تحریر: ناصر بیگ چغتائی
ادریس بختیار بھی بہت سی شکایتیں لے کر اپنے رب کے پاس چلے گئے ۔ اللہ مغفرت فرمائے اور ان کو جنت میں بہترین جگہ دے ہمارے تعلقات بے تکلفانہ کبھی نہیں رہے لیکن مستقل اور مستحکم تھے ۔ میرے بڑے تھے لہذا میں نظریاتی اختلاف بیچ میں نہیں لاتا تھا ۔۔۔اعلی صحافی بہترین انسان ۔۔۔۔۔بہت سی باتیں ہیں کل پرسوں لکھوں گا ۔ ہم کم ملتے تھے لیکن مستقل رابطے میں تھے ۔ پانچویں منزل سے وہ آتے تھے پھر ہر موضوع پر بات ہوتی تھی ۔ جیو اور جنگ میں جب برطرفیوں کی وبا چلی تو میرا اور ان کا واحد مسلہ یہ تھا کہ 25 اور 20 ہزار والوں کو کس طرح بچایا جائے ۔۔۔۔اسی دوران برطرفیاں شروع ہوگئین ۔ یہ بھی پتہ چل گیا کہ فیرستیں کہاں بن رہی ہیں ۔۔۔ان کو یقین نہین آتا تھا کہ یہ اس دور میں ہوسکتا ہے ۔۔۔پھر جواد نظیر کا لاھور سے فون آیا ۔ اس نے بم دے مارا کہ افتخار احمد ، روف صاحب اور خود جواد سے استعفی مانگے گئے ہیں ۔ ہم حیرت زدہ رہ گئے جواد نے بہت کچھ کہا وہ سخت ذہنی دباو میں تھا ۔۔۔۔وہ نوٹس پیرڈ مکمل ہونے پر خاموشی سے مرگیا یہ صدمہ اسے لے بیٹھا پھر اطلاع ملی کہ میرے بھائیوں سے بھی بڑھ کر عارف الحق عارف صاحب کا شعبہ ہی بند کردیا گیا سب فارغ ۔۔۔۔بس ایک تلوار تھی جو چل رہی تھی ۔ اس کے بعد مجھے حکم مل گیا کہ میاں ناصر بیگ چغتائی’ بس سارے وعدے ہوا ہوئے رخت سفر باندھ لو۔۔۔پھر ملیں گے اگر خدا لایا ۔۔یہ میں جانتا ہوں کہ مجھ پر کیا گزری لیکن ادریس بختیار صاحب ۔۔۔ 3 دن تک مستقل رابطہ میں رہے ۔ سخت طیش میں تھے ” کچھ کرنا ہوگا سینکڑوں نوجوان بھی نکال دئے ہیں “
لیکن پھر ایک شب فیس بک پر ان کا پیغام پڑھا: جیو نے مجھے نکال دیا ہے ” ایک گھنٹے بعد یہ پیغام ہٹ گیا ۔ پیغام سے پہلے اور بعد کی گفتگو بھی امانت ہے اور 2 ہفتے قبل کی جب انہوں نے ڈانٹ کے کہا تھا ” تھلیم ٹیسٹ ” کیوں نہیں کراتے ۔۔۔۔بہت ہے لکھنے کو ۔۔۔۔۔لیکن کل کے بعد ۔۔۔۔اگر زندگی رہی۔۔۔(ناصربیگ چغتائی)۔۔