تحریر: نائلہ حنا
اگرچہ مشرق نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں مغرب کی طرز پر ترقی تو نہیں کی لیکن ابن صفی کے تخیل نے کچھ چیزیں سائنسی انداز میں ضرور اختراعات کیں۔ انسان کا تخیل ہمیشہ خوب سے خوب تر، بلند سے بلند تر کی جستجو کرتا آیا ہے۔ الف لیلوی داستانوں میں کبھی وہ پرندوں کی طرح پرواز کے خواب دیکھتا تو کبھی سیمرغ پر سوار ہو کر آسمانوں کا رُخ کرتا، اور کبھی اُڑن قالین پر بیٹھ کر پرواز کے مزے لیتا۔
اندلس کا عباس ابنِ فرناس ان ہی کوششوں میں اپنی ہڈیاں تڑوا بیٹھا جبکہ لیونارڈو ڈاونسی کی پرانی ڈرائنگز سے آج معلوم ہوچکا ہے کہ وہ بھی فضا میں انسانی پرواز کے خواب کی تعبیر پانے کی جستجو میں تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کامیابی بیسویں صدی کی ابتداء میں رائٹ برادران کے حصے میں آئی اور ہوائی جہاز ایجاد ہوا۔آج انسانی شعور کی بلوغت کا دور ہے لیکن انسانی شعور اور لاشعور کو اس منزل تک پہنچنے میں صدیوں کا سفر طے کرنا پڑا ہے۔ اور اس سفر کے دوران حضرتِ انسان نے محض اپنے تخیل کے زور پر طرح طرح کی ایجادات و اختراعات کر ڈالیں۔ یہ ایجادات ہمیشہ پہلے افسانوں، کہانیوں اور خواب کی شکل یا آرٹ کے نادر نمونوں، ڈرائنگ وغیرہ کی صورت میں صرف ایک خیال، تصور، آئیڈیا، خواب یا شاہکار فن ہی رہیں، جو آخرکار ترقی کرتے کرتے ایجاد کی حیثیت سے ظہور پذیر ہوئیں۔
یہ لکھنے کا مقصد واضح کرنا تھا کہ ابن صفی کوئی سائنسداں یا موجد ہرگز نہیں تھے لیکن اُن کے تخیل کی پرواز بہت بلند اور اپنے وقت سے بہت آگے تھی۔ ایشیا کے عظیم ترین مصنف، جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ اور نفسیاتی و سائنسی، رومانوی و ادبی رجحانات کے امتزاج سے جنم لینے والی لازوال کہانیوں کے روح رواں اسرار احمد ناروی عرف ابن صفی کا نام دنیائے ادب میں کسی تعریف کا محتاج نہیں۔ انہوں نے کئی دہائیوں تک جاسوسی ادب میں اچھوتی اور حقیقت سے بہت قریب کہانیاں لکھ کر قارئین کے دلوں پر راج کیا۔ ان کے دو جاسوسی سلسلے ہر ماہ پابندی سے شائع ہوتے رہے۔ جاسوسی دنیا اور عمران سیریز۔ جاسوسی دنیا کا مرکزی کردار کرنل فریدی جبکہ عمران سیریز کا ہیرو علی عمران (پی ایچ ڈی، ڈی ایس سی، آکسن) ہوا کرتا تھا۔اگرچہ مشرق نے سائنس و فنون میں مغرب کی طرز پر ترقی تو نہیں کی، مگر ابن صفی کے تخیل نے کچھ چیزیں سائنسی انداز میں ضرور اختراع کیں۔ابن صفی کے سحر انگیز قلم نے نسلوں کو متاثر کیا۔ میرا دعویٰ ہے کہ اگر آج کی نسل ابن صفی کا مطالعہ کرلے، تو وہ بھی میری ہی طرح سے ان کی گرویدہ ہوکر رہ جائے گی۔ یہاں میں ابنِ صفی کی تخلیقات میں پیش کی گئی چند تخیلاتی سائنسی ایجادات کا تذکرہ کررہی ہوں جسے پڑھنے کے بعد آپ کو میرے دعوے کی سچائی کا اندازہ ہوجائے گا۔
الیکٹروگس: یہ ایجاد ابنِ صفی کی ’’عمران سیریز‘‘ کے ان قسط وار ناولوں میں پیش کی گئی جن میں ’’تھریسیا بمبل بی آف بوہیمیا‘‘ (ٹی تھری بی) پہلے پہل علی عمران کے مدمقابل آئی تھی۔ الیکٹروگس ایک طرح کی لیزر گن تھی جو ابن صفی نے آج سے ساٹھ سال پہلے ہی اپنے ناولوں میں ایجاد کرلی تھی۔ اگرچہ لیزر کا تصور مغربی مصنّفین کے یہاں بھی موجود تھا لیکن ابن صفی کی یہ تخیلاتی لیزر گن، جو دیکھنے میں پستول جیسی ہوتی تھی، ایٹمی بیٹری کی طاقت سے کام کرتی تھی۔ اس زمانے میں لیزر گن کا تصور سائنس فکشن ناولوں میں ضرور موجود تھا لیکن ایٹمی طاقت سے چلنے والی بیٹری کا تخیل اس کے بہت بعد سامنے آیا اور جس پر بیسویں صدی کے اختتام سے تحقیقی کام کا آغاز ہوا۔
کپل ٹیکاز: انہی ناولوں میں ایسے آلات کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے جو دماغی لہروں کی مدد سے ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنے اور دوسروں کی بات سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اگرچہ بعد میں کپل ٹیکاز ایک دھوکا ثابت ہوتے ہیں لیکن باہمی رابطے کے لئے دماغی لہروں کے استعمال کا تصور مکمل طور پر سائنسی ہے، اور ہم اس کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ اس طریقے پر کام کا آغاز ابنِ صفی کے بہت بعد میں ہوا۔
فے گراز:یہ ایک طرح کی اُڑن طشتری جیسی چیز تھی جس کا تذکرہ ابن صفی نے اپنے ناولوں میں کیا تھا۔ یہ زمین سے کسی طیارے کی طرح اُڑان بھرتی اور خلاء کے کنارے تک پہنچ جایا کرتی تھی۔ اس کی شکل آج کل کے ’’ورجن اٹلانٹک‘‘ نامی جہاز سے مشابہ بھی ہے جس پر انسانوں کے لئے خلائی سیر و سیاحت ممکن بنانے کے منصوبے جاری ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اُڑن طشتری بہت پرانے زمانے سے ناولوں میں رائج ہے۔
فولادمی: ان کے ناول ’’طوفان کا اغوا‘‘ (1957ء) میں ’’فولادمی‘‘ نامی ایک روبوٹ دکھایا گیا جو ٹریفک کنٹرول کرتا تھا اور سماجی فلاح و بہبود کے کام انجام دیتا تھا۔ اس زمانے میں اگرچہ روبوٹس اور مصنوعی ذہانت کا تصور موجود تھا لیکن یہ باتیں صرف مغرب تک محدود تھیں اور اہلِ مشرق ان سے بہت کم واقف تھے۔ لیکن اُس ابتدائی زمانے ہی میں ابن صفی نے جس طرح ان باتوں کو سمجھا اور ایک امکان کی صورت اپنے ناول میں پیش کیا، وہ بجا طور پر قابل تحسین ہے۔
تخیلاتی ایجادات کے علاوہ ابن صفی کی خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ناولوں میں دنیا کے مختلف علاقوں اور ملکوں کی سیر کروائی کہ جہاں انہوں نے کبھی خود قدم نہ رکھا تھا۔ اس کے باوجود، جب بعد ازاں ابن صفی کے قارئین نے وہ جگہیں خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں تو منظر ویسا ہی پایا جیسا ابن صفی نے اپنے ناولوں میں بیان کیا تھا۔ یہ ان کے تخیل کی پرواز کا کرشمہ تھا، جو آج کسی عجوبے سے کم نہیں۔ مثلاً ’’ایڈلاوا‘‘ نامی ناول میں اٹلی کی جھیل ’’کومو‘‘ (Como) کا تذکرہ ہے، جو حقیقتاً ویسی ہی ہے جیسی ان کے ناول میں بتایا گیا۔
ابن صفی کے تخیل نے ترقی کا سفرعشروں پہلے طے کر لیا تھا جن پر عملدرآمد آج کی دنیا میں ممکن ہوا۔ اگر آج کے نوجوان بھی ابن صفی کی تحریروں کا مطالعہ کریں تو یقنناً تخیل کی اس صلاحیت کو سراہے بغیر نہ رہ سکیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)