تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ازدواجی زندگی میں میاں بیوی کو کیا ایسے کام کرنے چاہئیں کہ ان کا تعلق دیرپا ثابت ہو؟ ایک امریکی ویب سائٹ پر کسی لکھاری نے اپنی کامیاب 20سالہ ازدواجی زندگی کے بعد اپنے تجربات بیان کیے ہیں اور لوگوں کو کچھ مفید مشورے دیئے ہیں۔ اس آدمی نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا ہے کہ میں نے اپنی بیس سالہ شادی شدہ زندگی سے یہ سیکھا ہے کہ میاں بیوی کو ایک ٹیم کی صورت میں کھیلنا چاہیے اور مشترکہ مقاصد متعین کرکے مشترکہ منازل طے کرنی چاہئیں۔ میاں بیوی کا ہر مسئلے پر باہم بات چیت کرنا انتہائی اہم ہے۔ آدمی نے بتایا کہ ’’میاں بیوی کو ایک دوسرے کے ماضی کے متعلق آگاہی ہونی چاہیے اور اپنے شریک حیات کے متعلق یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ وہ کبھی بھی اپنا پارٹنر تبدیل نہیں کرے گا۔ میاں بیوی کو مسائل درپیش آنے کی صورت میں ایک دوسرے پر الزام ڈال کر باہم جھگڑا شروع نہیں کرنا چاہیے بلکہ مل کر مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہیے۔ اس معاملے پر میں یوں کہوں گا کہ مسائل کی صورت میں میاں بیوی کو ’میاں بمقابلہ بیوی‘ کھیلنے کی بجائے ’میاں بیوی بمقابلہ مسائل‘ کھیلنا چاہیے۔‘‘آدمی اپنی پوسٹ میں لکھتا ہے کہ ’’شادی شدہ لوگوں کو ہر معاملہ طے کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ شادی شدہ ہیں۔ شادی میں صرف تم نہیں ہو، تمہارے ساتھ ایک اور فریق بھی ہے اور تمہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ازدواجی زندگی میں ہمہ وقت وہ نہیں ہو سکتا جو صرف تم چاہتے ہو۔زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسے مراحل بھی آتے ہیں جہاں ازدواجی تعلق بھی ایک مسئلہ بنتا ہے۔ اس مسئلے کی طرف بھی آپ کو توجہ دینی چاہیے۔ ازدواجی تعلق کم یا ناقص ہونا بھی آپ کے رشتے پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔تاہم یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی کے لیے سب سے اہم چیز باہمی اعتماد ہے۔ ازدواجی تعلق بھی اس سے بعد میں آتا ہے۔میاں بیوی اگر ایک دوسرے کی نظر میں اپنا اعتماد بحال رکھنے کی دانستہ کوشش کرتے ہیں تو ان کا ازدواجی تعلق مضبوط اور طویل ہوسکتا ہے۔‘‘ شادی شدہ عورتوں کے ایک سیمینار میں ان سے ایک سوال پوچھا گیا! آپ نے آخری بار اپنے شوہر کو’’آئی لو یو‘‘کب کہا تھا؟۔۔ کسی نے کہا، آج ہی کہا ہے۔ کسی نے کہا ، تین دن پہلے۔۔کسی نے کچھ کہا، کسی نے کچھ۔۔ سیمینار کے منتظمین نے پھر تمام خواتین سے کہا کہ۔۔سب اپنے اپنے موبائل سے اپنے اپنے شوہر کو’’آئی لو یو‘‘لکھ کر میسیج کریں گی اور جس کا سب سے اچھا جواب آئے گا اس کو دس تولہ سونا انعام دیا جائے گا۔۔سونا تو خواتین کی کمزوری ہوتا ہے، سب نے فٹافٹ اپنے شوہروں کو موبائل فون پر آئی لویو لکھ کر بھیج دیا۔۔ کچھ دیر کے بعد ان کے شوہروں کے جواب آنا شروع ہوگئے، جو کچھ اس طرح سے تھے۔۔ تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے ناں؟۔۔۔گھر کا خرچہ ختم ہو گیا کیا؟۔۔۔کہیں تم میکے تو نہیں جا رہی ہو؟۔۔۔لگتا ہے آج گھر پر کھانا نہیں بنے گا؟۔۔۔کیا مطلب؟۔۔۔تم خواب میں ہو یا میں خواب دیکھ رہا ہوں؟۔۔۔رشیدہ کی شادی میں کسی کی جیولری پسند آ گئی کیا؟۔۔۔آفس میں اتنا ٹینشن ہے اور تمھیں عاشقی سوجھ رہی ہے۔۔!۔کتنی بار کہا ہے رومانٹک سیریل مت دیکھا کر!۔۔۔آج پھر گاڑی ٹھوک دی کیا؟منتظمین نے تمام خواتین کے شوہروں کے جواب نہایت سکون سے پڑھے جس کے بعد جیوری نے جس جواب کو دس تولہ انعام کے لیے چنا ، وہ جواب انتہائی خطرناک تھا۔۔ ’’آئی لو یو ٹو، بٹ ہُو آر یو؟؟‘‘۔۔ ایک صاحب کہتے ہیں کہ دفتر جاتے ہوئے روزانہ ان کی بیگم انہیں کچھ نہ کچھ یاد دلاتی تھی کہ دیکھیئے آپ چابی بھول کر جا رہے ہیں، آپ نے اپنی گھڑی نہیں اٹھائی، آپ کا پرس یہیں رہ گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ کہتے ہیں میں بڑی سبکی محسوس کرتا تھا اور ایسے لگتا تھا جیسے میری بیوی مجھے فاتر العقل سمجھ کر ترس کھاتے ہوئے یہ چیزیں یاد دلاتی ہے۔ ایک رات کو سونے سے پہلے میں نے اپنے ساتھ لے جانے والی ہر جیبی اور دستی چیز کی ایک چیک لسٹ بنائی۔ صبح اٹھ کر چیک لسٹ پر ایک ایک چیز کو نشان لگا کر جیب میں ڈالا اور کار میں جا کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ دروازے پر گھر والی نمودار ہوئی، ایک تجاہل عارفانہ شان سے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے مجھے متاسف نظروں سے دیکھا۔ میں نے بھی وہیں سے بیٹھے بیٹھے اسے کہہ دیا کہ بس بہت ہو گئی: آج میں کچھ نہیں بھولا اور تمہاری ان سب گزشتہ عنایات کی بڑی مہربانی۔ گھر والی نے کہا۔۔ چلو وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب واپس آ کر دوبارہ سے سو جائیے کیونکہ آج اتوار ہے اور آپ کے دفتر میں اتوار کو ہفتہ وار چھٹی ہوتی ہے۔ ایک دن موسم خوشگوار تھا تو شوہر نے ایسے ہی بیگم سے کہا ،آؤ کہیں چہل قدمی کر کے آتے ہیں۔۔میاں بیوی گھر سے باہر نکلے تو سامنے ہمسائی کھڑی تھی جب اس پر شوہر کی نظر پڑی تو شوہر نے مذاق میں بیگم سے کہا۔۔ پتہ نہیں روز بروز اس کی عمر بڑھنے کی بجائے کم کیوں ہوتی جاتی ہے؟؟بیگم مسکرا کر بولی، آؤ گھر واپس چلیں ۔۔میاں بیوی گھر واپس چلے گئے، اگلے دن جب شام کو شوہر واپس گھر آیا توبیگم نے پوچھا، میں کیسی لگ رہی ہوں؟؟ شوہر نے کہا، ارے واہ بیگم، بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔۔بیگم بولی۔۔ میری عمر کم لگ رہی ہے ناں، سات ہزار کا سوٹ، دو ہزار کی جوتی، تین ہزار کا باقی سامان ۔۔بارہ ہزار کی شاپنگ کی ہے میں نے۔۔شوہر نے بڑے نرم لہجے میں پوچھا۔۔بیگم اتنے پیسے آئے کہاں سے؟؟ بیگم مسکر اکر بولی۔۔ جو گھر کے راشن کے روپے تھے ان کی شاپنگ کی ہے اب آپ جلدی سے گھر کے راشن کا انتظام کرلیں۔۔شوہر کے ہاتھ سے پانی والا گلاس بھی گِر گیا۔۔ اب بیگم ہر مہینے پوچھتی ہے میری عمر کم ہو رہی ہے ناں۔۔شوہربے چارہ نظریں جھکا کرجواب دیتا ہے۔۔بیگم پہلے گھر کا راشن لے آؤں، پھر بتاتاہوں ،تم کیسی لگ رہی ہے۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کہتے ہیں کہ روسی صدر پیوٹن نے ایک بارکہا تھا کہ، پاکستان پاکستانیوں کے لیے قبرستان ہے،وجہ پوچھنے پر پیوٹن نے کہا،جب کوئی پاکستانی امیر ہوجاتاہے تووہ اپنا بینک اکاؤنٹ سوئٹزر لینڈمیں رکھتا ہے۔ علاج معالجہ کے لیے امریکا اور برطانیا جاتاہے۔ شاپنگ دوبئی اور یورپ سے کرتا ہے۔ چائینہ کی چیزیں خریدتا ہے۔ عبادت مکہ اور مدینہ میں کرتا ہے۔ اولاد یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتا ہے۔ سیر کرنے کے لیے امریکا برطانیا اور کینڈا کا سفر کرتا ہے۔ جب مرجاتا ہے تو وہ اپنے آبائی وطن پاکستان دفن ہوتا ہے۔جب پاکستانی پاکستان کو قبرستان سمجھتے ہیں تو پھر سوچو، قبرستان کیسے ترقی کرسکتا ہے؟؟خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔