tna test

حقوق  صرف وفاداروں کے۔۔

تحریر :شکیل احمد بازغ

2016 میں ترکی میں جب فوج کی جانب سے اقتدار پر قبضہ کی ناکام کوشش ہوئی تھی تب عمران خان وزیر اعظم بننے کیلئے خوشامدی تقاریر کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہیں وہ الفاظ جب وہ کنٹینر پہ کھڑے ہوکر کہہ رہے تھے کہ پاکستان میں فوج اگر اقتدار پر قبضہ کرنے کیلئے نکلی تو پاکستانی قوم ان کا خیرمقدم کرے گی۔

حب الوطنی کے ثبوت کے چند تقاضے ہیں جو نبھانا ہوتے ہیں۔ نظریہ ملک اور اسکی افواج کیساتھ ہمیشہ کھڑے ہونا ہوتا ہے۔ یہی دنیا کے ہر ملک کے شہری کیلئے بنیادی اصول ہے۔

پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بارہا اس بات کی تردید کر چکی ہے کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ فوج کا اپنا ڈیکورم اپنا سسٹم ہے جس کے تحت وہ آئینی ذمہ داریوں تک محدود ہے۔ لیکن فوج کے اس بیانیئے کو سیاسی پارٹیوں کے قائدین نے اپنے عوام کو ہمیشہ سیاسی بیان بتایا اور ایسا تب بتایا جب مذکورہ پارٹی اقتدار سے باھر تھی۔ اقتدار ملنے کی امید ہو تو پاک فوج زندہ باد اور اگر اقتدار میں نہ ہوں تو افواج پاکستان پر بالواسطہ یا بلا واسطہ تنقید سے اپنے بونے قد کو دراز کرنے کی سعی میں جُتے رہتے ہیں۔ یہ کیسی سیاست ہے۔ یہ کیسا نظریہ ہے جو آئین پاکستان کے یکسر برخلاف ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کاوطیرہ بن چکا کہ سب اپنی ہی فوج کو رگیدنے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر لینے کو اپنی فتح مانتے ہیں۔ مجھے کیوں نکالا ہو یا ذوالفقار علی بھٹو کی متنازع سیاست مولانا فضل الرحمٰن کی  ذاتی خاکی وردی میں ملبوس غیر آئینی فوج کی نمائش ہو یا پھر اے این پی کا ملک فوج اور اسلام مخالف سیاست اور اب یہ عمران خان کی فوج پاکستان اور اسلام مخالف دہشتگردانہ سیاست۔ بھولے عوام کو آزادی کا گیان بانٹتے بانٹتے اسرائیلی حمایت یافتہ امریکی سینیٹرز سے مدد کی بھیک۔

سوچتا ہوں کہ کاروبار اور اقتدار کی ہوس کیسی بدبودار شے ہے کہ تاجر و سیاستدان مفادات کیلئے اندھے ہوکر ملک عزیز اور اسکے نظریئے سے وفا تو کیا اس کے وجود کے ہی مخالف ہوجاتے ہیں۔ اور ایسا یہ پاکستانی صرف پاکستان میں کرتے ہیں جب یہی پاکستانی یورپ یا مغرب کے کسی ملک میں نیشنیلٹی حاصل کرلیتے ہیں وہاں  ان کی زبانیں گُنگ اور دل مُطیع ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ تو وہاں کے مقامی عوام سے بڑھ کر ان ممالک کے آئین ملک اور کنگز و کوئینز سے وفا کا دم بھرتے ہیں۔ خداجانے پاکستان کو انہوں نے مفت کی شاید چراگاہ بنا رکھا ہے۔ کہ جو آتا ہے آئین توڑ کر جیب میں ڈالنے اور افواج کا بازو مروڑ کر سرحد پہ کھڑے محافظوں کا مورال گرانے کی سیاست میں لگ جاتے ہیں۔

دنیا کا کون ذی شعور شخص اپنی ملکی دفاعی لائن کے خلاف زہر افشانی اور دل میں کجی و نفرت جیسی سوچ کو مثبت و حب الوطنی مانے گا؟

کیا یہ غلط ہے کہ سیاستدان جس انگلی کو پکڑکر سیاست میں آتے ہیں۔ حصولِ مقصد کے بعد اسی انگلی کو چبانے لگتے ہیں۔

اے این پی ۔ ٹی ٹی پی اور تحریک انصاف میں ایک قدر مشترک دیکھی  اور وہ ہے پاک فوج کے خلاف پاکستان کے خلافاسلام کے خلاف اغیار جیسے قول و فعل کا اظہار۔ یہ کیا کہ ایل او سی نفرت کی لکیر ہے یا پھر یوں کہنا کہ خان نہیں تو پاکستان نہیں۔ یا اے این پی کی جانب سے 1947 سے اب تک پاکستان کے وجود کو دلی تسلیم نہ کرنا اور ایک الگ ریاست پختونستان

کا مطالبہ۔ ادھر سندھو دیش کا نعرہ۔ ان سب کی سیاست پاکستان کے وجود سے وفا کے تقاضوں پر پوری اترتی ہوتی تو ذی شعوروں کیلئے یہ سوالیہ نشان کبھی نہ بنتے۔ حقوق اس کے ہوتے ہیں جو ملک و آئین سے وفا کریں۔ ملک کے دشمن کو دشمن مانیں اور دوست کو دوست۔ پاکستان میں کوئی شخص ادارہ  یا گروہ پاکستان سے بڑا نہیں اور نہ پاکستانی عوام ایسے کسی کو بڑا مانتے ہیں۔  ایک چیک ان سب پر ضروری تھا۔ ایک اددہ ہاتھ کا انگوٹھا ان سب کی گردن پہ نہ ہوتا تو اکھنڈ بھارت کا خواب اب تک پورا ہو چکا ہوتا۔ جو بھی اپنے زعم میں پاکستان سے خود کو بڑا مانے اور پاکستان یا مظریہءِ پاکستان سے انحراف کرے اسے ملک بدر ہنا چاہیئے یا پھر جیل میں ۔

عرض مکرر ہے آئین پاکستان اسکے حقوق کا ضامن ہے جو پاکستان نظریہ پاکستان اور اسکی جغرافیائی حدود کے محافظوں سے بیر نہ رکھتا ہو۔واللہ اعلم۔۔(شکیل بازغ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں