تحریر: شکیل بازغ
ایک سینئر جرنلسٹ فہد حسین نے پاکستانی میڈیا پر شام سات سے رات گیارہ بجے تک اڑتالیس چینلز پر بیٹھے کم و بیش دو سو پچاس(250) اینکرز اور چار سو بتیس(432) پروگرام میں مدعو مہمانان کی ان بیٹھکوں کو سرکس قرار دیتے ہوئے دکھی دل سے یہ اقرار کیا کہ بدقسمتی سے وہ بھی اس سرکس کا حصہ ہیں کیونکہ انکا تعلق بھی اسی میڈیا سے ہے۔۔ فہد حسین کے دیئے گئے عددی اعشاریوں میں کمی بیشی ممکن ہے لیکن بات میں اتفاق کرنے کیلئے خاصا مواد ہے۔۔ انہوں نے بہترین نکات اٹھائے جس میں اینکرز کی صحافتی ذمہ داریوں سے نابلدی مطالعے کا فُقدان اور مہمانان کو پیشگی موضوعات بارے آگاہی نہ دینے کو غیر سنجیدگی سے تعبیر کیا ہے۔ جس سے میں کافی حد تک متفق ہوں۔ یہ بات درست ہے کہ ٹی وی جسے معاشرے کی اخلاقی و علمی ذہن سازی کرنا تھی وہ عوام کی پسند ناپسند کے پیروکار بن کر زیادہ معروف ہونے کے نشے اور حرص میں صحافتی سنجیدگی کے معیار پر سمجھوتہ کرکے ٹی وی سکرین کو ایڈیٹ باکس ثابت کررہے ہیں۔ درجن بھر ایسے پروگرام اینکرز ہیں جن کا کانٹینٹ قابلِ تعریف ہوتا ہے۔ زیادہ تر ایک ہی طرز کے پروگرام دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کہ دن کے سیاسی و سماجی معاملے کو پکڑا دو تین مختلف آراء کے حامل افراد کو بطور مہمان بلایا۔ انہیں سیٹ پر بٹھا کر بتایا کہ یہ موضوع ہے اور بس شروع ہو جائیں۔ عوام چونکہ تماش بین ثابت ہوئے ، انہیں سرخ ہوتے چہرے بلند آواز میں اینکر کی دبی آواز جھاگ اگلتے زہر آلود لہجے اور باتوں میں برتری کا رویہ پسند ہے اسی لیئے اینکر اس سارے شور شرابے میں زبردستی مُخل ہوکر بریک یا ادھورے کلوزنگ ریمارکس کیساتھ پروگرام مکمل کرنا ہی کامیابی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ پروگرام کو چار چاند تب لگتے ہیں جب مہمانانِ گرامی پہلو میں بیٹھے مہمانان پر پانی۔اچھال دیں تھپڑ رسید کردیں۔ یا کسی بد تہذیبی کا مظاہرہ کردیں۔ کیونکہ پروگرام کا وہ کلپ جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوگا تو پروگرام مشہور ہوگا۔ اینکر معروف صحافی بنے گا۔ شہرت کا سستا ترین رستہ یہی ہے کہ آپ کے پروگرام میں کچھ غیر متوقع ہوجائے۔
فہد حسین نے اینکرز کے مطالعہ نہ کرنے کی روش کو بھی خوب شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ کیونکہ مطالعہ نہ ہوگا تو پروگرام HITکرنے کے شوق میں اینکرز ان واقعات کے ہونے کی خواہش کررہے ہوتے ہیں جو انکے پروگرام کو معاشرے میں زیادہ سے زیادہ زیر بحث لائیں۔ جو اینکرز خوب تیاری سے مہذب مہمانان کیساتھ سلیقے سے علمی و معلوماتی سنجیدہ نوعیت کا پروگرام کرنے کے قائل ہوتے ہیں وہ دیگر کی نسبت یقیناً عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ بدتہذیبی و غیر متوقع واقعات کے سہارے سے ہوسکتا ہے زیادہ لوگوں تک ایسی ویڈیو پہنچے۔ لیکن بحیثیت مجموعی سنجیدہ صحافتی حلقوں میں sub standard شو کہا سمجھا جاتا ہے۔ اسکی اصل وجہ ہماری ملکی طرزِ سیاست ہے۔ مختلف رنگ کی منقسم الخیال پارٹیوں کے سربراہان جس بد دماغ طریقے سے عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں سے عوام کا رجحان بنتا ہے اور خصوصاً سیاست کے فلدادہ عوام وہی لفظی جنگ اور دست و زبان درازی جب ٹی وی پر دیکھتے ہیں تو انکو دلی تسکین محسوس ہوتی ہے۔
ہمارے ملک کا میڈیا عوام کے جنبشِ ابرو کی رہنمائی پر چلتا ہے۔ جبکہ اسے تو سنجیدہ اور علمی حصول اور معلومات میں اضافے کی غرض سے گھر میں گھسایا گیا تھا۔ نہ جانے یہ سیاسی و میڈیائی سرکس کب ختم ہوگی۔ ہم کب اخلاقیات کے معیار پر سوچنا شروع کریں گے اور ہمارے اینکرز کب معاشرے کی اچھی تربیت میں اپنا کردار ادا کریں گے سیاستدان تو یہ کام کبھی سرانجام نہیں دیں گے۔اوپر سے موجودہ حکمران میڈیا کو اپنے خاص بیانیئے پر لانے کیلئے جس طرح حقہ پانی بند کرنے پر کاربند ہے۔ تعمیری کنٹینٹ کی توقع ممکن نہیں۔ وہی paid اور deputed نقطہ نظر۔ جسکے لیئے مطالعے سے زیادہ حکومتی ڈکٹیشن سمجھنے کی ضرورت ہوگی۔(شکیل بازغ)