تحریر: علی حسن۔۔
پاکستان اقتصادی مسائل کے جس دلدل میں پھنسا ہوا ہے، اس کا کوئی حل نظر نہیں آر ہاہے ۔ طفل تسلیاں ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ حکومت کسی کی بھی ہو انہیں ایک ہی حل سمجھ میں آتا ہے کہ چلو مزید قرضہ لے لیتے ہیں۔ جیسے تیسے کر کے آئی ایم ایف کی دہلیز پر پہنچ جاتے ہیں۔ بظاہر طویل بحث و مباحثہ کے بعد آئی ایم ایف چند کوڑیاں ہماری طرف پھینک دیتا ہے۔ اس میں سے بھی بڑا حصہ آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضے کو سود کی ادائیگی پر لگا دیا جاتا۔ آئی ایم ایف ایک ہاتھ سے دیتا ہے، دوسرے سے واپس لے لیتا ہے۔ اسی پر کہا جاتا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ ملک کو معاشی طور پر مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے کی کوئی صورت پیدا کرنے کی منصوبہ بندی ہی نہیں کی جاتی ہے۔ ایک ہی بات اصان نظر آتی ہے جیسا آج کل ایک بار پھر شور آٹھا ہے کہ حکومت نجکاری کے لئے ذہن بنا بیٹھی ہے۔ حکومت یا اس کے ماتحت معاشی ماہرین کو کچھ اور نہیں سوجھتا ہے سوائے اس کے زیادہ سے زیادہ ٹیکس لگائیں یا اپنے اثاثوں کی نجکاری کریں۔ جب سب ہی کچھ نجکاری کی نذر ہو جائے گا تو پھر کیا فروخت کریں گے۔ سنا گیا ہے کہ پی آئی اے فروخت کرنے کا منصوبہ ہے، ریلوے کی ٹرینوں کو نجی اداروں کو دیا جا رہا ہے۔ بجلی کی کمپنیوں کی نجکاری کی ایک بار پھر منصوبہ بندی ہے۔ کراچی میں بجلی کمپنی کی نجکاری کر کے کیا حاصل ہو گیا ہے؟ پی آئی اے کے بارے میں تو کہا جا رہا ہے کہ چین نے لیز پر لینے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومتوں سے ایک سوال کیا جا سکتا ہے کہ ماضی میں خصوصا جنرل ضیاءالحق کے دور سے جو بھی نجکاری کو عمل ہوا ہے اس سے ملک کو کیا فائدہ پہنچا ہے۔ کیا اس نجکاری کی وجہ سے پاکستان اپنے ذمہ واجب قرضے ادا کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ کیا ان قرضوں میں کوئی بتا سکتا ہے کہ ملک کو کیا فائدہ پہنچا۔ پرل کانٹینینٹل ہوٹل کی چین کو کوڑیوں کے مول فروخت کیا گیا۔ حبیب بنک، مسلم کمرشل بنک، یونائٹڈ بنک، آلائڈ بنک وغیرہ کو فروخت کر کے کچھ افراد کو فائدہ پہنچا یا ملک کو ؟ ٹیلی فون کے محکمہ کو ان کے دفاتر کی عمارتوں اور زمین کو کوڑیوں کے مول کیوں فروخت کیا گیا تھا۔ کس کے اشارے پر یہ فروخت کئے گئے اور کن لوگوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔ اس طرح درجنوں بیش بہا قیمتی ادارے اور اثاثے فروخت کر دئے گئے۔ کہا گیا کہ حکومتوں کو کام کاروبار کرنا نہیں ہے۔پاکستانیوں کو کہا جاتا رہا کہ ادارے نقصان میں تھے اس لئے فروخت کر دئے گئے۔ اداروں کا یہ نام نہاد نقصان بنیاد بنا کر اسی بہانے فروخت کر دئے گئے۔ ہمارے ملک میں چوں کہ ملازمین ضرورت سے بہت زیادہ بھری کر لئے جاتے ہیں جن کی اکثریت سفارش کی بنیاد پر بھرتی کی جاتی ہے اسی لئے اداروں کی کارکردگی صفر ہو جاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ اداروں کو بہتر کیا جائے اور کارکردگی کو معیاری بنایا جائے ، ہمارے حکمران نجکاری کی طرف دیکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں حکومتیں اپنے عوام کے مفاد میں یہ سارے ادارے چلاتی ہیں جو پاکستان میں آنکھ بند کر کے فروخت کر دئے گئے۔ اب ایک بار پھر یہ سازش کی جارہی ہے۔ دنیا دیکھے گی کہ پاکستان کے یہ اثاثے پاکستان کے دولت مند افراد اور خاندان ہی خریدیں گے۔ ماضی میں بھی تو ایسا ہی ہوا۔ کس کس کے نام گنائے جائیں۔ اس ملک کو تو گھر کے چراغوں سے ہی آگ لگ گئی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ معیشت کو ٹھیک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ زرداری اور شریف خاندان کے جو اربوں ڈالر باہر پڑے ہیں اگر اس کا آدھا بھی پاکستان لے آئیں تو معیشت ٹھیک ہو جائے گی“۔ گلو کار علی ظفر نے تو دولت مند افراد سے اپیل کی ہے کہ اپنی دولت کا صرف پانچ فیصد ملک کو دے دیں تاکہ ملک اقتصادی بحران سے نکل سکے۔ وہ پاکستانی کہاں سے آئیں گے جنہوں نے قیام پاکستان کے وقت اس ملک کو اس کے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کی تھی۔ راجہ صاحب محمود آباد، ابوالحسن اصفہانی، ظفر الحسن لاری، آدم جی اور درجنوں دیگر افراد نے اپنی دولت میں پاکستان کو حصہ دار بنایا تھا اور اسے اسکے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کی تھی۔
وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے جلد1.9 ارب ڈالر مل جائینگے جس کا بوجھ عوام کو ہی اٹھانا ہوگا، اصل منزل خودانحصاری ہے ۔سپر ٹیکس کا پیسہ ضائع نہیں ہونے دینگے، ریئل اسٹیٹ ملک کا حصہ ہے.سٹے بازی نہیں ہونی چاہیے، زراعت کے شعبہ کی ترقی کیلئے کسانوں کو سہولیات دی جائینگی، سرخ فیتے ، پرمٹ، این او سی، دفاتر اور سفارش کا چکر اب ختم ہونا چاہیے۔ ۵۷ سال میں پاکستان بہت پیچھے رہ گیا۔ وہ منگل کے روز ٹرن اراﺅنڈ پاکستان کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ خود انحصاری اصل منزل ہے۔ خودانحصاری ہی کسی قوم کی سیاسی اور معاشی آزادی کی ضمانت ہوتی ہے اس کے بغیر کوئی قوم آزادنہ فیصلے نہیں کرسکتی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ حکمران طبقہ کسی بھی دور میں اپنے لئے سرکاری اخراجات میں ایک پیسے کی کمی بھی نہیں کرنا چاہتا ہے۔ قرضوں پر تو کب تک جئے گے؟
جہاں تک آئی ایم ایف یا دیگر اقتصادی اداروں سے لئے جانے والے قرضہ کی واپسی کا تعلق ہے ، اس کے بارے میں ایک امریکی کانگرس مین نے ایک اجلاس میںکہا ” حقیقت یہ ہے کہ غریب ممالک کبھی بھی اپنے قرضے نہیں اتار سکتے۔ سنیٹر سے سوال کیا گا کہ کیا آپ غریب ممالک کو قرضے دینے کے خلاف ہیں۔ ان کا جواب تھا ” نہیں، ان کے قرضے معاف کر دینا چاہئے۔ لیکن اس سے ان ملکوں کو کوئی خاص مدد نہیں ملے گی۔ پھر کیا حل ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ ان ملکوں میں ٹیکس میں کٹوتی ہوناچاہئے۔کچھ افریقی ممالک میں ٹیکس دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔ تنزانیہ میں صرف ۵۷۴ ڈالر آمدنی پر ۰۳ فیصد ٹیکس لگتا ہے۔ اس کے اوپر ۰۲ فیصد ٹیکس ہر چیز پر لگتا ہے جو آپ خریدتے ہیں۔ اب اس ٹیکس ریٹ سے ان ممالک میں سرمایہ بنانا نا ممکن ہے۔ تو کچھ بھی نہیں بنتا ہے۔ کوئی فیکٹری نہیں، کوئی سڑک نہیں۔ غریب ترین افریقی ممالک میں دنیا میں سب سے کم اجرت والے مزدور مل جاتے ہیں۔ اور پھر بھی مثال کے طور پر نائکی جیسی کمپنی بھی زیادہ ٹیکس کی شرحوںکی وجہ سے فیکٹری نہیں لگا سکتی۔ کسی بھی اقتصادی ترقی کا کوئی سبب ہی نہیں بنتا ہے اور یہ امید بھی ختم ہو جاتی ہے کہ یہ ممالک خود اقتصادی ترقی کر سکتے ہیں۔ ٹیکس کی بلند شرح کبھی بھی اقتصادی ترقی نہیں کرنے دے گا۔ اور یہ انہیں خیرات اور قرض کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ ممالک کبھی بھی اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ ان ممالک میں بچے بھوکے رہیں گے۔ بیماریاں بڑھیں گی“۔ مرحوم ڈاکٹر مہاطیر محمد نے ملائیشیا کے وزیر آعظم کی حیثیت سے ایک بیان میں کہا تھا کہ چین بہت بڑی رقمیں لے کر آپ کے پاس آئے گا، اور قرضہ دینے کی پیش کش کرے گا، لیکن یہ آپ کے سوچنے کا کام ہے کہ یہ قرضہ واپس کیسے ہوگا۔ کچھ ممالک صرف منصوبوں کو دیکھتے ہیں لیکن قرضہ کی ادائیگی کے حصہ کو نہیں دیکھتے ہیں۔ اس طرح سے وہ( قرض لینے والے ممالک ) اپنے ملک کے بڑے حصے (علاقے) کھو دیتے ہیں۔ ہم ایسا نہیں چاہتے ہیں“۔(علی حسن)