو کراچی) کی حدود میں ایک واردات ہوٸ جس میں چار ڈاکو دو موٹر ساٸیکلوں پر سوار دن دھاڑے دوپہر ایک بجے گن پواٸنٹ پر مجھے لوٹتے ہیں۔قیمتی موباٸل فون۔پرس جس میں رقم۔ڈراٸیونگ لاٸسنس۔گاڑی کے کاغزات۔بینک ڈیبٹ کارڈز۔گاڑی کی چابی و دیگر چیزیں چھین کر لے جاتے ہیں اور زخمی بھی کرجاتے ہیں۔ فوری کسی سے موباٸل فون لے کر 15 مددگار کو اطلاع دی جاتی ہے پولیس أدھے گھنٹے بعد موقع پر پہنچتی ہے بار بارتھانہ نیو کراچی کو اطلاع کرنے کے بعد بھی ایس ایچ او تشریف نہیں لاتے۔ایک گھنٹے بعد تھانے سے ایڈیشنل ایس ایچ او تشریف لاتے ہیں اور فرماتے ہیں ایس ایچ او صاحب کہیں میٹنگ میں مصروف ہیں أپ تھانے أکر رپورٹ لکھوادیں۔ تھانے پہنچ کر میں نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ کل میں ڈی أٸ جی صاحب سے مل کر تمام واقعات اور تھانے کا عدم تعاون بیان کروں گا تو ایس ایچ او کمال صاحب 2 منٹ میں تشریف لاتے ہیں تمام واقعات پھر سے پوچھتے ہیں اور ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے ہیں جس کے بعد ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔۔
جناب عالی میرا آئی فون 12 پرومیکس تھا جو خود چلتا پھرتا جی پی ایس ہے، یہ فون کٸ گھنٹے تک کھلا ہوا تھا اور پولیس چاہتی اور رواٸتی سستی کا مظاہرہ نہ کرتی تو نہ صرف مجرم پکڑے جاتے بلکہ مال مسروقہ بھی برأمد ہوجاتا۔ پولیس سی پی ایل سی کے ذریعہ فون بند کرادیتی ہے، ٹریک نہیں کرتی جس کے باعث ریکور ہونے کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔
میری کچھ تجاویز ہیں جن پر فوری عملدرأمد کی ضرورت ہے۔
ہر تھانے میں موباٸل اسنیچنگ کے حوالے سے ڈیسک بناٸ جاۓ جس میں أٸ ٹی ایکسپرٹ اسٹاف بٹھایا جاۓ جو واردات کی اطلاع ملتے ہی فوری کارروائی کرے اور موقع پر مجرموں کو پکڑے۔
پولیس دوسرے اداروں کے ساتھ مربوط نیٹ ورک قاٸم کرے تااکہ بروقت لوکیشن حاصل ہو۔
تھانے کو پابند کیا جاۓ کہ وہ مدعی کو تنگ کرنے کے بجاۓ ایف آئی آر درج کرے۔۔
تھانوں کی سطح پر ہیومن انٹیلیجنس کا نظام مظبوط کیا جاۓ۔
کراچی کے سابقہ اور موجودہ أٸ جی حضرات۔پولیس چیف میڈیا پر یہ بات کٸ مرتبہ کرچکے ہیں کہ کراچی میں اسٹریٹ کراٸمز میں غیر مقامی لوگ ملوث ہیں۔لیکن غیر مقامی لوگوں کے خلاف کوٸ مربوط کاراواٸ نظر نہیں أتی اور ایسا لگتا ہے کہ سندھ پولیس نے عوام کو مجرموں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
غیر مقامیوں کا ڈیٹا بنایا جاۓ اور ان کی تصاویر۔باٸیو میٹرک اور کرمنل ریکارڈ مرتب کرکے مجرموں کو سزا کے بعد کراچی بدر کیا جاۓ۔
اعلیٰ افسران تھانوں میں موجود اسٹاف کا رویہ اور کارکردگی مسلسل چیک کریں اور جراٸم پر قابو پانے کا ٹاسک دیں۔اس قسم کے مشورہ نہ دیں کہ عوام مزاحمت نہ کریں بلکہ اپنا مال و متاع چپ چاپ ڈاکووں کے حوالے کردیں۔
کراچی کے عوام کب تک اپنی جان و مال لٹاتے رہیں گے۔ایسا نہ ہو کہ عوام پولیس پر بے اعتباری کے باعث قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوجاٸیں اور روڈوں پر عدالتیں لگا کر جزا و سزا کے فیصلے کرنے لگیں۔
اگر پولیس اتنی بے بس ہے تو لاٸسنس والا اسلحہ کم از تاجر برادری کو دے تاکہ ہم خود اپنی حفاظت کرسکیں۔(محمد احمد شمسی،جنرل سیکرٹری أل سٹی تاجر اتحاد ایسوسی ایشن)۔۔