تحریر: احسن اقبال، ایبٹ آباد۔۔
تاریخ اسلام ہمیں دو ایسے ادوار سے متعارف کراتی ہے جن میں سے ایک میں صدیق اکبرؓ کی استقامت اور دوسرے میں حضرت حسینؓ کی ثابت قدمی نے رہتی دنیا کے لئے حقانیت کا ایسا نقش چھوڑا جس کی کوئی نظیر پیش کرنا ممکن نہیں۔ ایک میں دور نبوت دور خلافت کی طرف منتقل ہوتا ہے تو دوسرے میں دور خلافت دور ملوکیت کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے ایک دور میں خلافت کی ابتداء ہوتی ہے تو دوسرے میں خلافت کی انتہا۔ خلافت کی ابتدا صدیق اکبرؓ سے ہوتی ہے تو اس کی انتہاء پر ہمیں حضرت حسینؓ کی شہادت حق و باطل میں فرق کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آئیے ایک جائزہ دونوں ادوار کا لیتے ہیں اور صدیقی اور حسینی مماثلت کے اس سِرّ عیاں کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
زمانہ نبوت کے اختتام پر زمانہ خلافت کی ابتدا ہوئی۔ آپؐ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت صدیق اکبر ؓ خلیفہ مقرر ہوئے۔ ایک طرف صحابہ آپؐ کی جدائی کے غم میں ڈوبے تھے تو دوسری طرف طرح طرح کے فتنے سر اٹھانے لگے۔ ان فتنوں میں فتنہ ارتداد، ختم نبوت پر ڈاکہ زنی اور منکرین زکوٰۃ کامعاملہ سر فہرست تھا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت اسامہؓ کا وہ لشکر جسے آپؐ نے اپنی زندگی میں اسلامی سلطنت کی حفاظت کے لئے روانہ ہونے کا حکم جاری کر دیا تھا، لیکن آپؐ اس لشکر کی روانگی سے قبل ہی دنیا فانی سے رخصت ہو گئے۔
اربا ب سیر لکھتے ہیں کہ آپؐ کی وفات کے بعد صحابہ کرام کی حالت غیر ہو گئی تھی ، یوں لگتا تھا جیسے ان کی عقلیں سلب ہو چکی ہوں اور بعض حضرات ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں۔ حضرت صدیق اکبرؓ کو یہ خبر مقام سخ میں ملی تو آپ وہاں سے اشک بار آنکھوں کے ساتھ فوراً روانہ ہوئے اور رستے میں “”وا محمداہ—وانقطاع ظھراہ”” پکارتے رہے۔ حضرت عمرؓ کو آپؐ کی وفات کے بارے میں کسی سے کچھ سننا تک گورا نہ تھا ۔ حضرت عثمان ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ ان کے پاس سے حضرت عمرؓ کا گزر ہوا تو حضرت عمرؓ نے ان کو سلام کیا، لیکن حضرت عثمانؓ سلام سن کر بھی جواب دینے کی سکت نہ رکھتے تھے۔ حضرت علیؓ کی حالت یہ تھی کہ صدمہ کی وجہ سے اس طرح نڈھال بیٹھے تھے کہ چلنے پھرنے تک کی طاقت نہ رہی تھی۔جب صدیق اکبرؓ نے صحابہ کی حالت غیر دیکھی تو فرمانے لگے: سنو! جومحمدؐ کی عبادت کرتے رہے ، تو محمدؐ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ ہاں البتہ اگر آپ اللہ عز وجل کی عبادت کرتےہو تو وہ ہمیشہ زندہ رہنے والی ذات ہے اور ساتھ ہی سور ہ آل عمران کی آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ ہے کہ ” آپؐ صرف اللہ کے رسول ہیں، بے شک ان سے پہلے بھی رسول گزرے ہیں، تو کیا اگر وہ فوت ہوجائیں، یا شہید کر دیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاؤ گے‘‘ ۔ اس بیان سے صحابہ کا دل کافی مطمئن ہوا اور انہیں حوصلہ ملا۔
اس کے بعد دوسرا معاملہ ”سریہ اسامہ‘‘ کا تھا۔ آیا لشکر اسامہؓ کو روانہ کرنا چاہیے یا اسے فتنوں کے ارتداد کے لئے روک لیا جائے۔ اس معاملہ میں سب ہی پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ چند صحابہ نے اپنی رائے دی کہ صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر لشکر روانہ نہ کیا جائے۔لیکن واحد شخصیت حضرت صدیق اکبرؓ کی تھی جن کا حوصلہ اب بھی بلند تھا، جن کی استقامت میں کوئی کجی واقع نہ ہوئی تھی۔ بلکہ وہ پہلے کی طرح اب بھی ثابت قدم تھے۔ چنانچہ آپؓ نے فرمایا: ’’خدا کی قسم! میں اس علَم کو نہیں کھول سکتا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں نے باندھا ہو۔ خواہ ہمیں پرندے اچک لے جائیں۔ جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی کسی حال بھی ملتوی نہیں کی جاسکتی‘‘۔
اس کے بعد مدعیان نبوت، اور مرتدین کا معاملہ نہایت نازک تھا جس میں کوئی دو رائے نہ تھی ،لیکن جہاں تک بات منکرین زکوٰۃ کی ہے تو حضرت عمرؓ جیسے جلالی صحابی بھی نرمی کے قائل دکھائی دیئے۔ بخاری شریف کتاب الزکوٰۃ کی ایک روایت کا مفہوم یہ کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت صدیقؓ اکبر سے فرمایا آپ ان لوگوں سے کیسے قتال کرسکتے ہیں جبکہ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا کہ میں لوگوں سے قتال کروں جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہیں، پس جس نے کلمہ پڑھ لیا تو اس کی جان و مال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے تو صدیق اکبرؓ نے کہا : اللہ کی قسم جو صلوۃ و زکوۃ میں فرق کرے گا میں اس سے ضرور قتال کروں گا، زکوۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم ! اگر یہ زکوۃ میں آپؐ کو بھیڑ کا بچہ دیتے رہے اور مجھے دینے سے انکار کیا، تو بھی میں ان سے قتا ل کروں گا۔ تو عمرؓ فرمانے لگے اللہ کی قسم یہ اللہ کی جانب سے صدیق اکبر ؓ کا شرح صدر ہے اور میں نے جان لیا کہ وہ حق پر ہیں۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلافت کے ابتداء کا صدیق اکبرؓ کی استقامت کے ساتھ بہت گہرا تعلق دہے، کہ آپؐ کے وصال کے بعد بھی آپؐ کے دیے گئے احکام کو اپنی الوالعزمی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اس بارے کسی دوسری رائے کو بالکل توجہ نہ دی۔ اور آنے والے دور نے ان کی ثابت قدمی کو صد فی صد درست قرار دے کر انہیں بطور خلیفہ اوّل ایک بہترین انتخاب قرار دیا۔چنانچہ حافظ ظفر اللہ شفیق اپنی کتاب “امام حسین ؒ اور واقعہ کربلا ” میں رقم طراز ہیں کہ یہ پہلا کڑا وقت تھا کہ ایک طرف تنہا ابوبکر صدیقؓ تھے اور دوسری طرف امت۔ لیکن آئند زمانہ نے یہ ثابت کر دیا کہ ان ہی کا عزم مبارک تھا۔ اور انہی کی سوچ درست تھی۔
پھر فرماتے ہیں دوسرا دور وہ تھا جب امت کے سیاسی نظام کو خلافت کی پٹڑی سے ملوکیت کی پٹڑی پر ڈالنے کی کوشش کی گئی، یہ ایک بھیانک بدعت تھی، ہر شعبے کی بدعت کا اپنا خاص رنگ ہوتا ہے اور ہر شخص اسے کہاں سمجھ سکتا ہے۔ سب سے پہلے اس پرجن صحابہ کرامؓ نے اعتراض اٹھایا وہ امت کے سیاسی نظام کو سمجھتے تھے۔ جن کی پرورش خلافت کی آغوش میں ہوئی ، جو آپؐ کی صحبت و تربیت سے شرف یافتہ تھے۔ علم و شعور، تقوی و ورع کے اوصاف سے آراستہ تھے۔ یہ ابو بکر صدیقؓ کے فرزند عبدالرحمٰنؓ، عمرؓ کے بیٹے عبداللہؓ، علیؓ کے بیٹے حسین ؓ، زبیرؓ کے بیٹے عبداللہؓ اور عبداللہ بن عباسؓ بھی انہی کے ہمنوا تھے۔ یزید کی بیعت کے وقت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ اس دنیا فانی سے کوچ کر گئے تھے، عبد اللہ بن عمرؓ اور عبداللہ بن عباسؓ نے رخصت کی راہ اپنائی۔ عبد اللہ بن زبیرؓ کا اپنا یک انداز تھا۔ اور بہت سے جلیل القدر صحابہؓ اپنے مولا کے حضور پہنچ چکے تھے۔ چند گنے چنے صحابہ جو باقی تھے وہ بڑھاپے کی آخری مزلیں طے کر رہے تھے۔ خود امام حسینؓ جو صحابہ میں کم عمر تھے وہ بھی 56 برس سے تجاوز کر چکے تھے۔ پھر حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان خونریز جنگوں سے نقصان ہوا اس کے پیش نظر ان عظیم ہستیوں نے نہایت نیک نیتی سے امت کو ایک اور جنگ سے بچانے کے لئے سکوت اور رخصت پر عمل کیا۔
ان حالات میں تنہا امام حسینؓ تھے جنہوں نے ملوکیت کے مفاسد کا فوری ادراک کرتے ہوئے عزیمت کی راہ اپنائی۔ اور امت کو جنگ سے بچاتے ہوئے اپنے گھرانے کی قربانی دے کر خلافت و ملوکیت اور حق و باطل کے درمیان فرق بھی امت کو سمجھا دیا، چنانچہ امام حسینؓ نے میدان کربلا میں کرب و بلا کے عالم میں بھی اقدام نہیں کیا بلکہ دفاع میں اپنی تلوار کو اٹھا ئے رکھا۔اس موقع پر پرکشش پیشکش بھی ہوئی لیکن آپؓ نے سمجھوتا اور رخصت کی راہ اختیار نہیں کی۔
تاریخ کے کڑے وقت میں حضرت حسینؓ تنہا تھے لیکن آپؓ کو بھی ویسا ہی شرح صدر ہوا جیسا کہ صدیق اکبرؓ کو ابتداء خلافت میں ہوا تھا۔ سر دست بس اتنا ہی کہتے ہیں کہ اس مماثلت کے پیش نظر جب بھی کسی زباں پر حضرت حسین ؓ کا تذکرہ ہو تو جہاں ہمیں حیدر قرار کی شجاعت نظر آتی ہے وہیں ثانی اثنین کی استقامت بھی اپنے پورے جوش و خروش سے جھلکتی نظر آتی ہے۔ ایک نے ابتداء خلافت پر ثابت قدمی سے خلافت کی حقانیت کا لوہا منوایا تو دوسرے نے انتہاء خلافت پر خلافت کی حقانیت کی خاطر بے خوف و خطراپنی جان اور گھرانے کا نذرانہ پیش کیا۔چنانچہ دونوں عظیم ہستیوں کے ثابت قدم رہنے پر آنے والے واقعات نے رہتی دنیا پر یہ حقیقت واضح کر دی کہ ان کی استقامت بجا تھی۔(تحریر: احسن اقبال، ایبٹ آباد)۔۔